آپ کا نام عبدالواسع۔مشہور سیَدواسا۔آپ سیّد فیض اللہ بن سیّد صالح محمد قادری نوشاہی کے سب سے چھوٹے بیٹے تھے۔
بیعت طریقت
آپ کی بیعتِ طریقت حضرت سیّد محمد سعیددُولا بن سیّد محمد ہاشم دریادل بن حضرت نوشہ گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ سے تھی۔جن ذکر تیسرے طبقہ کےتیسرے باب میں گذرچکا ہے۔
لیکن آپ کی اولاد کادعوےٰ ہے کہ آپ اپنے بڑے بھائی سیّد محمد ظریف بن سیّد فیض اللہ کے مرید تھے۔مگرآپ کے سلسلہ کے کلّو شاہی درویش آج تک وہی شجرہ سیّد محمد سعید والاپڑھتے ہیں۔
سجادگی
آپ اپنے سب بڑے بھائیوں سے زیادہ پرہیزگاراور متقی تھے۔ابھی چھوٹے ہی تھےکہ والد صاحب کاانتقال ہوگیا۔آپ اپنے بھائی کلان کے بعد سجادہ نشین ہوئے۔بلکہ آپ نے یہاں تک شہرت حاصل کی کہ اپنے جد بزرگوار سیّد صالح محمد رحمتہ اللہ علیہ سے بھی زیادہ ناموری پائی۔
اخلاق وعادات
آپ عبادت وریاضت میں ہر وقت سرگرم رہتے۔تمام برادران ہمجدی سے کمالات ظاہری و باطنی میں یکتاتھے۔جس حاجت والاآپ کے دروازہ پر حاضر ہوا۔بامراد ہوکرواپس ہوا۔شجاعت و سخاوت میں کمال تھے۔مسکینوں اور مسافروں کے واسطے لنگرجاری تھا۔کہتے ہیں کہ ایک مانی غلّہ( دس من پختہ)روزانہ خرچ ہوتاتھا۔جو کچھ فتوح ہوتی سب خرچ کردیتے۔دوسرے روز کے لیے کچھ نہ رکھتے۔طالبانِ راہِ حق دوردراز مقامات سے چل کر آپ کے پاس آتے۔اور فائزالمرام ہوکرجاتے۔
کرامات
غیبی امداد کرنا
منقو ل ہے کہ موضع ترنڈاگرگیزاں ریاست بہاول پور کاایک بنجارہ جواہرات کابغچہ لے کر تجارت کو جارہاتھا۔ایک جگہ اُس نے مسجد میں نماز پڑھی تو وہ بغچہ وہیں بھول کرچلاگیا۔راستہ میں اُسے یاد آیاتونہایت غمگین ہوااورآپ کو یاد کیا۔جب واپس ہواتودیکھاکہ ایک سبزپوش درویش بغچہ لے کر آرہاہےاوراس کو دے دیا۔
تاثیرنگاہ
آپ ایک بارڈوگراں والہ سے گذررہے تھے۔وہاں کے ہندوجاٹوں نے سمجھا کہ شاید کسی افسرکی سواری جارہی ہے۔اس لیے دو بھائی دودھ لے کر خدمت میں حاضرہوئے۔ آپ نےنگاہ ِ لطف سے دیکھاتو ان کے دل اسلام کی طرف راغب ہوگئے اور وہ مسلمان ہوکر آپ کے حلقہ غلاماں میں داخل ہوئے۔ان میں سے ایک کانام عادل تھا۔
اپنے پیرخانہ کی محبّت
آپ کو حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد سے کافی محبت اور عقیدت تھی۔چنانچہ اسی محبّت کی بناپر سیّد شاموں شاہ بن سیّد عبدالرسول ہاشمی رحمتہ اللہ علیہ کو ساہنپال شریف سے اپنے پاس چک سادہ میں لےآئےاوراُن کو یہیں رہائش کے لیے جگہ دی۔
اولاد
آپ کے ایک ہی فرزند سید علیم اللہ تھےاورآپ کے ایک مرید میاں سیف اللہ بن وسوندھی ڈھلوساکن بگھولہ تھے۔
تاریخ وفات
سیّد عبدالواسع کی وفات بقول مناقبات نوشاہیہ ۱۱۵۶ھ میں ہوئی۔بقول دیگر آپ ۱۱۶۲ھ میں فوت
ہوئے۔
مدفن
آپ کی قبر موضع چک سادہ میں روضہ حضرت سیّد صالح محمد کے اندر ہے۔ سنگ ِمرمرکی بنی ہوئی ہے۔
قطعہ تاریخ
دریائے کشف وکانِ کرامات وملکِ جُود
|
کزفیضِ اوگرفتہ جہانِ عدم وجود
|
بادردغم چوسالِ وصالش بخواستم
|
آمد ندازغیبم۔قطب العظیم ۔بود۱۱۶۲
|
مادۂ تاریخ "مرشد حقیقت"۔
(سریف التوایخ جلد نمبر ۲)