ابن عمیربن قتادہ لیثی۔ابن شاہین نےان کا تذکرہ لکھا ہے۔ہمیں ابوموسیٰ نے اجازۃً ابوبکر بن حارث کی کتاب سے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوحفص بن شاہین نے خبردی وہ کہتے تھے ہم سے حسین بن احمد نے بیان کیاوہ کہتے تھے ہم سے ابن ابی خثیمہ نے بیان کیا وہ کہتے تھے مجھ سے میرے والد نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے جریربن عبدالحمید نے بیان کیا وہ کہتے تھے ہم سے ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے انھوں نے عبداللہ بن عمیر سے روایت کر کے بیان کیا کہ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جہاد بھی کرتے تھے باوجودیکہ نابینا تھے۔ ان کا تذکرہ ابوموسیٰ نے لکھا ہے اور کہا ہے کہ ابن شاہین نے ان تذکرہ اسی طرح لکھاہے ممکن ہےکہ یہ عبداللہ لیثی کے علاوہ کوئی دوسرے ہوں کیوں کہ بن خطمہ انصاری کا خاندان ہے اور انصار بنی لیث نہیں ہیں۔میں کہتا ہوں کہ یہ قول ابوموسیٰ کا تھا ان عبداللہ بن عمیر خطمی کو ابن مندہ نے اسی طرح بیان کیاہے۔پس میں نہیں سمجھا کہ ابوموسیٰ نے کیوں استدراک کیا اگر اس وجہ سے استدراک کیا کہ ان کو بعض لوگوں نے لیثی کہہ دیا ہے تو یہ کہنے والے کی غلطی ہے اگرہرغلطی کے سبب سے استدراک کیاجائے تواستدراک کی کوئی حد نہ رہےگی خصوصاً ہمارے اس زمانے میں جبکہ جہل غالب ہوگیا ہے خلاصہ یہ کہ استدراک کی کوئی وجہ نہیں اور ابوموسیٰ کایہ کہنا کہ ممکن ہے کہ یہ لیثی کے علاوہ کوئی دوسرے شخص ہوں(نہایت تعجب انگیز بات ہے)اس میں کچھ شبہ نہیں کہ یہ لیثی نہیں ہیں کیوں کہ خطمہ انصارکاقبیلہ ہے اور انصار خاندان ازد سے ہیں جو اہل یمن ہیں اور لیث کنانہ کے خاندان سے ہیں اورکنانہ مصر کی شاخ ہے شاید لیثی کا لفظ غلطی کاتب سے ہویاکاتب سے لیثی کے بعد کچھ تذکرہ انصاری کا چھوٹ گیا جس سے بعض لوگوں کو یہ گمان ہوا کہ یہ حدیث لیثی کی ہے حالاں کہ ان کی نہیں ہے واللہ اعلم اور حدیث میں جو یہ وارد ہواہے کہ بنی خطمہ کی امامت کرتے تھے۔اس بات کی دلیل ہے کہ یہ بھی خطمی ہیں کیوں کہ امام ہر قبیلہ کا اسی قبیلہ سے ہوتاہے کیوں کہ عرب کی طبیعتیں اس بات سے بہت متنفر تھیں کہ قبیلہ کا امام ایسا شخص ہوجو اس قبیلہ سے نہ ہو واللہ اعلم۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)