سیّدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ
سیّدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ (تذکرہ / سوانح)
ابن عمروبن عاص بن وامل بن ہاشم بن سعید بن سہم بن عمرو بن ہصیس بن کعب بن لوے قریشی سہمی۔کنیت ابومحمد ہے اوربعض لوگوں نے کہا ہے کہ ابوعبدالرحمٰن ہے ان کی والدہ ریطہ بنت منبہ بن حجاج سہمی ہیں اپنے والد سے بارہ برس چھوٹے تھے اور اپنے والدسے پہلے اسلام لائے تھے بڑے فاضل و عالم تھے قرآن پڑہاتھااور کتب سابقہ بھی پڑھی تھیں۔انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی تھی کہ میں آپ کی حدیثیں لکھا کروں گا حضرت نے انھیں اجازت دی تھی۔پھر انھوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ میں جوکچھ سنوں لکھ لیا کروں خواہ خوشی کی حالت میں آپ فرمائیں یاناخوشی کی حالت میں آپ نے فرمایا ہاں جوکچھ میں کہتاہوں وہ حق ہی ہوتاہے۔حضرت ابوہریرہ کہتے تھے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کا مجھ سے زیادہ حافظ کوئی نہ تھا سوا عبداللہ بن عمروبن عاص کے مگروہ لکھ لیا کرتے تھے اور میں لکھتانہ تھا۔حضرت عبداللہ کہتے تھے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے ہزار احکام حفظ کرلیے تھے۔ہمیں اسماعیل بن علی وغیرہ نے اپنی سند سے ابوعیسیٰ (ترمذی)تک خبر دی وہ کہتے تھےہم سے عبید بن اسباط بن محمد قریشی نےبیان کیا وہ کہتے تھے مجھ سے میرے والد مطرف سے انھوں نےابواسحاق سے انھوں نے ابوبردہ سے انھوں نے عبداللہ بن عمرسے روایت کرکے بیان کیا کہ وہ کہتے تھے میں نے (ایک مرتبہ) عرض کیا کہ یارسول اللہ میں کتنے دنوں میں قرآن ختم کیاکروں حضرت نے فرمایا ایک مہینے میں۔عرض کیا کہ میں اس سے زیادہ طاقت رکھتاہوں حضرت نے فرمایاتو تم پندرہ دن میں ختم کرلیاکرو۔میں نے عرض کیا کہ اس سے بھی زیادہ طاقت رکھتا ہوں حضرت نے فرمایا توتم دس دن میں ختم کیاکرو۔میں نے عرض کیا کہ میں اس سے بھی زیادہ طاقت رکھتاہوں مگر اس سے آگے حضرت نے مجھے اجازت نہ دی مجاہد کہتے تھے میں (ایک دن) حضرت عبداللہ بن عمرو کے پاس گیا میں نے انکے بستر کے نیچے سے ایک کتاب اٹھائی تو انھوں نے مجھے روکا میں نے کہا کہ مجھ سے کبھی کس چیزکے دینے سے انکار نہ کرتے تھے (آج یہ کیا بات ہے)توانھوں نے کہا اس کا سبب یہ ہے کہ اس صحیفہ میں وہ حدیثیں ہیں جو میں نے بلاواسطہ خود رسول خداصلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں(اس لیے یہ صحیفہ مجھے جان سے زیادہ عزیز ہے) اگر میرے پاس یہ صحیفہ اور کتاب اللہ اور مقام وہظ رہ جائے تومجھے کچھ پرواہ نہیں چاہے دنیاکی جوحالت ہوجائے وہظ ان کی زمین کانام ہے یہ اس میں زراعت کیاکرتے تھے۔حضرت عبداللہ کہا کرتے تھے کہ جو نیکی میں آج کروں وہ مجھے بہ نسبت اس کے زیادہ مرغوب ہے کہ اس سے دونی نیکی میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ کی ہو اس لیے کہ جب ہم رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے تو ہم کو صرف آخرت کا غم تھا دنیاکا غم بالکل نہ تھا اور آج دنیا ہماری طرف جھک پڑی ہے یہ عبداللہ اپنے والد کے ہمراہ فتح شام میں شریک تھے اور غزوہ یرموک میں ان کے والد کا جھنڈا انھیں کے ہاتھ میں تھااپنے والد کے ساتھ جنگ صفین میں بھی شریک تھے اور اس جنگ میں میمنہ لشکر کے سرداریہی تھے ان سے ان کے والد نے کہا کہ اے عبداللہ نکلو اور لڑو انھوں نے کہا اے میرے باپ کیا آپ مجھ کو لڑنے کا حکم دیتے ہیں حالاں کہ میں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے سناہے آپ مجھ سے اس بارے میں عہد لے چکے ہیں ان کے والد نے کہا اے عبداللہ میں تمھیں خدا کا واسطہ دلاتاہوں بتاؤ آخر میں تم سے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ عہد لیاتھا یا نہیں کہ تمھاراہاتھ پکڑکے آپ نے میرے ہاتھ میں دیا اور فرمایاکہ اپنے والد کی اطاعت کرو عبداللہ نے کہا ہاں یہ عہد لیا تھاتو ان کے والد نے کہااچھامیں تمھیں حکم دیتاہوں کہ جاؤ اور لڑو پس یہ (مجبورہوکر)صف سے باہر نکلے اورلڑے اس وقت ان کے ہاتھ میں دو تلواریں تھیں بعد اس کے یہ بہت نادم ہوئے اورکہتےتھےمجھے صفین سے کیامطلب تھا میں مسلمانوں سے کیوں لڑاکاش میں اس سے بیس برس پہلے مرچکاہوتا بعض لوگوں کابیان ہے کہ یہ اپنے والد کے حکم سے جنگ صفین میں شریک ہوئے تھے مگرلڑے نہیں۔ابن ابی ملیکہ نے کہاہے کہ عبداللہ بن عمرو کہتے تھے آگاہ رہوخدا کی قسم میں نہ کوئی نیزہ چلایا نہ تلوار ماری نہ تیرمارا اورمجھ سے زیادہ کوئی شخص اس لڑائی میں محنت کرنے والا نہ سمجھاجاتاتھا حالاں کہ میں نے یہ باتیں کچھ بھی نہیں کیں بعض لوگوں نے بیان کیا ہے کہ اس دن جھنڈا انھیں کے ہاتھ میں تھایہ کہتے تھے کہ میں لوگوں کے ساتھ ایک منزل یہ دومنزل تک گیا تھا۔ہمیں قاسم بن علی بن حسن نے اجازۃً خبردی وہ کہتے تھے مجھ سے میرے والدنے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوبکر یعنی محمد بن حسین نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوالحسین بن مہتدی نے خبردی نیز قاسم کہتے تھے مجھے میرے والد نے خبردی وہ کہتے تھے ہمیں ابوالحسین بن نقور نے خبر دی یہ دونوں کہتے تھے ہم سے ابوالقاسم بن عیسیٰ بن علی بن عیسیٰ نے خبر دی وہ کہتے تھے ہمیں عبداللہ بن محمد نے خبردی وہ کہتے تھے ہم سےداؤد بن رشید نے بیان کیا وہ کہتے تھے میں مسجدرسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک حلقہ کے اندر بیٹھاہواتھاجس میں ابوسعید خدری اور عبداللہ بن عمرو بھی تھے اسی حالت میں حضرت حسین بن ہماری طرف سے ہوکر نکلے اورانھوں نے سالم کیا لوگوں نے سلام کاجواب دیامگرعبداللہ چپ رہے یہاں تک کہ جب سب لوگ فارغ ہوئے تو انھوں نے بلند آواز سے کہا وعلیک السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ بعد اس کے ہم لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ کیا میں تمھیں بتاؤں کہ آسمان والوں کے نزدیک روئے زمین پرسب سے زیادہ محبوب کون ہے ہم لوگوں نے کہا ہاں بتائیے توانھوں نے کہا یہی شخص جو ابھی گیا(یعنی حسین بن علی مگرافسوس) جنگ صفین کے بعدسے انھوں نے مجھ سے ترک کلام کردیاہے اور یہ بات کہ و ہ مجھ سے راضی ہوجائیں مجھے سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ عزیز ہے۔حضرت ابوسعید نے کہا کہ آپ ان سے معذرت کیوں نہیں کرتےحضرت عبداللہ نے کہا میں اس کے لیے تیارہوں پس دونوں نے یہ صلاح کی کہ کل صبح کو ان کے پاس چلیں گےچناں چہ میں بھی ان کے ساتھ گیا حضرت ابوسعید نے اجازت مانگی حضرت حسین نے ان کو اجازت دےدی پھر انھوں نے حضرت عبداللہ کےلیے اجازت طلب کی اور برابر اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت حسین نے ان کو بھی اجازت دی پس جب وہ بھی اندر گئے تو ابوسعید نے کہا کہ اے فرزند رسول اللہ کل جب آپ ہماری طرف گئے تو عبداللہ بن عمرو نے یہ بات کہی تھی۔حضرت حسین نے کہا اے عبداللہ کیا تم اس بات کو جانتے ہو کہ میں آسمان والوں کے نزدیک روئے زمین پر سب سے زیادہ محبوب ہوں حضرت عبداللہ نے کہا ہاں قسم رب کعبہ کی حضرت حسین نے کہا پھرکیوں تم مجھ سے اور میرے والد سے صفین میں لڑےحالانکہ خداکی قسم میرے والد مجھ سے بہتر تھےحضرت عبداللہ نے کہا ہاں (بیشک میں لڑا اس کا سبب یہ ہے کہ ایک مرتبہ)عمرو نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے میری شکایت کی اورکہایارسول اللہ عبداللہ رات بھرنماز پڑھتاہے اوردن کو ہمیشہ روزہ رکھتاہے تورسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عبداللہ کچھ دیر نماز پڑھواورکچھ دیر سو رہوکسی دن روزہ رکھو کسی دن نہ رکھو اور عمروکی اطاعت کیا کروپس جب صفین کا دن آیاتو عمرونے مجھے قسم دلائی اس مجبوری میں میں لڑنے کے لیے آیا مگرخدا کی قسم میں نے نہ تلوار میان سے نکالی اور نہ نیزہ چلایااور نہ تیرماراحضرت حسین نے کہا ایساہی ہوگا۔ حضرت عبداللہ کی وفات ۶۳ھ میں ہوئی اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ ۶۵ھ میں بمقام مصر اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ ۶۷ھ میں بمقام مکہ اور بعض لوگوں کاقول ہے کہ ۵۵ھ میں بمقام طائف اور بعض لوگوں کا بیان ہے کہ ۶۸ھ میں اوربعض کہتے ہیں ۶۸ھ میں اور بعض کہتے ہیں ۷۳ھ میں۔ ان کی عمر بہترسال کی تھی اوربعض کہتے ہیں کے بانوے سال کی یہ شک ابن کبیر کو ہوگیا ہے ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر 6-7)