سید عبدالحفیظ شاہ (گجو)
سید عبدالحفیظ شاہ (گجو) (تذکرہ / سوانح)
فقیر باصفا درویش منش جناب سید عبدالحفیظ شاہ بن سید عبدالعزیز شاہ بوقت صبح صادق بروز جمعرات ۲۷، رجب المرجب ۱۳۱۳ھ بمطابق جولائی ۱۹۱۳ء کو بانس بریلی (یوپی انڈیا) میں تولد ہوئے۔ آپ کے والد ماجد عالم دین اور درویش صفت انسان تھے۔ آپ کا شجرہ نسب والد محترم کی طرف سے حضرت سیدۃ النساء العالمین سیدہ فاطمۃ الزہرہ رضی اللہ عنھا زوجہ امیر المومنین خلیفۃ المسلمین شیر خدا حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہٗ سے ملتا ہے اور والدہ محترمہ کی طرف سے اعلیٰ حضرت مجدد دین ملت امام احمد رضا خان پٹھان قادری محدث بریلوی قدس سرہٗ سے ملتا ہے۔
تعلیم و تربیت:
آپ کے والد عالم دین تھے اور بنیادی دینی تعلیم آپ نے انہی سے گھر میں حاصل کی۔ آپ کو انگریزی پڑھنے کا شوق تھا، مگر ان دنوحں ہندوستان پر انگریزوں کا قبضہ تھا جس کے سبب مسلمان انگریز گورنمنٹ سے سخت نفرت کرتے ھتے، لہٰذا آپ کے والد محترم بھی یہ نہ چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا انگریزی پڑھے لیکن آپ نے چھپ چھپا کر اسکول میں داخلہ لیا اور تقریباً میٹرک تک تعلیم حاصل کی۔ اس کے بعد آپ کے روحانی سفر کا آغاز ہوتا ہے۔ مختلف فقیروں درویشوں کی صحبت اختیار کی اور مزارات مقدسہ پر حاضری و مراقبہ کے شغل کو تاحیات جاری رکھا۔
بیعت:
اس سلسلہ میں آپ کا کہنا تھا کہ آپ سلطان الہند حضرت خواجہ غریب نواز سید معین الدین حسن چشتی قدس سرہٗ الاقدس (۶۲۷ھ دربار مقدس اجمیر شریف راجستھان انڈیا) سے نہایت ہی عقیدت رکھتے تھے اور انہیں سے آپ کو روحانی فیض ملا۔
شادی و اولاد:
آپ نے دو شادیاں کیں۔ پہلی بیوی سے دو بیٹیاں اور ایک بیٹٓ اور دوسری بیوی سے ایک بیٹی تولد ہوئیں اور اسید سہیل احمد (کرچی ) آپ کے داماد ہیں۔
پاکستان میں قیام:
پاکستان بننے کے کچھ عرصہ بعد ہندوستان سے کراچی منتقل ہوگئے اور بعد میں گوٹھ گجو ضلع ٹھٹھہ (سندھ) میں مستقل سکونت اختیار کرلی۔ آپ فرماتے ہیں کہ دیہہ گجو کے لوگ گواہ ہیں کہ جب میں نے یہاں ۱۹۵۸ء کو جھگی ڈالی تو مٹی کے بڑے بڑے ٹیلے تھے اور روزانہ کئی سانپ نکلتے تھے لیکن مجھے وہ چیز مل رہی تھی جس کے حصول کیلئے میں یہاں آیا تھا۔
(تعارف الحفیظ ذاکرین تنظیم ص۶)
ادارہ کا قیام:
آپ نے حجرہ حفیظ والا گجو (ضلع ٹھٹھہ) میں ’’بیت المکرم‘‘ کے نام سے ٹرسٹ قائم کیا اور باقاعدگی سے اشاعت کا ایک سلسلہ جاری فرمایا۔
تنظیم کا قیام:
مریدین پر مشتمل ایک تنظیم ’’ الحفیظ ذاکرین تنظیم‘‘ کو قائم کیا اور مریدین میں تنظیم سازی اور ذکر شریف کی محفلیں برپا کرنے کا جذبہ اجاگر کیا۔ مؤلف لکھتے ہیں: آپ نے اللہ تعالیٰ کے اسماء الحسنیٰ اور حضر ت پر نور ﷺ کے اسماء مبارکہ پر مشتمل ذکر ترتیب دیا ہے۔ آ ذکر شریف کو بہت اہمیت دیتے تھے تاکہ مسلمانوں کے قلوب اللہ تعالیٰ کے ذکر سے دھل کر تمام غلاظتوں سے پاک ہوجائیں اور آپس میں اتحاد و یگانگت اور بھائی چارہ کی فضا قائم ہوجائے۔ آپ فرماتے تھے کہ یہ ذکر بالبشارت‘‘ ہے اور ایک ’’پارس‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس ذکر کو کرنے سے تمام مسائل حل ہوجائیں گے اور قلبی سکون میسر آئے گا۔ جس کی شاخیں اندرون ملک کے علاوہ بیرون ملک میں بھی قائم کی گئی ہیں۔ (تعارف الحفیظ ذکرین تنظیم ص۹، مطبوعہ اکتوبر ۲۰۰۰ئ)
لائبریری:
نوجوانوں کی دینی معلومات سے واقفیت کیلئے کوٹری شہر (ضلع حیدرآباد) میں ایک دینی لائبریری قائم فرمائی۔ جہاں پر حدیث، تفسیر، فقہ حنفیہ، تصوف ، تاریک وغیرہ رپ اردو، سندھی اور انگریزی میں نامور مصنفین اور علماء دین کی کتابیں دستیاب ہیں۔ اس کے علاوہ تنظیم کے سالانہ اجتماع ، سید عبدالحفیظ شاہ ک گفتگو اور نعت شریف کی آڈیو کیسٹ بھی دستیاب ہیں۔ بیت المکرم ٹرسٹ کی مطبوعات بھی دستیاب ہیں۔
جذبہٗ خالص:
آپ فرماتے ہیں :’’جوان بیٹا تھا جس نے میرا کہنا نہ مانا اور اللہ تعالیٰ کے احکامات پر نہ چلا ، میں نے اس سے کہا تم میرے بیٹے نہیںہوا ور مجھ سے علیحدہ ہو جاوٗ ۔ تمام خاندان والوں نے میری مخالف کی اور سارے خاندا ن کو ( کوٹری ) چھوڑ کر یہاں گجو میں آکر رہنے لگا بعد میں میرے بیٹے سے زیادہ میری خدمت کر تے ہیں ، میری ڈانٹ برداشت کرتے ہیں ، میرا کہا مانتے ہیں ۔ ان کا خون اور اپنا خون ایک سمجھتا ہوں ۔ میں اپنے سگے بیٹے سے زیادہ ان سے محبت کرتا ہوں یہ میری کمائی ہیں ، ان کا دکھ درد میں اپنا دکھ درد سمجھتا ہوں ۔ ‘‘
تصنیف و تالیف :
مولانا سید عبدالحفیظ شاہ نے تصنیف و تالیف کے سلسلہ میں گرانقدر خدمات انجام دی ہیں ، مختصر ا تعارف درج ذیل ہے۔
۱۔ ہم اللہ کو کیوں مانیں ؟:خیر و شر ، روح و اجسام کے علاوہ حیات نبوی ، علم غیب نبوی مسئلہ قیام میلاد بنوی ، معراج بنوی اور معجزہ کرامت پر بھی نہایت آسان و مدلل گفتگو فرمائی ہے ۔ (مطبوعہ ۱۹۸۴ئ)
۲۔ ٹوان ون ((two in one: قادیانی غلط عقائد و نظریات پر آپ نے ان کے موجودہ امیر مرزا طاہر احمد کا چیلنج مباہلہ قبول کرتے ہوئے خط و کتابت کی۔ تحریر ی مناظر ہ یعنی دونوں طرف کے خطوط کا عکسی نقل اس کتاب میں دیئے گئے ہیں ۔ تلاش حق کے سلسلہ میں مخلصین اس کا ضرور مطالعہ فرمائیں ۔ (مطبوعہ ۱۹۹۰ء طبع دوئم ماہ فروری )
۳۔ امام بے لگام کہ منہ میں لگام : یہ رسالہ بھی قادیانیت کے غلط عقائد و نظریات کا پوسٹ مارٹم ہے ۔ ان کی تروید خودان کی کتب سے کی گئی ہے۔ (مطبوعہ طبع اول رمضان المبارک ۱۴۱۰ھ؍۱۹۸۰ئ)
۴۔ خطاب حفیظ : یہ رسالہ تصوف سے متعلق ہے ۔ اور جولائی ۱۹۸۲ء کو شائع ہوا۔
۵۔ آئینہ شرک و بدعت : شرک و بدعت کو سمجھا یا گیا ہے۔
۶۔ مہاجر کون نہیں ہے؟
۷۔ روتا ہواد ل
۸۔ چراغ رسالت : ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والی تقاریر کا مجموعہ
۹۔ میں کیوں مسلمان ہوا: آپ کی تعلیمات سے متاثر ہو کر مشرف بہ اسلام ہونے والے عبدالواحد شیخ (سابقہ نام وادھن مل ) کی کتاب ۔
۱۰۔ الفتویٰ انٹر نیشنل
اکثر کتابیں آپ نے مریدین کے تعاون سے اپنے ادارہ بیت الکرم (ٹرسٹ ) گجوسے شائع کر کے مفت تقسیم کی تھیں۔
ردقادیانیت :
قادیانیوں کے موجودہ خلیفہ رابع مرزا طاہر کی طرف سے ۱۹۸۸ء کو دیا گیا چیلنج آپ کی نظر سے گذرا۔ آپ کی غیرت ایمانی بھڑک اٹھی سندھ کے دیہی علاقہ میں بیٹھ کر اسی وقت تمام دنیا کے قادنیوں کو مباہلہ کا کھلا جوابی چیلنج دیا۔۔۔۔۔۔۔۔
قادنیوں نے آپ کے جوابی چیلنج پر فرار کی راہ اختیار کی ، جوان کی مکارانہ روایت ہے۔ لیکن آپ نے اس فتنہ کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن کرنے کے لئے جہاد شروع کر دیا اور اس سلسلے میں ’’احمد یہ عالمگیر ایسوسی ایشن کے ہیڈ آفس لندن ‘‘ جماعت کے امیر مرزا طاہر کو خطوط لکھے ، چند خطوط کے انہوں نے جواب بھی دیئے اور پھر جب انہوں نے جواب دینا بند کر دیئے تو آپ نے ان کی تمام تحاریر کومن و عن کتابی صورت میں اپنی تصنیف ٹو ۔ان۔ ون میں شامل کر دیں ۔ اس کتاب کے انگلش اور عربی ایڈیشن بھی چھپ چکے ہیں ۔
اس کے بعد ٹیلیفون کا سلسلہ شروع کیا، اس سلسلے میں دوسری کتاب فروری ۱۹۹۵ء کو ’’امام بے لگام کے منہ میں لگام ‘‘ شائع کی ہے ۔ اس کے علاوہ ہر دو ماہ بعد ’’الفتویٰ انٹر نیشنل ‘‘ کے نام سے شمارہ جاری کیا۔ تمام لٹر یچر قادیانیوں کے ہیڈ کواٹرز میں بھیجنے کے علاوہ عوام الناس اور دیگر اسلامی اداروں کو مفت تقسیم کیا جاتا رہا تاکہ تمام دنیا پر حق ظاہر ہو جائے ۔ انٹر نیٹ پر بھی قادیانیوں کے خلاف جہاد زورد شور سے جاری ہے۔ ویب سائٹ (پروگرام ) پر
http:/www.ni_marketing.com/netlink/rashid/anti_ahmadiyya.htmi_
جس سے خائف ہو کر اگست ۱۹۹۹ء کو مرزا طاہر نے قادیانی ویب سائٹ بند کروادی ہے۔ (تعارف الحفیظ ذاکرین تنظیمہ ص۱۲)
سفر حرمین شریفین:
آپ نے پہلا حج غالبا ۱۹۷۰ء کو ادا کیا اور ۱۹۹۰ء کی دھائی میں آپ نے کئی بار حرمین شریفین کی حاضری کی سعادت حاصل کی۔
عادات و خصائل:
جناب سلیم یزدانی لکھتے ہیں : سید عبدالحفیظ شاہ ، سادہ لوح ، منکسر المزاج ، ہمدرد، محبت کر نیوالے اور ہر ایک کے کام آنے والے سیدھے سادھے مسلمان تھے۔ نہ انہیں پیرو مرشد ہونے کا دعوی تھا، نہ عالم ہونے کا۔ ہاں خود سچے علماء مشائخ کی بڑی عزت کرتے تھے۔ سادگی کی زندگی گذارتے تھے اور شریعت کے پابند تھے ۔ خلق خدا اور دین کی خدمت ان کامشن تھا ۔ ان کا انداز گفتگو دل میں گھر کرنے والا ہوتا تھا، وہ عام لوگوں کی طرح زندگی کے حوالے سے گفتگو کرتے تھے لوگوں کو اچھائی کی ترغیب دیتے ہیں اور برائی کی نشاندہی کرتے تھے۔ ان کا لہجہ نہایت نرم و خوشگوار تھاوہ کبھی جارحانہ گفتگو نہیں کرتے تھے (عرض حال : خطابت حفیظ مطبوعہ ۱۹۸۲ء ) سفید ریش ، سفید بھنویں ، گورا رنگ ، ہنستا مسکراتا چہرہ ، خاموش ہوں تو لوگ لب کشائی کے لئے منتظر ، بولیں تو ایسا لگتا کہ دریا بہہ رہا ہے الفاظ و بیان کا۔ آپ فرماتے ہیں : ’’فاقہ، آنسوں اور عاجزی ، عارف کا زیور ہیں۔ فاقہ عقل کی جلا ہے ، آنسووٗں سے دل دھلتا ہے اور عاجزی و انکساری انا کومارتی ہے۔ ’’فرماتے ہیں :میں ہر محفل میں اور ہر جگہ یہ کہتا ہوں کہ نہ میں پیر ہوں ، نہ بزرگ ہوں ، نہ شیخ ہوں اور نہ مرید کرتا ہوں بلکہ ایک خادم ہوں اور بحیثیت ایک خدمتگار کے ہر ایک کی خلوص دل سے خدمت کرتا ہوں ، میں سب کا دوست اور ہمدرد ہوں ۔ ‘‘(تعارف۔۔۔۔۔۔۔۔)
نائب و خلیفہ :
ڈاکٹر محترم سید راشد علی آپ کے نائب و خلیفہ ہیں ۔ آپ نے ان کے متعلق فرمایا:ایمان اور عرفان میں سید راشد علی کسی بزرگ سے کم نہیں ۔ میں نے ان کی تعلیم میں کوئی کمی نہیں چھوڑ ی ہے۔
وصال :
پیر سید عبدالحفیظ شاہ نے زندگی کے آخری ایام اپنے مکان واقع کوٹری می گزارے اور آخری دنوں علالت کے دوران آخر الفاظ یہی تھے کہ ’’میں نے سب کو معاف کیا اور مجھے بھی آپ معاف کر دیں ‘‘۔انتقال سے تین دن پہلے آپ پر بے ہوشی طاری ہو گئی تھی اور اسی حالت میں ۲ جمادی الاول ۱۴۲۴ھ بمطابق ۳، جولائی ۲۰۰۳ء بروز جمعرات تقریبا دو بجے دوپہر اسی (۸۰) سال کی عمر میں اپنے گھر میں انتقال کیا۔ آپ کے خلیفہ ڈاکٹر سید راشد علی نے وصیت کے مطابق نماز جنازہ کی امامت فرمائی اور محلہ ڈنل شاہ ، کوٹری (حیدر آباد ، سندھ ) میں ہی آپ کا مزار ایک نجی قطعہ زمین پر واقع ہے جو اس مقصد کے لئے پہلے ہی حاصل کر لی گئی تھی ۔ آج کل مزار سے متصل مسجد و مدرسہ قائم کیا گیا ہے اور ہر سال آپ کا عرس منایا جاتاہے ۔
[آپ کے داماد جناب سید سہیل احمد (نزد فرزانہ دواخانہ ، فیڈرل بی ایریا ) نے حالات سے متعلق مواد فراہم کیا اور فقیر راشدی نے شکریہ کے ساتھ مضمون ترتیب دیا]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)