مولانا حکیم پیر سید عبدالغفار شاہ راشدی
مولانا حکیم پیر سید عبدالغفار شاہ راشدی (تذکرہ / سوانح)
نامور ادیب و شاعر ، شمس الاطباء مولانا حکیم پیر سید عبدالغفار شاہ بن مولانا پیر سید امان اللہ شاہ راشدی ( متوفی ۱۹۲۲ئ) گوٹھ ریلن متصل لا ڑکانہ ( سندھ )میں ۱۷ ، شعبان المعظم ۱۳۰۱ھ میں تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت :
رمور الاطباء میں ہے :آپ نے دس سال تک فارسی درسیات اور علوم شرعیہ کی تحصیل کی ۔ پندرہ سال کی عمر میں طبی کتابیں اپنے والد ماجد سے دیکھنی شروع کیں ۔ پانچ سال تک اکثر مروجہ کتب کا مطالعہ کیا ایک سال تک مفردات و مرکبات کو دیکھا بھالا اور تیار کیا ۔ ایک سال اپنے والد ماجد کے اہتمام میں مطب ( آپکے والد کا مطب گوٹھ ریلن میں تھا ، اختر شاہ ) کرتے رہے ۔ جس میں آپ کے والد محترم آپ کو مشورہ دیتے تھے اور نیک و بد سمجھاتے رہتے تھے ۔ بعد ازاں (لاڑکانہ شہر میں )علیحدہ مطب جاری کیا۔ اب چھ سات سال سے کام کر رہے ہیں ۔ بیرون جات سے بھی لوگ علاج معالجہ کی غرض سے آتے جاتے ہیں ۔ مرکبار و مفردات کا کافی ذخیرہ آپ کے ہاں تیار رہتا ہے اور غریبوں کا مفت علاج کرتے ہیں ۔ (رموز الاطباء ص ۵۵۳ مطبوعہ لاہور ۱۹۱۴ء )
شاعری:
حضرت پیر عبدالغفار شاہ نے سندھی ، فارسی ، اردو اور سرائیکی زبانوں میں شاعری کی ہے ۔ آپ کا کلام صوفیانہ ہے ۔ آپ نے شاعری میں ’’حسینی ‘‘ اور سچیڈنہ ‘‘تخلص اپنایا ہے۔ عارف کامل حضرت سید شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ سے آپ کو والہانہ عقیدت تھی ۔ ’’شاہ جو رسالو ‘‘( مرتبہ مرزا قلیچ بیگ ) آپ کے مطالعہ میں رہتا تھا ۔ فقیر راقم الحرو ف نے اس زیر مطالعہ نسخہ کا طالب غلمی کے دور میں مطالعہ کیا تھا اس نسخہ پر کہیں کہیں املا کی درستگی ، کہیں پریس کی غلطی کی نشاہدہی اور کہیں حاشیہ تحریر کیا تھا ۔
حضرت سید صاحب ایک مقام پر تحریر فرماتے ہیں : شعراء کے گروہ میں نہ جامی ، نظامی ہوں ، نہ غالب ، حالی ہوں نہ وقت کے اکبر اقبال ہوں۔ نہ سندھ کے شاہ لطیف ، شاہ اصغر ہوں ۔ نہ خیر محمد ، شاہ محمد ہوں ۔ نہ وقت کے جتوئی ، ثنائی ہوں ۔ صرف شاعرانہ انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کر رہا ہوں ۔ (قلمی نسخہ مملوکہ روح اللہ شاہ ) محترم منظور ظفر رقمطراز ہیں: پیر عبدالغفار شاہ ایک منظوم فیچر بعنوان ’’سات ساھیڑیوں (دوستوں ) کے درد ‘‘ تحریر کیا ۔ اس میں آپ نے درج ذیل لوک داستانوں پر اپنے مخصوص انداز میں کلام پیش کیا:
۱۔ سسئی :امید وصال
۲۔ سہنی : سوزوفراق
۳۔ ھیر : نیاز مندی
۴۔ مومل
۵۔ سورٹھ : سوزدل
۶۔ لیلا
۷۔ مارئی: یادوطن
ویسے عام طو ر پر یہ دیکھا گیا ہے کہ وقت کے نامور شعراء نے اپنے کلام میں مندرجہ بالا سروں میں کلام تو پیش کیا ہے لیکن شاہ صاحب والی مندرجہ بالا تقسیم و شناخت واضح نہیں کی ۔
پیر عبدالغفار شاہ راشدی وقت کے انمول گوہر ، گہری سوچ رکھنے والے مدبر ، اہل دل اور اہل قلم تھے ۔ جب محلہ نئی زندگی ( سندھی ) کو جاری کئے ہوئے تین سال کا مختصر عرصہ ہوا تھا ۔ انہی دنون شاہ صاحب نئی زندگی میں وقت بوقت طبع آزمائی کرتے رہتے تھے ۔ کبھی تحقیقی مضمون اور کبھی شاعری ۔ ایک دور آیا کہ نئی زندگی میں شاعری کی صنف وائی و کافی زیر بحث آئی تو شاہ صاحب نے اس موقعہ پر ایک دلچسپ مضمون نئی زندگی میں شائع کرایا ۔
آپ اپنے مضمون میں رقمطراز ہیں :’’کافی و دائی دو جدا گانہ صنفین ہیں ۔ اپنی وسعت میں کافی کافی ہے ۔ کافی کی تاریخ قدیم ہے۔ وائی حادث ہے ۔ مورخ غلط فہمی کے سبب وائی کو کافی سمجھ بیٹھے ہیں ۔ کیوں کہ اصناف شاعر یا موسیقی کا سندھ میں اتنا مواد موجود نہ تھا اس لئے امتیا ز نہ تھا کہ وائی کیا ہے یا کافی کیا ہے۔ (موہنامہ نئی زندگی کراچی اپریل ۱۹۵۴ئ)
حضرت پیر عبدالغفار شاہ نے زیاد ہ موئی کو گایا ہے اوردوسرے نمبر پر سسئی پنہوں آجاتے ہیں ۔
ان کے علاوہ درج ذیل سروں میں کلام دستیا ب ہے ۔
۱۔ سر سارنگ
۲۔ لیلی چنسیر
۳۔ سورٹھ راء دیاج
۴۔ سر آسا
۵۔ سر سہنی میہار
۶۔ سر کانگل وغیرہ
آپ نے شاعر کی درج ذیل صنف میں شاعر کی ہے: کافی ، وائی ، بیت ، غزل ، مثنوی ، رباعی ، مخمس ، سہ حرفی ، سہرا لولی، مولود شریف ( نعت )اور قصیدہ وغیرہ
آپ کی شاعر میں ایک بات بالکل واضح ہے کہ آپ کی شاعر کا انداز و طرز بیان حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری سے ملتا جلتا ہے۔(ماہنامہ پیغام سندھی کراچی جنوری ۱۹۸۰)
فارسی شاعری کا نمونہ :
بیاد دلبر محمد حیات ما توشد
گر نیائی تو باعث مماست ماتوشد
مصحف روئے تو شد سبب عشق ما
بہ ہمہ احسن صفات ما تو شد
زبان داریم ست بہ ثنا خوانیت
کہ بہ آیات متشابہات ماتوشد
بس نداریم جز توکہ عزیز
کہ روح اعظم شش جہات ماتوشد
صد شکر گویم آں خدائے عزوجل
کہ بدوجہاں سرور کائنات ماتوشد
سیہ ’’حسینی‘‘ بدامنت مضبوط زد
حمد خدا کہ وسیلہ نجات ماتوشد
حضرت پیر صاحب کے کلام کا جہاں تک میں نے مطالعہ کیا میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ حضرت پیر صاحب درج زیل خصوصیات کے مالک تھے ۔
۱۔ حضور پر نور ﷺ کے عاشق صادق
۲۔ با اخلاق حاذق حکیم
۳۔ غریب پرور معالج
۴۔ تاریخ کے ماہر ( ماہنامہ پیغام کراچی )
حکمت :
سندھ کے نامورو برگزیدہ خاندان ’’سادات راشدیہ ‘‘ کی سندھ میں دو چیزیں شناخت بن چکی ہیں ۔ ایک پیری مریدی (۲) حکمت طب ۔ پیر عبدالغفار شاہ کا حکمت خاندانی پیشہ تھا۔ طب میں مہارت ، نبض شناسی اور دوا سازی میں اونچا مقام پایا تھا ۔ آپ کا اپنے دور میں برصغیر کے بڑے بڑے نامور حاذق حکماء میں شمار ہوتا تھا ۔اس دور کے مستند حکیموں کی جانب سے قائم کردہ طبی اداروں کی طرف سے اعزازی طور پر آپ اداروں کی مجلس مشاورت کے رکن تھے ۔ اور ایک طبی ادارہ کے تمام ممبروں کے مقفقہ فیصلہ کے تحت پیر صاحب کو اپنے وقت میں سب سے بڑی سند (سر ٹیفیکٹ ) ’’فخر الحکماء ‘‘عطا کی گئی ۔ جو کہ طب کے حوالہ سے اعلیٰ خدمات ، بہتر کارکردگی کی وجہ سے ’’حاذق حکیم انسٹیٹیوٹ ‘‘ رجسٹرڈ (پی بی ) کی جانب سے دی گئی ۔ یہ سند ۱۸، مئی ۱۹۳۶ء کو عطا کی گئی ۔
ایک دوسرے ادار ے دی آل انڈیا دارالتجارب (the all india dar-u-tajarib (کی جانب سے ۲۰، جنوری ۱۹۳۹ء کو سند دی گئی ۔ اس سند میں ادارے کی ایگز یکٹیو کمیٹی کی جانب سے اعلیٰ خدمات کا واضح اعتراف کیا گیا ہے ۔
ایک بار ایک ملاقات میں ہندوستان کے نامو ر حکیم محمد اجمل خان دہلوی (منسوب اجمل دواخانہ کمپنی لاہور ) نے لاڑکانہ کے رئیس
غلام محمد اسران سے مخاطب ہو کر ددپیر صاحب کی جانب اشارہ کر کے کہا : ’’آپ کے ہاں حکیم اجمل پہلے سے موجود ہے ان سے علاج کروائیں ، آپ نے خواہ مخواہ مجھے دہلی سے بلوایا ہے‘‘۔
طب کے حوالے سے ایک مجلہ ’’رموز حکمت ‘‘نامور حکیم محمد عبدالرحیم جمیل گجراتی کی زیر ادارت گجرات سے جاری ہو ا۔ ایک مقام پر دیگر حکماء کے نسخہ جات کے ساتھ پیر صاحب کا نسخہ بھی درج ہے۔
کتاب کی تمہید میں مجموعی طور پر یہ درج ہے کہ اس کتاب میں تمام نسخہ جات تیر بہدف اور آزمودہ ہیں ۔ کتاب رموز الاطباء مطبوعہ لاہور ۱۹۱۴ء میں حضرت پیر صاحب کی سوانح مع آزمود نسخہ جات درج ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ وہ ایک لائق فائق ، مستند اور مانے ہوئے حاذق حکیم تھے ۔ حکیم نیاز ہمایونی نے ’’سندھ کی طبی تاریخ ‘‘ جلد دوم میں آپ کا مختصر ذکر کیا ہے لیکن سن تاریخ وغیرہ درست درج نہیں کئے ہیں ۔
صحافت :
پیر عبدالغفار شاہ راشدی بیدار مغز عالم ، سماج سدھار پیر تھے ، دین کی تبلیغ و ترویج ، شاعری کے فروغ و عروج ، اور انسانیت کی فلاح و بہودی کے سلسلہ میں انہوں نے ایک مجلہ جاری کیا تھا ۔ سندھ کے نامور صحافی و سیاستدان علی محمد راشدی رقمطراز ہیں : اخبارات کے علاوہ لاڑکانہ سے ایک ماہنامہ ادبی رسالہ ’’الکاشف ‘‘ جاری ہوا ۔ مگر زیادہ عرسہ چل نہ سکا ۔ وہ رسالہ پیر میاں عبدالغفار شاہ راشدی ریلن گوٹھ والے نے جاری کیا جو کہ صاحب قلم ہونے کے ساتھ ساتھ حکیم بھی تسلیم شدہ تھے۔ رسالہ میں طرح طرح کے مضامین شائع ہوتے تھے۔ وہ (مجلہ ) اپنے دور میں معیاری رسالہ سمجھا جاتا تھا ۔
(اھی دینھن اھی شینھن سندھی ج ۲ ص ۴۸۳)
تصنیف و تالیف :
حضرت پیرعبدالغفار شاہ صاحب قلم تھے ، لکھناان کا محبوب مشغلہ تھا۔ شاعری ، حکمت اور تصوف ان کے پسندیدہ موضوع تھے۔ ان کی نگارشات میں سے بعض مضامین کے نام معلوم ہو سکے جو کہ درج ذیل ہیں :
٭ تربیت عاشقان ۔ ماہنامہ نئی زندگی سندھی کراچی جولائی ۱۹۵۲ء
٭ ستن ساھیرین جاسور ( سات دوستوں کے درد ) نئی زندگی کراچی دسمبر ۱۹۵۴ء
٭ کافی ۔ نئی زندگی کراچی اپریل ۱۹۵۴ء
بیعت :
آپ عارف کامل حضرت علامہ سید اھمد خالد شامی ( مدفون بمبئی ) کے دست مبارک پر بیعت تھے جیسا کہ حضرت شامی کے تذکرہ میں مذکور ہے۔
فقیہ اعظم سے عقیدت :
فقیہ اعظم ، تاج العارفین ، امام اہل محبت حضرت خواجہ محمد قاسم مشوری قادری قدس سرہ ( بانی درگاہ مشوری شریف ) دسے حضر ت پیر عبدالغفار شاہ کو نہایت عقیدت تھی ۔ آپ نے اپنے صاحبزادے مولوی حکیم سید روح اللہ شاہ راشدی کو مشوری شریف کے دارالعلوم جامعہ عربیہ قاسم العلوم میں دینی تعلیم کے لئے داخل کرایا جہا ں سے انہوں نے فارغ التحصیل ہونے کے ساتھ ساتھ سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ قاسمیہ میں حضرت قبلہ عالم مشوری سر کار سے بیعت ہونے کا شرف بھی حاصل کیا۔
حضرت قبلہ عالم مشوری سائیں نے حضرت امام العارفین پیر سائیں روزے دھنی قدس سرہ الاقدس کی ملفوظات شریف کا سندھی ترجمہ کر کے جلد اول ۱۹۶۲ء میں درگاہ مشوری شریف سے شائع کیا تو کتاب کے آخر میں حضرت قبلہ عالم نے پیر صاحب کا ان الفاظ میں اظہار تشکر کیا ہے۔
ملفوظات شریف کے متعدد نسخوں کے تقابلہ کے بعد بعض نقل ( حکایات ) میں تقدیم تاخیر اور کمی بیشی نظر آئی ۔اس صورت میں جناب پیر صاحب مرحوم میان عبدالغفار صاحب راشدی رحمہ اللہ تعالیٰ ساکن ریلن نزد لاڑکانہ کے نسخہ پر اعتماد کیا گیا ہے۔ (ملفوظات شریف جلد اول صفحہ آخری )
معلوم ہوا دونوں بزرگوں کے آپس میں دیرینہ اور گہرے مراسم تھے ۔
شادی و اولاد :
حضرت پیر عبدالغفار شاہ نے تین شادیاں کی ۔ پہلی بیوی سے ایک بیٹا دوسری بیوی سے دو بیٹے اور ایک بیٹی اور تیسری بیوی سے تین بیٹے اور تین بیٹیاں تولد ہوئیں ۔ نام درج ذیل ہیں :
٭ حکیم سید علی قطب شاہ راشدی ( والد مرحوم حکیم سید مظہر علی شاہ لاڑ کانہ شہر )
٭ حکیم سید امان اللہ شاہ راشدی ( والد سید لطف علی شاہ ساکن کراچی )
٭ حکیم سید اسد النبی شاہ راشدی مرحوم
٭ سید نور اللہ شاہ راشدی
٭ حکیم مولوی سید روح اللہ شاہ راشدی لطف زندگی دواخانہ لاڑکانہ
٭ سید فیض اللہ شاہ راشدی
وصال :
پیر سید عبدالغفار شاہ ’’راشدی ہاوٗ س ‘‘ مراد میمن گوٹھ ، ملیر کراچی میں ۲۰ ، محرم الحرام ۱۳۸۱ھ بمطابق ۴، جولائی ۱۹۶۱ء میں اسی (۸۰) سال کی عمر میں انتقال کیا ۔ آپ کے پیارے دوست و پیر بھائی مولانا قاضی عزیز اللہ ہکڑو ( ساکن بٹھی بہرام تحصیل میرو خان ضلع لاڑکانہ ) نے نماز جنازہ کی امامت کے فرائض انجام دیئے ۔ اور وصیت کے مطابق میمن گوٹھ میں دفن کئے گئے ۔ میمن گوٹھ میں مزار شریف مرجع عوام ہے۔ سالانہ شریف نہایت عقیدت سے منعقد ہوتا ہے جس میں علماء کرام تقاریر اور نعت خوان نعت خوانی کرتے ہیں ۔
(حوالا جات کے علاوہ معلومات محترم حکیم سید روح اللہ شاہ راشدی صاحب نے فراہم کی ، فقیر انکا مشکور ہے)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)