صوفی ایاز خان نیازی
صوفی ایاز خان نیازی (تذکرہ / سوانح)
مجاہد تحریک ختم نبوت جناب صفی ایاز خان نیازی بن شاہ نواز خان نیازی ۱۵ جون ۱۹۱۳ء کو قصبہ بوری خیل ضلع میانوالی (پنجاب) میں تولد ہوئے۔ آپ کے والد زمیندار تھے اور مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔
تعلیم و تربیت:
ابتدائی تعلیم بوری خیل کی مسجد کے مکتب سے حاصل کی اس کے بعد علماء اہل سنت کی رفاقت ، مرشد پاک کی صحبت اور دینی کتابوں کے مطالعہ نے شعور اور معلومات میں وسعت پیدا کی۔
بیعت:
آپ ۱۹۳۱ء کو حضرت پیر سید محمد امین شاہ صاحب (دندہ شاہ بلاول تحصیل تلہ گنگ ضلع چکوال) سے سلسلہ عالیہ چشتیہ میں دست بیعت ہوئے۔ شاہ صاحب کا سلسلہ طریقت حضرت بحر عشق خواجہ غلام فرید قدس سرہٗ (کوٹ مٹھن شریف ضلع رحیم یار خان) سے ملتا ہے (بروایت جناب امان اللہ خان نیازی، کراچی)
اولاد:
آپ کے بڑے صاحبزادے امان اللہ خان نیازی (لیاری، کراچی) دینی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
سفر حرمین شریفین:
آپ نے ۱۹۶۷ء میں حج بیت اللہ اور روضہ رسول ﷺ کی حاضری کی سعادت حاصل کی۔
دینی و سیاسی خدمات:
صوفی صاحب نے پوری زندگی دین اسلام کیلئے وقف کر رکھی تھی۔ دینی و سیاسی خدمات انجام دیتے رہے۔ جمعیت علماء پاسکتان کے پلیٹ فارم سے ایک نڈر بے باک اور ولولہ انگیز سپاہی کی طرح تا حیات خدمات جاری رکھیں۔ لیکن ان کی خدمات کا دائرہ وسیع ہے۔ پاکستان سے پہلے علماء و مشائخ اہل سنت کی زیر قیادت تحریک پاکستان میں نمایاں کردار ادا کرتے رہے۔ ۱۹۷۴ء کو تحریک ختم نبوت میں قائد اہل سنت علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی علیہ الرحمۃ کے ہمراہ موثر جدو جہد کی ۔ تحریک ختم نبوت میں گرفتار ہوئے تشدد کا نشانہ بنائے گئے مگر آخر دم تک عقیدہ ختم نبوت ان کا مشن رہا جو کہ ان کے قلب و نظر میں سمایا ہوا تھا۔
۱۹۷۰ء کو علامہ عبدالمصطفیٰ الازہری اور علامہ سید سعادت علی قادری کی ہمت دلانے پر ایک مرتبہ علاقہ بکرا پیڑی لیاری کراچی سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا تھا۔
۱۹۷۰ء کو جمعیت علماء پاکستان کے پلیٹ فارم سے سوشلزم کے خلاف ملک بھر کا دورہ کیا۔
عادات و خصائل:
صوفی صاحب ظاہر و باطن میں پاکباز، پیکر جلال وجمال تھے۔ زمانہ طالب علمی سے عالم شباب اور بڑھاپے تک ان کے نظریات میں پختگی اور تسلسل قائم رہا۔ سخی، مہمان نواز اور کفایت شعار تھے ، یہی وجہ تھی کہ کبھی تنگدست نہ ہوئے۔ موصوف کی شخصیت بری باگ و بہار شگفتہ اور دل کش تھی ان کی مجلس میں اکتاہٹ کا گزر ہی نہ تھا۔ وہ بڑے حاضر جواب اور خوش کلام تھے۔
خطابت:
وہ کسی مسجد کے امام و خطیب نہ تھے لیکن جمیعت علماء پاکستان اور فدائیان ختم نبوت کے پلیٹ فارم پر ملک بھر میں فرنگیوں کے فرسودہ نظام ، جاگیرداری، سوشلزم، حکمرانوں کی غلط پالیسیوں، لوٹ کھسوٹ اور قادیانیت کے خلاف حق گو خطیب کی طرح گرجتے رہے۔ وہ اپنے خطاب میں ایسے دل کش اسلوب بیان کرتے تھے کہ جو ان پر شروع ہو کر ان پر ختم ہوگئے اور ان کی دل آویز خطابت نے سینکڑوں انسانوں کو دین سے قریب کیا اور شاید ملک کا کوئی گوشہ ایسا ہوگو جہاں آپ کی دلکش آواز نہ گونجی ہو۔
تصنیف و تالیف:
آپ نے تمام سیاسی مصروفیات میں سے وقت نکال کر ختم نبوت کے منکر، السام دشمن، ملک دشمن ، مرتد لعین قادیانیوں کے خلاف بھر پور کام کیا اس سلسلہ میں نہایت ضروری رسائل و مضامین بھی تحریر فرمائے اور آپ کی سرپرستی میں مولانا مفتی محمد امین قادری صاحب ختم نبوت کے موضوع پر ایک عظیم تاریخی کتاب کی تیاری میں مصروف ہیں، آپ کے تحریر کردہ کتابچے کا نام درج ذیل ہیں:
٭ قادیانیت کا فکری پس منظر
٭ مرزا غلام قادیانی انگریزوں کا خود کاشتہ پودا
فدائیان ختم نبوت تنظیم کا قیام:
مرزائیت قادیانیت کے خلاف علمائے اہل سنت و جماعت کی خدمات کو اجاگر کرنے ، مرتد فرقے کا عالمی سطح پر محاسبہ و مقالبہ کرنے اور ختم نبوت کا پرچار کرنے کیلئے حضرت صوفی ایاز خان نیازی نے مخلص احباب کے ساتھ مل کر ایک تنظیم ’’فدائیان ختم نبوت‘‘ کی بنیاد کراچی میں رکھی۔ جس کا اس وقت مرکزی دفتر دارالعلوم غوثیہ پرانی سبزی منڈی کراچی میں واقع ہے۔
مجاہد بے ریا جس نے بنا ڈالی ’’فدایان‘‘ کی
وہ صوفی با صفا ایاز خان ختم نبوت کا
(صلاح الدین سعیدی)
وصال:
جناب صوفی ایاز خان نیازی نے ۲۴ ربیع الآخر ۱۴۲۴ھ بمطابق ۲۵ جون ۲۰۰۳ء بروز بدھ بوقت تقریبا دس بجے دن انتقال کیا۔ بعد نماز عشاء جامع مسجد عالی شان بکرا پیڑی لیاری میں قائد اہلسنت علاہ شاہ احمد نورانی صدیقی القادری کی اقتداء میں نماز جنازہ ادا کی گئی۔ نعت خوانی درود خوانی قصدیدہ بردہ خوانی (بردہ شریف) کے ورد کے دوران میوہ شاہ قبرستان (لیاری) میں ان کی تدفین ہوئی۔
(ز بانی روایات کے علاوہ مولانا محمد بشیر القادری صاحب کے مرتب کردہ پمفلٹ ’’سوانح عمری‘‘ سے ماخوذ ہے)
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)