سراج العلماء علامہ قمر الدین اندھڑ
سراج العلماء علامہ قمر الدین اندھڑ (تذکرہ / سوانح)
سراج العلماء حضرت علامہ مولانا قمر الدین بن رازق ڈنہ بن رحیم ڈنہ اندھڑ پنو عاقل ( ضلع سکھر ، سندھ ) کے چیچڑا شریف سے ڈھائی میل پر ’’گوتھ تربت ‘‘ ( اس گوٹھ میں کسی درویش کی مزار ہے اسی لئے اس گوٹھ کو تربت ( مزار ) کہا جاتا ہے ) وہاں ولادت ہوئی ، لیکن سن ولادت ان کے بیٹوں کو بھی معلوم نہیں ہے۔ اندھڑ قوم اور چاچڑ قوم ابتدا سے شیخ الاسلام ، غوث العالمین ، حضرت بہاوٗ الدین ذکریا ملتان اور ان کے خلیفہ حضرت نواب صاحب کے حلقہ ارادت میں رہے ہیں ۔ اندھڑ قوم میں سب سے پہلے جس نے وہابیت اختیار کی وہ تاج محمود امروٹی کا خلیفہ مولوی حماد اللہ ھالیجوی (متوفی ۱۹۶۲ء ) تھا
مولانا غلام رسول عباسی مرحوم ( لاڑکانہ ) اپنے دادا استاد محترم کے متعلق رقمطراز ہیں : مولانا قمر الدین صاحب ایک متبحر عالم ، متقی ، صوفی مزاج اور سہروردی طریقت رکھتے تھے۔ ( سوانح نمبر ۱۹۵۷ء ص ۱۵۹)
تعلیم و تربیت :
ابتدائی تعلیم اپنے چچا میاں الھ ڈنہ کے پاس حاصل کی ( میاں الھ ڈنہ ولد رحیم ڈنہ وقت کے بہترین عالم دین زبردست صوفی اور ماہر کا تب تھے ۔ مختلف فنون میں انہوں نے کئی کتابیں تصنیف کیں ۔ میرے والد قمر الدین کے چچا اور میرے نانا بھی تھے ۔ مظہر ) اس کے بعد رستم میں مولانا عبدالستار رستمی کے ہاں تعلیم حاصل کی ۔ انہی دنوں عشق مجازی سے متاثر ہوئے جس کے سبب پڑھائی چھوٹ گئی ۔ یہ صورتحال دیکھ کر آپ کی والدہ صاحبہ حضرت میاں محکم الدین اندھڑ ؒ ( خلیفہ حضرت مولانا محمد جامی سہروردی ؒ ) کی خدمت میں حاضر ہوئی اور بیٹے کا پورا ماجرا بیان کر کے دعا کی درخواست کی۔ حضر ت میاں صاحب نے دعا کے لئے ادھر ہاتھ اٹھائے ادھر آپ کی کا یہ ہی پلٹ گئی کہ عشق مجازی سے عشق حقیقی کی طرف ترقی ہوگئی ۔ ( بزرگ کی امداد و نصرت سے آپ گمراہی سے بچ گئے اور اپنی منزل میں کامیابی سے ہم کنار ہوئے اور زندگی بھر علم کے پیاسوں کو سیراب کرتے رہے ) سبحان اللہ !
اس کے بعد پھر تعلیم جاری رکھی ڈیرہ غازی خان اور دوسرے مقامات پر تعلیم حاصل کی ۔ آخر میں بھونگ شریف ( تحصیل صادق آباد ) میں رئیس العلماء حضرت علامہ مولانا نظر محمد اندھڑ کے پاس معقولات اور دیگر فنون پڑھنے کے بعد احادیث کا درس لیا اس کے بعد فارغ التحصیل ہوئے ۔
درس و تدریس :
بعد فراغت مدرسہ جامع مسجد گھوٹکی میں تقریبا ۱۵ سال درس دیا، علم کے چراغ روشن کئے ۔ اس کے بعد میاں شمس الدین اندھڑ کے گوٹھ میں درس دیا۔ اس کے علاوہ میاں امان اللہ کے گوٹھ درس دیا ۔ ناساز گار حالات کے پیش نظر حرمین شریفین کو جانے کا پروگرام بنایا۔ لیکن حضرت میاں محکم الدین ؒ نے غور کیا کہ غریب ہونے کے سبب مولانا پر حج فرض نہیں ہے اور دوسری بات جید عالم کے یہاں رہنے سے علم کی شمع روشن رہے گی ۔ اس لئے آپ نے مولانا صاحب کی شادی کا پروگرام بنایا اور مستقل ہجرت سے روکا۔ مولانا صاحب نے اپنے مرشد کے حکم سے اپنے چچا کی بیٹی سے شادی کی اور حضرت میاں صاحب نے شادی کے انتظامات کئے ۔ اس طرح آپ کی ہجرت کا پروگرام رک گیا اور سندھ میں رہے اور زندگی بھر علم کی روشنی کو خوب پھیلایا۔ ( شریعت سوانح نمبر )
بیعت :
اس سے معلوم ہوا کہ آپ حضرت میاں محکم الدین اندھڑ سے سلسلہ عالیہ سہروردیہ میں بیعت تھے۔
حضرت میاں محکم الدین اندھڑ ، میاں محمد جامی سہروردی ( قبہ جامی ، جہانیاں ضلع سکھر ) کے خلیفہ تھے۔ مولانا قمر الدین اندھڑ شاگرد تھے علامہ نذر محمد اندھڑکے وہ شاگرد تھے علامہ محمد ابراہیم سرحدی کے وہ شاگرد و خلیفہ تھے حضرت مولانا میاں محمد جامی سہروردی کے ۔
اولاد :
شادی سے مولانا صاحب کو چار بیٹے تولد ہوئے ۔
۱۔ انوار الدین
۲۔ مظہر الدین
۳۔ ظہیر الدین
۴۔ سعد الدین
تلامذہ :
آپ کے تلامذہ کی تعداد کثیر ہے جن میں سے بعض کے اسماء معلوم ہو سکے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں ۔
٭ مولانا مفتی عبدالرحمن دھامراہ گوٹھ دھامراہ
٭ مولانا عبدالرحمن چنہ فیروز شاہی تحصیل میہڑ
٭ مولانا میر محمد نورنگی جاگیرانی نور نگ واہ قمبر علی خان
٭ مولانا نور محمد چاچڑ راجن پور ( اباوڑو )
٭ مولانا محمد اسماعیل بھٹو گھوٹکی
٭ مولانا محمد حسین تھیم
٭ میاں غلام حیدر شاہ پھنواری
٭ مولانا عبدالکریم کورائی کور سلیمان ، قمبر
٭ مولوی جان محمد تما چائی
٭ مولوی عبدالوہاب کولاچی
٭ مولوی حماد اللہ ھالیجوی وہابی
تصنیف و تالیف :
علامہ قمر الدین اندھڑ کی بعض تصانیف معلوم ہو سکی ہیں جو کہ درج ذیل ہیں :
۱۔ دافعہ نحو کے فن میں کافیہ کا اختصار تحریر کیا مگر کافیہ کی جن عبارات پر اعتراضات ہیں ان میں ترمیم یا اضافہ کیا۔
۲۔ رافعہ شرح دافعہ نامکمل
۳۔ رسالہ قمریہ منطق کے موضوع پر
۴۔ شمیہ شرح قمر یہ
۵۔ علم بیان
عربی میں تحریر کیا پھر اس پر فارسی میں حاشیہ رقم کیا۔
وصال :
حضرت مولانا قمر الدین اندھڑ کا سن وصال مجھے یاد نہیں ہے ۔ حضرت مولانا عبدالرحمن ضیائی نے مولانا صاحب کی وفات پر نظم کہی تھی اس میں وفات کی تاریخ بھی درج تھی ۔ وہ نظم بھی محفوظ نہیں ہے۔ مولانا مرحوم کا مزار گوٹھ چیچڑے کے میان بگی شیر کے قبرستان ( پنوعاقل ) میں واقع ہے ۔
(مولوی مظہر الدین اندھڑ شریعت سوانح نمبر ۱۹۸۱)
یہ کم المیہ ہے کہ بیٹے کو والد کے انتقال کی تاریخ ماہ سال یاد نہیں ۔ فقیر نے اپنی طرف سے مختلف ذرائع سے سن وصال اور مولانا ضیائی کا نتیجہ فکر قطعہ تاریخ وصال حاصل کرنے کی بھر پو ر کوشش کی لیکن کہیں سے بھی سراغ نہیں ملا۔
(انوارِ علماءِ اہلسنت )