آپ نے اپنا حال خود اپنے قلم سے یوں تحریر فرمایا ہے:
اس خاکسار کو اجازت بیعت وکالتاً ہے۔ چنانچہ دہلی اور ٹھسکہ میرا نجی میں اکثر زن و مرد نے اس خاکسار کے ہاتھ پر وکالتاً بیعت کی۔ اور ذکر و شغل وغیرہ کی تلقین کی اجازت اصالتاً ہے۔ اس عاجز کو حضور نے پہلے عالم رؤیا میں ۱۸۷۲ء میں دہلی میں اور ۱۸۷۳ء میں لاہور میں بیعت کیا۔ پھر عالم ظاہر میں انبالہ میں بیعت کیا۔ یہ بندہ مثل یوسف علی صاحب اور حکیم جی (معز الدین) کے حضور میاں صاحب کا منظور نظر تھا۔ حضور اکثر میری گستاخی کو بھی معاف کر دیتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ اس کی باتیں مستانہ ہیں۔ میاں صاحب کی حالت جلال میں سب اُٹھ کر بھاگ جاتے تھے۔ مگر بندہ بیٹھا رہتا تھا۔ عرصہ ۲۵ سال سفر میں و حضر میں حضور کے ہمراہ رہا۔ اور ۱۸۹۳ء سے بہ سبب ملازمت مدرسی تین سال کامل حضور انور سے توجہ لی۔ لطائف خمسہ ولایت صغریٰ اور موسوی و محمد ولایت کا فیض بھی فقیر پر القاء کیا ہے۔ کوئی سردار یا مکاشفہ کی بات بندہ سے مخفی نہ کرتے تھے۔ اور میرے خواب کی بابت فرماتے کہ جو بات اولیاء کو مراقبہ میں کھلتی ہے وہ اسے خواب میں کھلتی ہے۔ اور فرمایا کرتے کہ حکیم معز الدین اور سراج الدین فیض کی خوب کشش کرتے ہیں۔
میری بابت چند امور بطور بشارت کے فرمائے تھے۔ ان میں کچھ وقوع میں آئے اور بعض کا امید وار ہوں اول تو فرمایا کہ ہماری روح تجھ سے خواب و بیداری میں ملا کرے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ دویم فرمایا۔ کہ درود شریف جہرے سے پڑھا کر۔ تجھ پر جذب وارد ہوگا۔ چنانچہ اثناء درود خوانی میں بندہ کو کبھی کبھی جذب درقت ہوتی ہے۔ ۱۳۱۱ھ میں فرمایا۔ کہ مولوی! ہم نے اس وقت دیکھا۔ کہ تیرے ہاں کڑی منڈا (لڑکی لڑکا) سوہنا پیدا ہوا ہے اور تو کھلا رہا ہے۔ اور فارغبالی دنیا کی از حد دیکھی۔ اور تیرے سر پر نور برستا دیکھا سو ۱۳۱۴ھ میں بندہ کے گھر لڑکی اور ۱۳۱۵ھ میں لڑکا پیدا ہوا مگر گزر گیا۔ باقی اور بشارات کا امیدوار ہے۔ انتہےٰ بلفظ۔ آپ کا سنہ وفات مجھے معلوم نہیں۔
(مشائخ نقشبند)