سیّدناعدی ابن حاتم رضی اللہ عنہ
سیّدناعدی ابن حاتم رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
بن عبداللہ بن سعدبن حشرج بن امرءالقیس بن عدی بن اخزم بن ابی اخزم بن ربیعہ بن جرول بن ثعل ابن عمروبن غوث بن علی طائی ہیں ان کے والد حاتم ایسے بخشش والے تھے کہ ان کی بخشش ضرب المثل تھی۔عدی کی کنیت ابوطریف تھی اوربعض نے کہاہے کہ ابووہب تھی ان کے نسب میں طی تک بعض ناموں کی نسبت نسب جاننے والوں نے اختلاف کیاہے یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ۹ھ ہجری ماہ شعبان میں وفدہوکرآئےتھے۔بعض نے کہاہے کہ۱۰ھہجری میں آئے تھےاوراسلام لائےیہ (پہلے )نصرانی تھے۔ہم کوابوالفضل یعنی عبداللہ بن احمدبن عبدالقاہر نے خبردی وہ کہتےتھے ہم کو ابومحمدیعنی جعفربن احمدقاری نے خبردی وہ کہتےتھے ہم کو علی بن محسن تنوخی نے خبردی وہ کہتےتھےہم سے عیسیٰ بن علی بن داؤدنے خبردی وہ کہتےتھے ہم کوعبداللہ بن محمد بن عبدالعزیز نے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے اسحق ابن ابراہیم مروزی نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے حمادبن زیدنے ایوب سے انھوں نے محمدبن سیرین سے انھوں نے ابوعبیدہ بن حذیفہ سے نقل کرکے بیان کیاوہ کہتےتھے میں عدی بن حاتم کی حالت کی نسبت کچھ دریافت کررہاتھااور وہ میرے ہمسایہ تھےمیں نے کہا کہ خود انھیں سے چل کرکیوں نہ دریافت کروں چنانچہ میں ان کے پاس گیا اور ان کی حالت پوچھی انھوں نے کہاکہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم جب مبعوث ہوئے تو آپ نے بلوابھیجاتومجھ کوایساسخت ناگوار ہواکہ اس سے زیادہ کوچیزناگوارنہ ہوئی پس میں وہاں سے چل دیا یہاں تک کہ جب میں روم کی سرحد کے قریب پہنچ گیاتھا تومجھ کومیری وہ جگہ ایسی ناگوار معلوم ہوئی کہ اس سے زیادہ سخت یاناگوار کوئی چیزنہیں معلوم ہوئی میں نے (اپنے دل میں )کہااگرمیں اس شخص(یعنی رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس جاؤں اگروہ کاذب ہوں گے تومجھ کوکوئی خوف نہیں ہے اوراگر سچّےہوں گے تومیں ان کی پیروی کرلوں گااورآگے بڑھنے لگا جب میں مدینہ میں آیا تولوگ میری اطلاع پاکرمیرے پاس آئے اورانھوں نے کہاعدی بن حاتم آئے عدی بن حاتم آئے پھر میں رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضرہواتوآپ نے فرمایااے عدی بن حاتم تم اسلام لاؤ میں نے کہاکہ میرابھی دین ہے آپ نے فرمایاکہ میں تم سے زیادہ تمھارے دیں کاجاننے والاہوں میں نے کہاآپ مجھ سے زیادہ میرے دین کوجانتے ہیں آپ نے دویاتین بارفرمایاہاں آپ نے پھر فرمایا کیاتم اپنی قوم کے رئیس نہیں ہوکیاتم مرباع نہیں کھاتے ہو میں نے کہاہاں پھر فرمایاکہ تم رکوسی (مذہب)نہیں ہوکیاتم مرباع نہیں کھاتے ہومیں نے کہاہاں آپ نے فرمایایہ توتمھارے مذہب میں جائزنہیں ہے۔
بعض لوگوں نےکہاہےکہ جب رسول خداصلی اللہ علیہ سلم نے قبیلہ طی کی طرف ایک تھوڑاسا لشکر بھیجاتوعدی نے اپنی بی بی کو(ساتھ)لیااورایک جزیرہ کی طرف چلے گئے تھے اوراپنی ہمشیرہ سفانہ بنت حاتم کووہیں چھوڑدیاچنانچہ مسلمانوں نے سفانہ ہی کوگرفتارکرلیا۔پس وہ اسلام لے آئیں اور اپنے بھائی کے پاس لوٹ کرگئیں اور ان کو رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بلایا پس عدی اپنی بہن کے ساتھ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضرہوکراسلام لائے ان کااسلام اچھاہوگیا ہم نے ان کو(آئندہ)ان کی ہمشیرہ سفانہ کے حال میں ذکرکیاہے انھوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سی حدیثیں روایت کی ہیں۔جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کاانتقال ہواتویہ حضرت ابوبکرصدیق کے پاس رات کے وقت میں اپنی قوم کی زکوۃ لے کرآئے تھے اوراسلام پر ثابت (قدم)رہے مرتد نہیں ہوئےاوران کی قوم بھی ان کے ساتھ ثابت(قدم)رہی یہ بڑی سخی اوراپنی قوم میں بڑے شریف تھے سب لوگ ان کی تعظیم کرتے تھے خواہ ان کی قوم کے ہوں یاکسی اور قوم کے حاضرجواب تھے۔ان سے روایت کی گئی ہے کہ انھوں نے کہاکہ مجھ پر کوئی نماز کاوقت داخل نہیں ہوا لیکن اس حال میں کہ میں اس کامشتاق رہتاتھا۔یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جس وقت آئےتھے توآپ ان کااکرام کرتے تھےہم کوبہت سے لوگوں نے اجازتاً ابوغالب بن بناء سے انھوں نے ابومحمدجوہری سے انھوں نے ابوعمرحیویہ سے نقل کرکے خبردی وہ کہتےتھے ہم سے احمد بن معروف نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سےحسین بن فہم نے بیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے محمد بن سعد نےبیان کیاوہ کہتےتھےہم سے یزید بن ہارون یعلی بن عبیدنےبیان کیاوہ کہتےتھے ہم سے اسمعیل بن ابوخالد نے عامرشعبی سے نقل کرکےبیان کیاوہ کہتےتھےجب عمر رضی اللہ عنہ (کی خلافت)کازمانہ ہواتوعدی بن حاتم حضرت عمرکے پاس آئے جب یہ حضرت عمرکے پاس گئے تو گویا حضرت عمرکی طرف سے اپنی جانب کچھ بے التفاتی دیکھی توانھوں نے کہایاامیرالمومنین کیاآپ مجھ کو پہچانتے ہیں حضرت عمرنے کہاہاں خداکی قسم پہچانتاہوں۔تم کواللہ تعالیٰ نے حسن معرفت کے ساتھ مشرف کیامیں تم کوپہچانتاہوں خداکی قسم تم اسلام اس وقت لائے ہوکہ لوگوں نے کفرکیا اور تم نے پہچانیاجب لوگوں نے انکارکیااورتم نے وفاکی جب لوگوں نے بدعہدی کی تم آگے ہوئےجب لوگ پیچھے ہٹے۔عدی نے کہاکافی ہے مجھ کواے امیرالمومنین مجھ کوکافی ہے عدی فتوح عراق اور واقعہ قادسیہ اورواقعہ مہران اور واقعہ خیبرمیں ابوعبیدہ کے ساتھ شریک تھے اوراس کے علاوہ (اور بھی فتوح میں شریک تھے)جب خالد بن ولید شام کی طرف گئے تھے تو یہ ان کے ساتھ بعض فتوح میں شریک رہے۔خالدبن ولید نےان کے ہمراہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پاس خمس بھیجاتھایہ عدی کوفہ میں رہتے تھے۔شعبی نے کہاہے کہ اشعث بن قیس نے عدی بن حاتم کے پاس ایک شخص کو بھیجاکہ ان سے حاتم کی دیگیں عاریت مانگے انھوں نے ان دیگوں کوبھردیااور مزدوروں کولاکر وہ دیگیں اشعث کے پاس بھیج دیں اشعث نے(یہ کیفیت دیکھ کر)عدی کے پاس کہلابھیجاکہ ہم نے خالی دیگیں چاہی تھیں عدی نے جواب دیا کہ ہم خالی دیگیں عاریت نہیں دیتے عدی(کی خیرات کی یہ حالت تھی)چیونٹیوں کے واسطے روٹی کے ریزے منتشرکرکے ڈال دیاکرتے تھےاور یہ کہاکرتے تھے کہ یہ ہمسایہ ہیں ان کا بھی حق ہے یہ عدی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے منحرف تھے جب حضرت عثمان کی شہادت ہوئی توانھوں نے کہاکہ ان کے قتل کی بابت ایک بکری کا بچہ بھی نہ ماراجائےگا۔جب واقعہ جمل میں ان کی ایک آنکھ پھوڑدی گئی اوران کا بیٹامحمد حضرت علی کی طرف ماراگیااوران کادوسرا بیٹا خارجیوں کے ساتھ ماراگیا تواسے کہاگیااے ابوظریف کیاحضرت عثمان کی شہادت میں بکری کابچہ ماراگیاانھوں نے کہا ہاں خداکی قسم بڑا بکرا(ماراگیا)یہ جنگ صفین میں علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ شریک تھے ان سے شعبی اورتمیم طرفہ اورعبداللہ بن معقل اورابو اسحاق ہمدانی وغیرہم نے روایت کی ہے انھوں نے ۶۷ھ ہجری میں وفات پائی تھی بعض نے کہا ہے ۶۸ھ ہجری اوربعض نےکہاہےکہ ۶۹ھہجری میں وفات پائی ان کی عمرایک سوبیس برس کی تھی بعض نے کہا کہ کوفہ میں مختارکے زمانہ میں وفات پائی تھی۔بعض نے کہاکہ قرقیسا میں وفات پائی تھی مگرقول اول بہت صحیح ہے۔ان کاتذکرہ تینوں نے لکھاہے۔
(اُسد الغابۃ ۔جلد ۷،۶)