خواجہ حسام الدین احمد
خواجہ حسام الدین احمد (تذکرہ / سوانح)
خواجہ حسام الدین احمد علیہ الرحمہ
خواجہ حسام الدین علیہ الرحمہ کے والد قاضی نظام الدین بدخشانی بہت بڑے عالم فاضل تھے۔ ان کا شمار نامور امرائے اکبری میں ہوتا تھا۔ قاضی نظام الدین مشہور بزرگ عالم سعید ترکستانی اور نامور محقق احمد جنید کے تلمیذ ضاص تھے۔ اس طرح خواجہ حسام الدین کے گھرانے میں علم و فضل اور امارت دونوں چیزیں ایک ساتھ جمع ہوگئی تھیں اور خود خواجہ حسام الدین بھی ایک بڑے سرکاری عہدے پر فائز تھے اور شہنشاہ اکبر کے مشیر اعظم ابو الفضل سے بھی ان کی رشتہ داری تھی تاہم انھوں نے دنیا کے تمام مال و جاہ کو ٹھکرا کر حضرت خواجہ صاحب علیہ الرحمہ کی مصاحبت اختیار کی اور دنیاوی شان و شوکت کو چھوڑ کر فقیری اور درویشی اختیار کی۔
وزیر السلطنت ابو الفضل کو ان کا یہ رویہ ناپسند ہوا اوروہ درپئے آزاد ہوگیا۔ جب ابوالفضل کی دشمنی انتہا کو پہنچ گئی تو انھوں نے اپنے پرو مرشد سے اس کی مخالفت کی شکایت کی، حضرت خواجہ صاحب علیہ الرحمہ نے فرمایا:‘‘تمہیں اطمینان رکھنا چاہیے انشا اللہ عنقریب اس کے کاروبار برہمی پیدا ہوگی’’۔ اس ارشاد کے تھوڑے دنوں کے بعد ابو الفضل کے قتل کی خبر سارے شہر میں مشہور ہوگئی’’ اسی طرح خواجہ حسام الدین اس کی مخالفت سےمحفوظ ہوگئے۔
خواجہ صاحب علیہ الرحمہ مرض الموت میں آپ کی تیمارداری خواجہ حسام الدین علیہ الرحمہ ہی کے سپرد تھی، خواجہ صاحب علیہ الرحمہ کے وصال کے وقت صرف آپ ہی حاضر تھے اور آپ ہی کے ہاتھوں حضرت باقی باللہ کی تجہیز و تکفین ہوئی اور اس کے بعد خانقاہ اور خواجہ صاحب علیہ الرحمہ کے اہل و عیال کی نگرانی اور صاحبزادوں کی تعلیم و تربیت کے فرائض آپ ہی انجام دیتے رہے۔ دونوں صاحبزادے اپنے والد محترم کی وفات کے وقت بہت چھوٹے تھے اس لیے ان کی پرورش اور تعلیم و تربیت میں آپ انتھک کوشش کرتے رہے۔
حضرت شیخ احمد سرہندی علیہ الرحمہ اگرچہ سب سے بڑے خلیفہ تھے مگر چونکہ انھیں سرہند شریف ہی میں رہنے کا حکم ہوا تھا اس لیے وہ درگاہ خواجہ باقی باللہ علیہ الرحمہ اور آپ کے اہل و عیال کی خدمت و نگرانی دہلی میں رہ کر نہیں کرسکتے تھے۔ اس خدمت کو خواجہ حسام الدین نے بحسن و خوبی انجام دیا اس کا اعتراف حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ صاحبزادگان کے نام ایک مکتوب میں اس طرح فرماتے ہیں:۔
‘‘ حق سبحانہ خواجہ حسام الدین احمد کو ہماری طرف سے جزائے خیر دے کہ انھوں نے ہم کو تاہی کرنے والوں کی ذمہ داری کو اپنے ذمہ لیا اور آستانۂعالیہ کی خدمت کےلیے کمر بستہ ہوگئے ہیں اور ہم جیسے دور رہنے والوں کو فارغ کردیا ہے۔’’[1]
خواجہ حسام الدین احمد علیہ الرحمہ بھی حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کے بہت معتقد تھے۔ انھوں نے نہ صرف حضرت خواجہ صاحب کے دونوں صاحبزادگان کو سن وشعور پر پہنچنے کے بعد حضرت مجدد الف ثانی علیہ الرحمہ کی خدمت میں تعلیم و تربیت کے لیے بھیجا بلکہ اپنے بڑے صاحبزادے کوبھی تعلیم و تربیت کےلیے حضرت مجدد صاحب کے آستانہ پر بھیجا ۔۲؎
ٍ آپ کا روزانہ کا معمول یہ ہوتا تھا کہ آپ نماز فجر فیروز آباد میں ادا فرماتے تھے اس کے بعد مراقبےے میں بیٹھے رہتے۔ طلوعِ آفتاب کے بعد نماز اشراق پڑھ کر کردرگاہ خواجہ باقی باللہ کی طرف جو وہاں سے تقریباً دو میل شہر سے باہر روانہ ہوتے وہاں پہنچ کر دن بھر تلاوت و عبادت اور مراقبہ میں مشغول رہتے۔ روزانہ قرآن مجید کے پندرہ پارے تلاوت فرماتے تھے۔ نیز مشکٰوۃ المصابیح کے ترجمہ سے چند احادیث بھی مطالعہ فرماتے تھے۔
درگاہ شریف میں نماز عصر پڑھ کر اپنے اہل و عیال کی خبر گیری کےلیے شہر اپنے گھر تشریف لے جاتے تھے اس کے علاوہ اگر کوئی مہمان آجاتا تھا تو اس موقع پر مہمان ک خاطر داری کےلیے فوراً گھر پہنچ جاتے تھے ورنہ گھر میں بہت کم رہتے تھے۔
آپ امراء اور دیگر حضرات سے الگ تھلگ رہتے اور تنہائی میں زندگی گذارتے تھے اور لوگوں کےہجوم کو پسند نہیں کرتے تھے تاہم کوئی غریب حاجت مند حکام سے سفارش کرانے کےلیے آتا تھا تو فوراً اس کی رفع حاجت کےلیے سفارش تحریر فرمادیا کرتے تھے، آپ کے صاحبزادگان اور بعض دیگر معتقدین ہر کس و ناکس غریب ضرورت مند کےلیے سفارش لکھ دینے کو ناپسند کرتے تھے۔ اور کہتے تھے کہ آپ کو اپنی عزت و آبرو کا بھی خیال رکھنا چاہیے مگر آپ غریب مسلمانوں کی ضرورتوں کوپوراکرنے کو اپنی عزت و آبرو پر بھی مقدم سمجھتے تھے۔آپ نے تقریباً ستر برس کی عمر میں ۱۰۴۵ ھ میں وفات پائی [2]
[1] زہدۃ المقامات ص۸۰ ؎۲ زہدۃ المقامات ص ۸۲
[2] زہدۃ المقامات ص ۸۱ ۔ ؎ سیرتِ باقی مطبوعہ دہلی۱۹۲۶ء
(حیات باقی)