سیدنا امام القرائ) ابی (رضی اللہ عنہ)
سیدنا امام القرائ) ابی (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن کعب بن قیس بن عبید ابن زید بن معاویہ بن عمرو بن مالک بن نجار جن کا نام یتم اللات ہے اور بعض لوگ کہتے ہیں یتم اللہ بن ثعلبہ بن عمرو بن خزرج اکبر انصاری خزرجی معاوی۔ ان کا نام نجار اس وجہ سے رکھا گیا کہ انھوں نے بسوے سے اپنا ختنہ کر لیا تھا اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ انھوں نے ایک شخص کے منہ پر بسولامار دیا تھا اور اس کا منہ کٹ گیا تھا لہذا ان کو لوگ نجار (بڑہئی) کہنے لگے اور معاویہ (٭یہ معاویہ نہیں ہیں جو ملک شام کے بادشاہ تھے یہ حضرت ابو سفیان کے بیٹِے ہیں)بن عمرو کی اولاد بنی حدیلہ کے نام سے مشہور ہے حدیلہ معاویہ کی ماں ہیں معاویہ کی اولاد سب انھیں کی طرف منسوب ہے اور یہ حدیلہ مالک بن زید بن حبیب بن عبد حارثہ بن مالک بن عضب بن جشم بن خزرج کی بیٹی ہیں اور صہیلہ بنت اسود بن حرام بن عمرو ابن زید مناۃ بن عدی بن عمرو بن مالک بن نجار کی دادی ہیں یہ صہیلہ وار حضرت ابی کے والد عمرو بن مالک بن نجار میں جا کے مل جاتے ہیں اور یہ صہیلہ ابو طلحہ زید بن سہل بن اسود بن حرام انصاری ام سلیم کے شوہر کی پھوپھی ہیں۔
ابن ابی بن کعبک ی دو کنیتیں ہیں (ایک) ابو المنذر یہ کنیت ان کی نبی ﷺ نے رکھی تھی (دوسری) ابو الطفیل یہ کنیت ان کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ ابن خطاب نے رکھی تھی اس وجہ سے کہ ان کے بیٹے کا نام طفیل تھا۔ یہ بیعت عقبہ میں اور جنگ بدر میں شریک تھے حضرت عمر (ان کی نسبت) فرمایا کرتے تھے کہ ابی تمام مسلمانوں کے سردار ہیں ان سے عبادہ بن صامت اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اور عبداللہ بن خطاب اور ان کے بیٹے طفیل بن ابی نے روایت کی ہے۔
ہمیں ابراہیم بن محمد نے اور اسماعیل بن عبید نے اور ابو جعفر نے اپنی اسناد سے ترمذی سے نقل کر کے خبر دی کہ وہ کہتے تھے ہم سے محمد بشار نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہمیں عبدالوہاب ثقفی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں خالد حذاء (جوتی سینے والے) نے ابو قلابہ سے انھوں نے حضرت انس بن مالک سے نقل کر کے خبر دی کہ نبی ﷺ نے (ایک مرتبہ) حضرت ابی بن کعب سے فرمایا کہ اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں (سورہ) الم یکن الزی سنائوں ابی نے عرض کیا کہ کیا اللہ نے میرا نام لیا ہے آپنے فرمایا ہاں تو ابی (فرط مسرت سے) رونے لگے۔ اور عبدالرحمن ابن ابزی نے حضرت ابی سے روایت کی ہے کہ نبی ﷺ نے ایسا ہی فرمایا۔ عبدالرحمن کہتے ہیں میں نے حضرت ابیس ے پوچھا کہ آپ کیا اس بات سے خوش ہوئے تو حضرت ابی نے جواب دیا کہ میں کیوں خوش نہ ہوتا اللہ تعالی فرماتا ہے قل بفضل اللہ و رحمتہ فبذلک فلیفر جواھر خیر مما یجمعون (ترجمہ اے نبی) کہہ دو کہ خدا کے فضل و رحمت سے (میں خوش ہوتا ہوں) اسی پر خوش ہونا چاہئے یہ اس چیز سے بہتر ہے جس کو لوگ جمع کرتے ہیں۔
ترمذی کہتے ہیں اسی سند کے ستھ ہم سے ابن وکیع نے بیان کیا وہ کہتے تھے م سے حمید بن عبدالرحمن نے دائود عطار سے انھوںنے معمر سے انھوں نے قتادہ سے انھوںنے حضرت انس رضی اللہ عنہس ے نقل کر کے بیان کیا کہ نبی ﷺ نے فرمایا میری امت میںسب سے زیادہ مہربان میری امت پر ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں اور خدا کی دین کی بابت سب سے زیادہ سخت عمر رضی اللہ عنہ ہیں اور حیا میں سب سے زیادہ کامل عثمان رضی الہ عنہ ہیں اور حلال و حرام کا سب سے زیادہ علم رکھنے والے معاذ بن جبل ہیں اور فرائض (میراث کے مسائل) کے سب ے زیادہ جاننے والے زید بن ثابت ہیں اور قرائت کے سب سے زیادہ ماہر ابی بن کعب ہیں اور ہر امت کا ایک امیں ہوتا ہے اس امت کے امیںابو عبیدہ ہیں اس حدیث کو ابو قلابہ نے بھی حضرت انس رضی اللہ سے اسی کے مثل روایت کیا ہے اور انھوںنے اس میں اتنا جملہ زیادہ روایت کیا ہے کہ سب سے عمدہ فیصلہ کرنے والے علی رضی اللہ عنہ ہیں۔
زر بن جیش سے رویت ہے کہ وہ بالالتزام ابی بن کعب کے ستھ رہتے تھے (وہ کہتے ہیں کہ) حضرت ابی بن کعب (کے مزاج) میں کچھ سختی تھی تو میں نے ان سے کہا کہ آپ مجھے نرمی کیا کیجئے خدا آپ پر رحم کرے۔
ہمیں ابو نصور بن سیحی معدل نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو نصر بن طوق نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابن المرجی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں احمد بن علی بن مثنی نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں ابو عبداللہ یعنی محمد بن عبدہ بن حرب نے خبر دی وہ کہتے تھے ہم سے ابو علی حسن بن قرعہ نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہیں سفیان بن حبیب نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں سعید نے ثور بن ابی فاختہ سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے طفیل سے انھوں نے اپنے والد یعنی حضرت ابی بن کعب سے نقل کر کے بیان کیا وہ کہتے تھے کہ انھوں نے نبی ﷺ کو یہ آیت پڑھتے ہوئے سنی والزمھم کلمۃ التقوی (ترمہ خدا نے انھیں توی کی بات لازم کر دی ہے۔ وہ کہتے تھے حضرت نے) فرمایا کہ (تقوی کی بات سے مراد) لا الہ الا اللہ کی شہادت۔
حسن بن صالح نے مطرف سے انھوں نے شعبی سے انھوں نے مسروق سے روایت کی کہ رسول خدا ﷺ کے اصحاب میں سے (عہدہ) قضا کی زیادہ قابلیت رکھنے والے چھ آدمی تھے عمر اور علی اور عبداللہ (بن مسعود) اور ابی اور زید (بن ثابت) اور ابو موسی (اشعری)۔
ابو عمر (ابن عبدالبر) نے بیان کیا ہے کہ محمد بن سعد نے واقدی سے نقل کیا ہے کہ سب سے پہلے جس نے رسول خدا ﷺ کے لئے لکھا آپ کی مدینہ میں تشریف آوری کے وقت وہ ابی بن کعب ہیں اور اخیر زمانے میں جن لوگوںنے لکھا ان میں بھی سب سے پہلے یہی ہیں اور درمیان میں اور لوگوں نے بھی لکھا جب ابی بن کعب نہ ہوتے تو زید بن ثابت لکھتے اور قریش میں جس نے سب سے پہلے آپ کے لئے لکھا وہ عبداللہ ابن سعد بن ابی سرح ہے بعد اس کے وہ مرتد ہوگیا تھا اور مکے لوٹ گیا تھا اسی کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی تھی ومن اظلم ممن افقری علی اعہ کذبا او قال اوحی الی ولم یوح الیہ شئی (٭ترجمہ اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو خدا پر جھوٹ افترا کرے یا یہ کہے کہ میرے اوپر وحی نازل کی گئی ہے حالانکہ اس پر کچھ بھی نازل نہیں کیا گیا) اور خطوط کے لکھنے کا کام عبداللہ بن ارقم زہری کے سپرد تھا اور آنحضرت ﷺ کے عہد ناموں کی کتابت اور صلح ناموں کی جب آپ صلح کرتے تھے حضرت علی رضی اللہ عنہ ابن ابی طالب کرتے تھے اور جن لوگوںنے رسول خدا ﷺ کے لئے کتابت کی تھی ان میں سے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ہیں اور عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور عثمان ابن عفان رضی اللہ عنہ اور زبیر بن عوام اور خالد اور ابان جو دونوں سعید بن عاص کے بیٹے ہیں ور حنظلہ اسیدی اور علاء ابن حضرمی اور خالد بن ولید اور عبداللہ بن رواحہ اور محمد بن مسلمہ اور عبداللہ بن عبداللہ بن ابی بن سلول اور مغیرہ بن شعبہ اور عمرو بن عاص اور معاویہ بن ابی سفیان اور جہم بن صلت اور معیقیب بن ابی فاطمہ اور شرجیل بن حسنہ۔
ابو نعیم نے کہا ہے کہ ابی کی وفات میں لوگوںنے اختلاف کیا ہے بعض لوگ کہتے ہیں سن۲۲ ہجری میں بعہد خلافت حضرت عمر رضیاللہ عنہ وفات پائی اور بعض لوگ کہتے ہیں سن ۳۰ھ میں بعہد خلافت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ابو نعیم نے بیان کیا ہے کہ یہی صحیح ہے کیوں کہ زر بن جیش ان سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ملے تھے۔
ابو عمر (ابن عبدالبر) نے کہا ہے کہ انھوںنے سن ۱۹ھ میں وفات پائی اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ سن۳ھ میں اور بعض کہتے ہیں سن۲۲ھ میں اور بعض کہتیہیں کہ سن۳۲ھ میں بعہد خلافت حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور اکثر لوگ اسی طرف ہیں کہ انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں وفات پائی (یہں تک ابن عبدالبر کا ول تھا مگر صحیح وہی ہے جو ابو نعیم نے بیان کیا)
حضرت ابی کے سر اور ڈاڑھی کے بال سپیف تھے وہ اپنے بالوںکی سپیدی کو بدلتے نہ تھے (یعنی خضاب نہلگاتے تھے) ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اسدالغابۃ جلد نمبر۔۱)