سلطان نورالدین مبارک
سلطان نورالدین مبارک (تذکرہ / سوانح)
آپ شیخ شہاب الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے خلیفہ، روحانی مقتدا اور دہلی کے شیخ الاسلام تھے، سلطان شمس الدین کے زمانہ میں آپ کو ’’میر دہلی‘‘ کہا جاتا تھا۔
فوائد الفواد میں لکھا ہے کہ ایک روز شیخ نظام الدین ابوالموید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی بزرگی میں گفتگو ہوئی کہ ایک مرتبہ بارش نہیں ہورہی تھی آپ سے لوگوں نے عرض کیا کہ بارش کے لیے دعا کیجیے، آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور بارش کے لیے دستِ دُعا اٹھایا اور یوں عرض کیا کہ اے اللہ! اگر تو نے بارش نہ برسائی تو میں اس سے پہلے کسی بھی آبادی میں نہ جاؤں گا، یہ کہہ کر منبر سے نیچے اتر آئے اللہ تعالیٰ نے بارش نازل فرمادی، اس کے بعد سید قطب الدین کی آپ سے ملاقات ہوئی، سید قطبِ الدین نے آپ سے کہا کہ آپ کے بارے میں ہماری عقیدت بہت مضبوط ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آپ کو نیاز کامل حاصل ہے، لیکن آپ نے یہ کیوں فرمایا کہ ’’اگر تو نے بارش نہ برسائی تو میں اس سے پہلے کسی بھی آبادی میں نہ جاؤں گا‘‘۔ حضرت شیخ نظام رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے جواب دیا کہ چونکہ مجھے یقین ہوگیا تھا کہ بارش برسے گی، اس لیے میں نے کہہ دیا، سید قطبِ الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے دریافت کیا کہ آپ کو یہ یقین کیسے حاصل ہوگیا، فرمایا کہ ایک مرتبہ دشت نشینی کے سلسلہ میں میرا اور سید نور الدین مبارک علیہِ الرحمۃ کا نزاع سلطان شمس الدین برازی کی خدمت میں پیش ہوا، میں نے کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے سید نور الدین ناراض ہوگئے، اسی وقت مجھ سے دعائے بارش کے لیے فرمایا، میں نے کہا کہ آپ تو مجھ سے ناراض ہیں، اگر آپ مجھ سے راضی ہوجائیں تو دعا کروں گا ورنہ نہیں کروں گا، ان کے خلوت خانہ سے آواز آئی کہ میں تم سے راضی ہوں، جاکر دعا کرو۔
غُلام زادہ: شیخ نصیر الدین محمود قدس سرہ سے منقول ہے کہ مشہور یہ ہے کہ سید نور الدین رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ایک بڑے بزرگ شیخ محمد احل شیرازی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے فیض نعمت حاصل کیا ہے، فرمایا کہ شیخ شیرازی کے مریدوں میں ایک سودا گر تھا، ایک روز اس نے شیخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے آکر عرض کیا کہ میرے گھرمیں ایک لڑکا تولد ہوا ہے جو آپ کا غلام زادہ ہے، اسے فیض نعمت پہنچائیے، شیخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ اچھی بات ہے، کل جب میں نماز فجر سے فارغ ہوجاؤں تو اپنے بچہ کو میری داہنی جانب سے لاکر سامنے پیش کرنا۔
اسی دن سید نور الدین مبارک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی پیدائش ہوئی، آپ کے والد بھی اس مجلس میں موجود تھے، اور یہ بات انہوں نے سن لی تھی، انہوں نے اپنے دل میں کہا کہ میں بھی اپنے نو مولود بچہ کو شیخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی خدمت میں لاؤں گا۔
سید زادے کی قسمت:
دوسرے روز جب نمازِ فجر کا وقت ہوا تو اس تاجر کو دیر ہوگئی، سید مبارک غزنوی کے والد علی الصبح اٹھے موذن نے تکبیر کہی اور شیخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے نماز پوری کی، سید مبارک کے والد نے شیخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی داہنی جانب سے آکر اپنے بچہ کو شیخ کے سامنے کردیا، شیخ نے ان پر نظر کرم فرمائی، یہ تمام نعمتیں اسی نظر فیض کا اثر ہیں، اس کے بعد وہ تاجر آیا تو شیخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ یہ نعمت تو سید زادہ کی قسمت میں تھی۔
فرمایا کہ غزنی میں ایک مرتبہ بارش نہ ہوئی، لوگ شیخ محمد اجل علیہ الرحمۃ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ بارش کے لیے دعا کیجیے، شیخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ یہ سن کر گھر سے باہر آئے ایک مخلوق آپ کے پیچھے تھی، شیخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے سامنے ایک باغ آیا، آپ باغ میں تشریف لے گئے، باغ کا مالی ایک درخت کے نیچے پڑا سو رہا تھا، آپ نے اسے بیدار کیا اور فرمایا کہ درخت خشک ہو رہے ہیں، اٹھ اور درختوں کو پانی دے، مالی نے جواب دیا کہ باغ بھی میرا اور درخت بھی میرے، جب ضرورت ہوگی پانی دیدوں گا، شیخ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس سے فرمایا کہ پھر اس مخلوق کو ہمارے پیچھے آنے سے منع کیوں نہیں کرتا، ہم اللہ کے بندے ہیں اور یہ زمین اللہ کی ہے، جب اللہ تعالیٰ چاہے گا بارش ہوجائے گی، آپ یہ بات فرماکر واپس ہوئے، تھوڑی دیر بعد بے انتہا بارش ہوئی، سید مبارک غزنوی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا مقبرہ دہلی میں حوض شمسی کے مشرقی جانب ہے آپ نے 632ہجری میں وفات پائی، رحمۃ اللہ علیہ
اخبار الاخیار