آپ سیّد فیض اللہ بن سیّد صالح محمد قادری نوشاہی رحمتہ اللہ علیہ کے دوسرے بیٹے اورمریدو خلیفہ
تھے۔صاحب علم و فقر و زہدوورع تھے۔فن کتابت بھی سیکھاہواتھا۔آپ کے ہاتھ کی بعض تحریرات خاندان کے گھروں میں موجودہیں۔
دستی تحریر
آپ کے ہاتھ کی ایک غزل فارسی میں لکھی ہوئی ہے۔جو عارف کی ہے ۔وہ یہ ہے۔
غزل
"دلاہُشدارکارےکن کہ وقتِ مرگ درپیش ست
|
"دلاہُشدارکارےکن کہ وقتِ مرگ درپیش ست
|
زچنگالش رہائی نیست ہر کس راکہ جاندارست
|
زناخن ہائے تیزے اوہمہ کس رادلے ریش ست
|
چووقتِ مرگ پیش آید نباشد کس مراہمدم
|
بجزحسناتِ توایدل چہ جائے ہمدم و خویش ست
|
چودرقبرت فرودآرند خویشاں باز پس بروند
|
بمنکربانکیرت ہم سوائے پیش درپیش ست
|
سلیم القلب مے باید کہ ثابت تر بود آنجا
|
کجاثابت شود آنکس کہ اینجامردِبدکیش ست
|
نمے بینم کسے دلخوش زہولِ آن قیامت ہا
|
زاہوالش ہمہ خائف اگرچہ شاہ ودرویش ست
|
بیاعارف بگریہ شوزاعمالِ کہ توداری
|
کہ آں منزل پُر ازہَول ست چہ جائے خندہ وعیش ست
|
کاتبہٗ فقیرعبدالہادی"
شاعری
کتاب لطائف گل شاہی میں دوغزلیں ہادی کی ملتی ہیں۔ممکن ہے وہ آپ کی ہوں ۔اس لیے لکھی جاتی ہیں۔
غزل
کندلبریزساغر راشراب آہستہ آہستہ
|
کہ میگرددگراں در چشم خواب آہستہ آہستہ
|
اگر دشمن بصد کرمے بودآخر تبرس ازوے
|
کہ اخگرمیخوردخونِ کباب آہستہ آہستہ
|
دل ازسوزِ محبّت رفتہ رفتہ خون میگرد
|
زگُل آتش بروں آرو گلاب آہستہ آہستہ
|
کجااہلِ کرم رامیر سد چشم تنک ظرفاں
|
بدریامحو میگردوحباب آہستہ آہستہ
|
خزاں دنبال مے آید بہارِ نونہالاں را
|
بہ پیری میرسدروزے شباب آہستہ آہستہ
|
بہ انفاسِ سبک رُوحاں دل از غفلت بروں آید
|
صباازغنچہ میگرددنقاب آہستہ آہستہ
|
غبارِ مطلبم ازدل زجوشِ سَربہ بُردنِ ما
|
کہ داغ ازجامہ برخیزدبہ آب آہستہ آہستہ
|
نمید انم کہ دل روئے۱؎۔۔۔۔۔۔کہ شد ہادی
|
کہ شدایں آہن آخر آفتاب آہستہ آہستہ
|
۱؎یہاں سے کاغذپھٹاہواتھا۔حروف گم تھے۱۲سیّد شرافت
دیگر
حسنِ خال اززلفِ دلدارے مپرس
|
قیمتِ تریاق ازمارے مپرس
|
چشمِ اواز دردِ دل آگاہ نیست
|
حال بیمارے زبیمارے مپرس
|
دردلِ صافم غبارے غیرنیست
|
اندریں آئینہ زنگارے مپرس
|
اندریں دنیابجزغفلت مبین
|
یادریں شب ہیچ بیدارے مپرس
|
یابداوبرچشم او بیہوش باش
|
یاببزمِ بادہ ستارے مپرس
|
عشقِ پنجاب ازدکن ہادی مجو
|
پرتوِ صبح از شبِ تارے مپرس
|
آپ دنیا سے لاولد فوت ہوئے۔
تاریخ وفات
سیّد عبدالہادی کی وفات ۱۱۲۷ھ میں ہوئی۔قبر گورستانِ صالحیہ میں ہے۔
مادۂ تاریخ "خسروِدوران"۔
(سریف التوایخ جلد نمبر ۲)