سلطان جلال الدین قریشی قدس سرہ
سلطان جلال الدین قریشی قدس سرہ (تذکرہ / سوانح)
آپ خانوادہ چشتیہ کے فیض یافتہ درویش تھے صاحب احوال و مقامات بزرگ تھے باطنی طور پر سالک تھے مگر ظاہری طور پر ایک مجذوب کی حیثیت سے رہتے تھے صحراء و بیابانوں میں گھومتے رہتے تھے اور صرف مخصوص پردے کے لیے لباس پہنتے تھے وہ علوم عقلی نقلی رسمی اور حقیقی کے ماہرین میں سے تھے جب کبھی ظاہری علوم کا اظہار کرتے تو لوگوں کو حیران کردیتے تھے مجرد تھے نوجوان تھے مگر کسی نفسانی چیز کی طرف توجہ نہ دیتے تھے کسی کو مرید نہ بناتے تھے اور فرمایا کرتے تھے میرا صرف ایک ہی مرید ہے جس کا نام ہشام ہے وہ بھی آپ کی طرح دشت و بیاں میں گھومتا رہتا تھا۔ آپ بعض اوقات عربی فارسی ہندی زبانوں میں بے ساختہ تقریر کرتے تھے جب آغاز گفتگو کرتے تو بڑی فصاحت کے ساتھ طویل گفتگو کرتے تھے جب نہایت جذبات میں آتے تو مجلس سے اٹھ کر صحرا و بیان کی طرف نکل جاتے۔
ملا محمد نارنولی فرماتے ہیں کہ ایک دن جامع مسجد میں آئے صفوں کو چیرتے ہوئے امام کے مصلے پر جاکھڑے ہوئے اس وقت شہر کے محتسب بھی مسجد میں بیٹھے تھے اور فجر کی نماز کا وقت تھا خوش الحانی سے قراْت کا آغاز کیا اور پڑھتے ہی گئے سر سے ننگے نماز پڑھاتے رہے لوگوں کو آپ کی اس عادت پر اعتراض ہوا آپ نے ننگے سر کے جواز اور طبیٔ قرأت کے حق میں علمی دلائل دیئے کہ تمام لوگ مبہوت ہوکر رہ گئے جب جذبات میں شدت آئی مسجد سے اٹھے اور صحرا کی طرف نکل گئے کہتے ہیں آپ کے ایک عقیدت مند نے آپ کے اقوال جمع کرکے ایک کتاب لکھی آپ کی خدمت میں لایا آپ نے اس کتاب کو اٹھا کر کنویں میں پھینک دیا۔
آپ بڑے رفیق القلب تھے اور عشق و محبت میں ڈوبے رہا کرتے تھے اکثر یہ شعر آپ کی زبان پر ہوتا تھا۔
حاصل عشقت سہ(۳) سخن است بیش نیست
سوختم و سوختم و سوختم
کبھی یہ مصرع پڑھتے۔
؎خام بُدم پختہ شدم سوختم!
کہتے ہیں آپ نے پانچ سال تک کسی کتاب کے بغیر ہی علم حقیقت حاصل کیا تھا ان پانچ سالوں میں آپ نے کبھی کسی انسان کی شکل نہیں دیکھی بیابان میں رہے درختوں کے پتے اور جڑی بوٹیاں کھاکر گزارہ کیا آپ کے استاد رجال الغیب ہی تھے۔
اخبار الاخیار نے آپ کی زندگی کا ایک واقعہ لکھا ہے کہ ابتدائے کار میں نوجوانی کے عالم میں ایک خوبصورت شخص پر عاشق ہوگئے یہ مجازی عشق عشق حقیقی میں تبدیل ہوتا گیا صحرائے اجمیر میں گھومتے رہے پھر رجال الغیب میں سے ایک شخص سے ملاقات ہوئی جو حسن و جمال ظاہری میں بھی بے مثال تھا آپ اسی کے پیچھے پیچھے روانہ ہوگئے اور ایک عرصہ تک اس کے پیچھے پھرتے رہے کسی نے آپ کو بتایا جس شخص کے پیچھے پھرتے ہیں وہ حضرت خضر علیہ السلام ہیں آپ نے فرمایا نہیں خضر علیہ السلام کی ملاقات سے پہلے سخت بارش ہوتی ہے لیکن یہاں ایسا واقعہ نہیں ہے یہ کوئی مرد ان غیب سے ہے۔
شجرۂ چشتیہ کے مولّف نے اس واقعہ کو یوں لکھا ہے کہ وہ حضرت خضر ہی تھے لیکن اخبار الاخیار نے اسے مردان غیب سے بیان کی ہے حضرت نے اس شخص سے سات سو پچیس علوم حاصل کیے تھے۔
حضرت جلال الدین قدس سرہ فرمایا کرتے تھے کہ میرا استاد اتنا حسین تھا کہ شاید حضرت یوسف علیہ السلام کا عکس جمیل ہو وہ اتنا خوش آواز ہے کہ حضرت داود علیہ السلام کے علاوہ دوسرے شخص کو ایسی خوش الحانی نصیب نہیں ہوئی فرماتے ہیں میں مرید ہوا تو فرمانے لگے جاؤ کہیں نوکری کرلو میں نے نوکری کرلی بڑا مال جمع کیا مگر ہر بار میرے مرشد نے کہا اسے غریبوں میں تقسیم کردو میں نے تین بار مال جمع کیا اور حضرت کے حکم پر غریبوں میں تقسیم کردیا اس طرح خالی ہاتھ پھر میں اسی خوش شکل نوجان کے پیچھے ہولیا مگر وہ مجھے دور صحراؤں اور جنگلوں میں لیے پھرا حتیٰ کے وہ میری نظروں سے غائب ہوگیا میں نے ایک ایسی جھونپڑی(حجرہ) دیکھی جس کے اندر پانی کا چشمہ اُبل رہا تھا اس حجرے میں میرے شیخ بیٹھے نظر آئے وہ اندر رہتے ہیں اس حجرے کے دروازے پر بیٹھا رہتا تھا۔ اس طرح پانچ سال گزر گئے صرف نماز کے وقت مجھے شیخ کی زیارت ہوتی تھی ان پانچ سالوں میں مجھے شیخ کی نگاہوں سے تین سو سے زیادہ علوم حاصل ہوئے باقی علوم کے لیے فرمانے لگے اب آگے نہ پڑھو تمہارے اندر برداشت کی طاقت نہیں پھر وہ روحانی بزرگ وہاں سے چل پڑے میں ان کے پیچھے پیچھے تھا حتیٰ کہ میری نگاہوں سے اوجھل ہوگئے میں آج تک ان کے فراق میں مبتلا ہوں۔
حضرت شیخ جلال الدین اپنے پیر و مرشد کے فراق میں روتے رہتے دیواروں سے ٹکریں مارتے اور زور زور سے روتے تھے آپ کی زبان پر یہ شعر ہوتا۔
درویش مونس تنہائی
درویش سرمۂ بینائی ما
درویش رفت دولت از سر ما
ہمائے بر پریداز کشور ما
کبھی کبھی یہ شعر پڑھا کرتے تھے
من مست عشقم ہشیار نخواہم شد
از روزی و قلاشی بیزار نخواہم شد
ایک دن چند کیمیاگر حضرت شیخ جلال الدین قدس سرہ کے سامنے کیمیاگری کے کمالات سنا رہے تھے آپ نے غصّے میں آکر کہا تف تمہاری کیمیاگری پر تف تمہاری کیمیاگری پر تف تف تف آپ نے تف تف کہا تو آپ کے منہ سے تھوک کے چند قطرے سامنے پڑے ہوئے پیتل کے تھال پر پڑے کیمیاگروں نے دیکھا تو تھال سونے کا بنا ہوا تھا۔
آپ کچھ عرصہ دہلی رہے پھر آگرہ میں آگئے۔ ۹۴۸ھ میں پچیس(۲۵) سال کی عمر میں فوت ہوگئے۔ آپ کا مزار مندوالے کے قریب ہے۔
بصدا جلال در خلد بریں رفت
چو سلطان جلال الدین محقق
بگو نور الکرامت وصل اونیز
جلال الدین قریشی بندہ حق
۹۴۸ھ