آپ خواجہ مسعود پان پوری کے فرزند ارجمند تھے۔ زہدو تقوی عبادت و ریاضت میں بے نظیر تھے۔ توحید پر گفتگو فرماتے اور برملا فرماتے ایک دن ملا شاہ جو حضرت میاں میر لاہوری کے خلیفہ تھے آپ کی ملاقات کو کشمیر میں گئے۔ بابا علی کی خدمت میں ایک بوریے پر بیٹھ گئے۔ چونکہ بابا علی کشمیر زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں گفتگو نہیں کرتے تھے۔ اور ملا شاہ سوائے فارسی کے دوسری زبان استعمال نہ کرتے تھے۔ دونوں بزرگوں نے باہم گفتگو نہ کی۔ آخر ملا شاہ اٹھے اور اپنا منہ دروازے کے طرف کرکے جانے لگے۔ اور زبان نے کہا۔ ’’یہاں بوریے کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔‘‘ بابا علی نے حاضرین مجلس سے پوچھا کہ ملا قادری کیا فرماتے ہیں۔ لوگوں نے بتایا کہ وہ فرماتے ہیں۔ کہ ’’یہاں بوریے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔‘‘ آپ نے اپنے دونوں ہاتھ ازرہ تاسف زمین پر مارے اور فرمایا۔ اگر یہ بزرگ توحید پر عقیدہ کامل رکھتے تو اللہ کو پا لیتے۔ اور بوریا پر نگاہ نہ رکھتے یہ بات حضرت ملا شاہ نے سنی۔ تو واپس چلے آئے۔ معذرت چاہی۔ اور قدموں میں بیٹھ گئے۔ اس کے بعد دونوں بزرگ دوستانہ ماحول میں گفتگو کرنے لگے۔
تواریخ اعظمیٰ نے آپ کا سن وفات ۱۰۵۹ھ لکھا ہے۔ مزار پر انوار کشمیر میں ہے۔
رفت از دنیا بخلد جاوداں فیض حقانی بگو تاریخ او ۱۰۵۹ھ
|
|
چوں علی والا ولی مشتاق حق ہم دگر فرما علی مشتاق علی ۱۰۵۹ھ
|
(خذینۃ الاصفیاء)