سلطان علاؤ الدین خلجی کی نذر عقیدت
سلطان علاؤ الدین خلجی کی نذر عقیدت (تذکرہ / سوانح)
سلطان علاؤالدین خلجی آپ کےروحانی تصرفات وکرامات کاشہرہ سن کرآپ کادل وجان سے شیدا و معتقدہوا،اس نےآپ کی خدمت میں تحائف پیش کرناچاہےاس کے امراءآپ(حضرت قلندر صاحب)کی خدمت میں جانےسےگھبراتےتھے۔ان پر آپ کاایسارعب تھاکہ آپ کےپاس جانے کی ہمت نہ پڑتی تھی۔سلطان علاؤالدین نےحضرت نظام الدین(رحمتہ اللہ علیہ)سےاجازت لےکر حضرت امیرخسرو کوتحائف دےکرآپ کی خدمت میں روانہ کیا۔۱؎
حضرت امیرخسروجب تحائف لےکرآپ کی خدمت میں پہنچےتوآپ نےان سے دریافت فرمایا کہ۔
"خسروہیڑی گوتجھ ہی کوکہتےہیں"؟
(خسروگانےوالاتجھ ہی کوکہتےہیں)۔
حضرت امیرخسرو نےجواب دیا۔
"جی ہاں،اسی ناچیزکوکہتےہیں"۔
آپ نے حضرت امری خسروسے پھرکلام کی فرمائش کی اورفرمایا۔
"ازچیزہائےخودچیزےبگو"(اپناکچھ کلام سناؤ)
حضرت امیرخسرونےحسب ذیل غزل آپ کو سنائی۔۲؎
اےکہ گوئی ہیچ سختی چوں فراق یارنیست |
گرامیدوصل باشدآں چناں وشوارنیست |
عاشقاں رادرجہاں یکساں نباشدروزگار |
زانکہ این انگشتہابردست من ہموارنیست |
خلق رابیداری بایدبودزآب چشم من |
ایں عجب کاں وقت میگوئم کہ کس بیدار نیست |
یک قدم برنفس خودنہ داں دگردرکوئے دوست |
ہرچہ بینی دوست بیں باایں دانت کار نیست |
چندمیگوئی بردزناربنداےبت پرست |
برتن خسرو کدامی رنگ کہ آں زنارنیست |
آپ یہ غزل سن کربہت خوش ہوئےاورحضرت امیرخسروسےفرمایاکہ اےخسرو!
"خوش می گوئی،خوش خواہی گفت خوشترخواہی رفت"۳؎
(اےخسروخوب کہتےہو،خوب کہوگےاورخوش ہوجاؤگے)
آپ نےپرحضرت امیرخسروسےکہاکہ تمہاراکلام توسن لیا،اب ہماری بھی ایک غزل سنو۔۴؎
دیہم خسرواں برمافعل استراست |
خسروکسےکہ حلقہ وتجریدبرسراست |
سیمرغ داراوبنفہم بقاف عشق |
کوعارف کہ منظراوعرش اکبراست |
نخل کلست علم لدنی بعارفاں |
ایں عقل علم وحسن فردوس مقرراست |
گفتم زعلم وعقل بملکےدگرشوم |
ملکم زعلم وعقل چوں دیدم فزوں تراست |
درس شرف بنود بالواح ابجدی |
لوح جمال دوست مرادربرابراست |
حضرت امیرخسروآپ کی غزل سن کررونےلگے،آپ نےپوچھا۔
"خسرو!روتاکیوں ہے،کچھ سمجھابھی"؟
حضرت امیرخسرونےجواب دیاکہ۔
"اسی وجہ سے روتاہوں کہ کچھ نہیں سمجھا"۔
آپ یہ سن کربہت خوش ہوئے۔امیرخسروکوتین روزخانقاہ میں رکھااورسلطان علاؤالدین خلجی کے بھیجےہوئے تحائف یہ کہہ کرکہ اگرمولانانظام الدین کاواسطہ درمیان میں نہ ہوتاتونہ قبول کرتا،ازراہ نوازش وکرم قبول فرمائیے۔
حضرت امیرخسروجب رخصت ہوئے،آپ نےدوخط ان کو دئیےاورتاکیدفرمائی کہ ایک خط
حضرت نظام الدین اولیاءاوردوسراعلاؤالدین خلجی کودینا۔سلطان علاؤالدین خلجی کےنام جوخط تھا، اس میں تحریر فرمایاکہ۔
"علاؤالدین فوطہ داردہلی مقررداندکہ بابندگان خدائےتعالیٰ نیکوکند"۔
(علاؤالدین فوطہ دارکومعلوم ہوکہ بندگان خداکےساتھ بھلائی کرے)۔
سلطان علاؤالدین خلجی کے امراءنےچہ میگوئیاں کیں کہ بادشاہ کوفوطہ دارلکھناادب کے خلاف ہے۔ سلطان علاؤالدین نےاپنےامرءسےکہاکہ غنیمت ہے کہ انہوں نے اس نام سے یاد توکیا،یہی بہت بڑی بات ہے۔
وفات:
آپ ۹ رمضان ۷۲۴ھ کوبڈھاکھیڑہ میں واصل بحق ہوئے۔مزارپرانوارپانی پت میں فیوض برکات کا سرچشمہ ہے۔
مرید:
آپ کےممتازمریدحسب ذیل ہیں۔
مبارک خاں،اختیارالدین اورشیخ احمد۔
سیرت:
آپ نےتیس سال تک سخت سےسخت مجاہدےکئے۔ہروقت عبادت الٰہی میں مشغول ومستغرق رہتےتھے۔آپ پرجذب الٰہی اس درجہ غالب تھاکہ آپ کو اپنی خبرنہ تھی،آپ کوعلوم ظاہری و باطنی میں کمال حاصل تھا۔آپ کومجذوب اولیاءکی صفت میں نمایاں درجہ حاصل ہے۔
قلندرانہ روش اورمجذوب ہونےکےباوجود آپ شریعت کا بہت احترام کرتےتھے۔ایک مرتبہ ایسا ہواکہ آپ کی مونچھوں کےبال بڑھ گئےکسی کی ہمت نہ تھی کہ آپ سےکہتاکہ مونچھوں کےبال
کٹوادیں۔آخرکارمولاناضیاءالدین سنائی سےرہانہ گیا۔مولاناضیاءالدین سنائی(رحمتہ اللہ علیہ) جو شریعت کےحامی تھے،اس کو خلاف شرع سمجھ کرآپ کی داڑھی پکڑی اورقینچی ہاتھ میں لےکر آپ کی مونچھوں کےبال کاٹے۔آپ نےکوئی اعتراض نہ کیا۔اس واقعہ کےبعدآپ اپنی داڑھی کو چوماکرتےتھےاورفرماتےتھے۔۵؎
"یہ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کےراستے میں پکڑی جاچکی ہے"۔
آپ نےکئی کتابیں لکھی ہیں۔آپ کی ایک کتاب "حکم نامہ شرف الدین"کےنام سےمشہورہے۔
آپ شاعربھی تھے۔آپ کاکلام حقائق ومعارف ،ترک وتجرید،عشق ومحبت کی چاشنی میں ڈوباہوا ہے۔
آپ کےخطوط مشہورہیں۔یہ خطوط آپ نے اختیارالدین کےنام تحریرفرمائےہیں۔
آپ کےخطوط تصوف کابیش بہاخزانہ ہیں۔
تعلیمات:
آپ کی تعلیمات گنجینہ معرفت ہیں۔
بہشت ودوزخ:
آپ فرماتےہیں۔۶؎
"خداوندتعالیٰ نےبہشت اوردوزخ بنائےاورفرمایاکہ ہردوکرپرکیاجائےگا۔معشوق کواس کے عاشقوں کے ہمراہ بہشت میں جگہ دوں گااورشیطان کواس کےپیرؤں کےساتھ دوزخ میں ڈالوں گا۔ بہشت اوردوزخ میں عاشق کےسوااورکوئی نہیں ہے۔دونوں عاشق کےحسن سےپیداہوئے ہیں اوردونوں میں کسی دوسرےکو جگہ نہیں دی جائےگی،بہشت دوستوں کےساتھ وصال کامقام ہے اوردوزخ دشمنوں کےلئےفراق کی جگہ۔۔۔"
عشق وعاشقی:
آپ فرماتے ہیں کہ۔۷؎
"اپنی طاقت میں رہ اوراپنےآپ کوپہچان۔جب تواپنےنفس کو پہچان لےگاتوعشق کوجان لےگا۔ جب عشق کواپنےحسن پرمعائنہ کرےگاتوزبان کوگونگاپائےگا۔عاشق ہوکرمعشوق کواپنے آغوش میں دیکھےگااورحسن کامعائنہ اپنےدل کےآئینےمیں کرےگا"۔
عاشق کافرمان:
آپ فرماتے ہیں کہ ۸؎
"خیال ہمیشہ اندیشہ کےساتھ وابستہ رہتاہے۔کبھی اندیشہ ہمارے آئینہ دل کو آراستہ کرتاہےاور عاشق کےسامنےمعشوق کوظاہرکرتاہے۔عاشق کافرمان جومعشوق نےپہنچایاہے،اس کےمطالعہ سے فرض عاشق اورسنت معشوق بجالاتا ہےاورعاشق کے عشق سےاورمعشوق کےحسن سےباطن کو معموررکھتاہےاورحسن کےتماشےسےعاشق اپنےظاہرکوبھلادیتاہےاورباطن کےتماشے میں مصرف ہوجاتاہےتاکہ جوحکم پہنچاہے،اس کانفاذہوجائے"۔
دنیاکی آرائش:
آپ فرماتےہیں کہ۔۹؎
"ناگاہ خیال نفس کاپارہوجاتاہےاورحال خیال کےساتھ ایک ہوکردنیاکی روزی کی خواہش پیداہوتی ہے۔خیال نفس کودنیاکی آرائش دکھاتاہےاوراس کےاشتیاق میں اس کو سرگرداں کرتاہےاور معشوق کےدروازےپرپھرآتاہے۔ہردروازے پرذلیل کرتاہےاورشوق و آرائش وآسائش میں اس کواس ذلت کی خبرنہیں ہوتی اوربازنہیں آتااوریہ نہیں سوچتاکہ اس نے کسی کےساتھ وفانہیں کی اوروفانہ کرےگی نہ اس کوموت کی فکرہوتی ہےکہ وہ اچانک آنےوالی ہےاوراس کو نہ چھوڑے
گی۔۔۔۔"
اقوال:
آپ کےچنداقوال ذیل میں پیش کئےجاتےہیں۔
۔ معشوق بھی تمہاری ہی شکل و صورت میں پیداکیاگیاہےاورتمہارے درمیان بھیجاگیا ہے، تاکہ تمہیں صحیح راستےکی طرف بلائے۔
۔ جب عنایت الٰہی تیرے شامل حامل ہوں اورتجھےجذبہ عطاکیاجائےاورتجھ کوتیری "توئی"سےجداکردیں اس وقت تمہارےاندرعشق داخل ہوتاہے اور تمہیں جلوۂ حسین دکھاتا ہے۔
۔ جب توحسن کوجان لےگاتومعشوق کو پہچانےگااورمعشوق پرعاشق ہوجائےگا۔
۔ جس وقت عاشق سےمعشوق مل جائے تووہ سنت معشوق اورفریضۂ عاشق کوملحوظ رکھے، اس وقت معشوق اورعاشق میں تمیزہوسکےگی۔
۔ عاشقی اختیارکر،دونوں جہاں کومعشوق کاحسن تصورکراورخودکومعشوق کاحسن سمجھ۔
۔ عاشق نےاپنےعشق سےتیراملک وجودبنایاتاکہ تیرےآئینے میں جمال حسن دیکھےاور تم کومحرم اسرارجانے۔
۔ نفس کواچھی طرح سمجھ،جب تواپنےنفس کو جان لےگاتودنیاکوپہچان سکے گااوراگرتو روح کوپہچان لے توعقبیٰ کوپہچان لےگا۔
۔ دنیاکی آرائش کاحسن عاشقان دنیاکواپنےعشق میں ایسابےخبرکردیتاہےکہ نہ ان کو دنیا کی خبرہوتی ہےجس کوانہوں نےمعشوق بنایاہےکہ وہ گزررہی ہےاورنہ عقبیٰ کی خبرہوتی کہ ہمارے سامنےکیامہم درپیش ہے۔
کرامت:
حضرت شیخ شمس الدین ترک پانی پتی کلیرسےآکرپانی پت میں مقیم ہوئے۔ایک روزان کامریدکسی کام سےآپ(حضرت قلندرصاحب)کےمکان کےسامنےسےگزرا۔اس نےدیکھاکہ آپ شیر کی صورت میں بیٹھے ہیں۔اس شخص نےاس بات کاذکرحضرت شمس الدین ترک پانی پتی سےکیا۔ انہوں نےاس شخص کوحکم دیاکہ و ہ آپ (حضرت قلندرصاحب)کےمکان پرجائےاوران کاسلام کہےاوراگرپھران کوشیرکی شکل میں بیٹھادیکھےتویہ پیغام ان کوپہنچائےکہ شیرکی جگہ جنگل میں ہے۔ وہ شخص حکم بجالایا۔جب آپ کےپاس پہنچاتوآپ کوپھرشیرکی شکل میں بیٹھاپایا۔اس نےحضرت شمس الدین ترک پانی پتی کاپیغام آپ کوسنایا،آپ وہاں سےشیرکی صورت میں اٹھےاورباگھوٹے میں جاکرقیام فرمایا۔۱۰؎باگھوٹےشہرسےباہرایک جگہ کانام ہے۔
حواشی
۱؎شرف المناقب
۲؎سیرت نظامی ص۳۶۳
۳؎تذکرہ شمس العارفین صدرالدین محمدترک بیابانی ص۱۸
۴؎سیرت نظامی ص ۲۶۳
۵؎اخبارالاخیار(اردوترجمہ)ص۲۷۲
۶؎مکتوب
۷؎مکتوب
۸؎مکتوب
۹؎مکتوب
۱۰؎سیرالاقطاب(فارسی)ص۱۹۱،۱۹۰
باب۱۷
(تذکرہ اولیاءِ پاک و ہند)