آپ شیخ عنایات اللہ بن شیخ عبدالواحد صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے فرزنداکبراور مریداور خلیفہ وسجادہ
نشین تھے۔
رعب وجلال
صاحب انوارالقادریہ نے لکھاہے کہ آپ کا رُعب خداداداور ہیبت وہ تھی کہ جو شخص سامنے آتابولنے کی تاب نہ رہتی ۔جب تک آپ خود اس سے دریافت نہ فرماتے وہ لب کشائی کی جرأ ت نہ کرسکتاتھا۔جس سے مخاطب ہوتے۔وہ سمجھ لیتاکہ بیڑاپارہے۔جس کے عرض مطلب پر آپ ملتفت نہ ہوتے۔وہ ناکام ہی رہتا۔خلق کاانبوہ آپ کے دروازہ پر ہروقت رہتاتھا۔
برادری کا مطیع ہونا
اگرچہ حسد سے برادری کے لو گ غائبانہ چہ میگوئیاں کرتےاورمخاصمت پر تُلے رہتےمگرکامیاب نہ ہوتے۔بالآخر اکثر احترام کرنے لگ گئے۱؎۔
فیوض ولایت
آپ کی نظر میں ایک عجیب نشہ تھا۔جو دیکھ لیتاشیداووالہ ہوجاتا۔جو کوئی حل مشکلات کے لیے آتا۔کامیاب ہو کرجاتا۔آپ صاحب فتوحاتِ کثیرہ تھے۲؎۔
۱؎انوار القادریہ ۱۲۔ ۲؎انوارالقادریہ سیدشرافت
مشکلات کاحل کرنا
آپ کا ڈیرہ درگاہ سلیمانیہ کے قدموں میں درخت وَن کے نیچے ہوتاتھا۔وہاں بعینِ تصوّر شدے
کامیابمَچ (دھونی )لگارہتا۔اہل حاجت اگربیمار یاکسی اور مراد کا طلبگار ہو۔اُسی مَچ سے خاکسترکی چٹکی اٹھا دیتے تو وہی نسخہ شفاوتعویذ حاجت رواثابت ہوتا۔
فائدہ
بزرگوں کا اپنے پاس آگ جلاناغلبہ جلال کی وجہ سے ہوتاہے۔چنانچہ تذکرہ اولیائے ہند جلد دوم ص ۹۵ میں ہے:
"حاجی گگن شوریانی ہر وقت اپنے پاس آگ جلایارکھتے"۔
آگے وجہ لکھی ہے:
"بسبب غلبہ جلال کے کہ آگ بھی مظہر جلال الٰہی ہے۔ہر وقت روشن رکھتے"۔
نیزجورجلال آگ کی طرح روشن ہوتاہے۔اس کی مشابہت سے بھی آگ جلاتے ہیں اسی تذکرہ ص۹۸ پر ہے:
"نورتین قسم پرہے۔جوصفت جلال سے ظاہر ہوتاہے وہ برنگ آفتاب یا برنگ طلا یا برنگِ آتش دکھائی دیتاہے اور جوبصفت جمال ظاہرہوتاہے۔وہ برنگ ماہ یانقرہ یا پانی جلوہ گرہوتاہے۔تیسرانور ذات منزّہ ہے صفات سے۔اس کو سوااولیأ اللہ کے اور کوئی نہیں جانتا"۔
اولاد
آپ کے تین بیٹے تھے۔۱۔شیخ فیض بخش صاحب رحمتہ اللہ علیہ ان کاذکر چھٹے باب میں آئے گا۔
۲۔شیخ محمد یارصاحب رحمتہ اللہ علیہ۔
۳۔شیخ عطأ اللہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ۔
؎ شیخ محمد یارصاحب ؒ کے ایک فرزند شیخ محمد غوث صاحب رحمتہ اللہ علیہ تھے۔
؎ شیخ محمد غوث صاحبؒ کے ایک فرزند شیخ قطب الدین صاحب ؒ تھے۔ان کاذکرآٹھویں
باب میں آئے گا۔
؎ شیخ عطأ اللہ صاحبؒ کے ایک فرزند شیخ نظام الدین صاحبؒ تھے ان کاذکر ساتویں باب
میں آئے گا۔
یارانِ طریقت
صاحب انوارالقادری نے لکھاہے کہ آپ کے مرید اکثر مجذوب ہوجاتے تھے۔آپ کے خادم جوصاحبِ اخلاص تھے۔بڑے صاحب کمالات ہوئے۔آپ مُریداسی کوکرتے جس میں استعدادپاتے۔
مدفن
شیخ عبدالہادی کا مزار بھلوال شریف ۔گورستان سلیمانیہ میں ہے۔
وفات ۱۱۵۶ھ۔
(سریف التواریخ جلد نمبر ۲)