اپنے والد شیخ پیر کے وصال کے بعد حضرت شیخ قطب الدین مسند نشین ہوئے۔ آپ بڑے عبادت گذار اور مرد مجاہد تھے اور سلوک کی تمام منازل طے کر کے مسلک تجرید میں گامزمن ہوئے۔ آپ زیارت حرمین شریفین کیلئے تشریف لے گئے۔ اور اکثر مقامات کی سیر اور اولیائے وقت کی صحبت سے مستفیض ہونے کے بعد وطن واپس آکر تربیت مریدن میں مشغول ہوگئے تھے۔ شیخ معروف ومجذوب صاحب حال جو قصبہ پانی پت میں رہتےتھے آپ کے مرید تھے۔ کچھ عرصہ کے بعد حضرت شیخ قطب الدین کلی شرف گئے۔ اور حضرت مخدوم علاؤ الدین علی احمد صابر قدس سرہٗ کی روح پاک سے فیض حاصل کیا۔ آخر حضرت مخدوم صابر قدس سرہٗ نے فرمایا کہ اب تمہارا اجل قریب آگیا ہے اپنے گھر جاؤ۔ اور اپنی ہڈیوں کو اپنے آباواجداد کے پہلو میں رکھو آپ نے عرض کیا کہ حضور میرے آباواجداد کی عمریں تو بہت دراز تھیں مجھ سے کیا تفصیر ہوئی ہے کہ پچا س ساٹھ سال کی عمر میں جارہا ہوں۔ فرمایا کہ تم نے اپنی عمر کے بیس سال رحمت کو دیے ہیں ہیں اب جاؤ اور مشائخ عظام کی امانت کو امانت دار کے سپرد کرو۔ امانت دار سے مراد آپکے فرزند ارجمند حضرت شیخ حمید ہیں۔
اپنی عمر سے بیس سال رحمت خان کو عطا کرنے کا واقعہ
بیس سال عمر رحمت خان کو عطا کرنے کا وقعہ یوں ہے کہ رحمت خاں بادشاہ جلال الدین اکبر کے جلیل القدر امرائیں سے تھا۔ اور حضرت شیخ قطب الدین کا مرید تھا۔ ایک دفعہ سخت بیمار ہوگیا۔حضرت شیخ عیادت کے لیے تشریف لے گئے تو دکھا کہ وہ بہت تکلیف میں مبتلا ہے اسکی حالت دیکھ کر حضرت اقدس کو رحم آیا اور زبان مبارک سے فرمایا کہ میں نے اپنی عمر میں سے بیس سال تجھے دیے۔ حضرت اقدس کی دعا حق تعالیٰ نے قبول فرمائی اور رحمت خان صحت یاب ہوگیا۔ حضرت شیخ قطب الدین یہ بات بھول چکے تھے جب مخدوم صابر نے آپکو یہ بات یا د دلائی تو عرض کیا کہ اب میری عمر میں سے کتنے دن باقی ہیں۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ تجھے تین ماہ کی مہلت ہے۔ یہ سنتے ہی حضرت باقی ہیں۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ تجھے تین ماہ کی مہلت ہے۔ یہ سنتے ہی حضرت شیخ قطب الدین فوراً اپنے گھر پہنچے اور خرقۂ خلافت اور مشائخ چشت کی امانت اپنے فرزند شیخ حمید الدین کے سپرد کی۔ اور تین ماہ کے بعد واصل بحق ہوئے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔
(قتباس الانوار)