سیّد عبدالکریم المشہور بہ بہاول شاہ بن سیّد شاہ بلاق لاہوری قدس سرہ
سیّد عبدالکریم المشہور بہ بہاول شاہ بن سیّد شاہ بلاق لاہوری قدس سرہ (تذکرہ / سوانح)
آپ بارہ ظرخانی سادات میں سے تھے آپ کے مشائخ برگزیدہ روزگار تھے وہ خود متاخرین میں سے نہایت واجب الاحترام تھے، آپ بڑے عابد، زاہد، متقی اور خدا پرست تھے، اور صاحب جذب و استغراق تھے، ہر سلسلۂ تصوف سے حصۂ فقر حاصل کیا تھا آپ سلسلہ اعظمیہ قادریہ میں چند واسطوں سے نسبت روحانی رکتے تھے، حضرت میاں میر قادری لاہوری کی نسبت سے سیدنا پیران پیر دستگیر غوث الاعظم محی الدین عبدالقادر جیلانی تک سلسلہ روحانیت پہنچتا ہے۔
’’سید بھاون شاہ مرید شاہ بلاق (اپنے والد) جن کا مزار چبارہ چھجو کے پاس ہے) کے تھے وہ شاہ عبدالرشید لاہوری، وہ شیخ محسن شاہ، وہ شیخ محمد ملا شاہ وہ میاں محمد میر بالا پیر لاہوری اور وہ حضرت خضر ستیانی اور وہ سید احمد اور وہ شیخ عابد کبیر اور وہ شاہ ابوالقاسم اور وہ حضرت موسیٰ حلبی اور وہ شاہ ابوبکر اور وہ شاہ داود اور وہ شاہ سلیمان اور وہ مرید، شیخ زید اور وہ شیخ قرشی، اور وہ حضرت آلافاق عبدالرزاق حلف الصدق غوث الاعظم سلطان العام محی الدین ابو محمد عبدالقادر جیلانی قدس سرھم اللہ تعالیٰ کے مرید تھے۔‘‘
سیّد بھاون شاہ مادرزاد ولی اللہ تھے، بچپن سے ہی آثار بزرگی نمایاں ہوتے، بڑے صاحب کمال و جلال بزرگ تھے، اپنے والد مکرم کی وفات کے بعد مسند ارشاد پر جلوہ فرما ہوئے، پہلے پہل موضع مرتگ میں سکونت پذیر ہوئے آپ پر جذب و استغراق کی کیفیت غالب تھی سردیوں میں شیخوپورہ تشریف لے گئے وہاں ہی تجرید و تفرید کی حالت میں بارہ سال تک عبادت میں مصروف رہے، ایک عرصہ بعد میر پور جود امن کوہ میں واقع ہے تشریف لے گئے اس علاقہ کے گہکڑ قبائل کے لوگ آپ سے عقیدت رکھتے تھے، ہزاروں لوگ دور دراز سے حاضر ہوتے اور فیضیاب ہوتے اس قیام کے دوران آپ سے بے پناہ کرامات ظہور میں آئیں۔
ایک دن آپ کی ایک خادمہ جو گانا بجانا جانتی تھی، آپ کی مجلس میں حاضر تھی اور گا رہی تھی، ناگاہ ایک طرف سے گرد و غبار اٹھتا نظر آیا، دور سے گھوڑ سواروں کا ایک لشکر دکھائی دیا، نزدیک آئے تو معلوم ہوا کہ ایک صاحبزادے اپنےمریدوں کے لشکر کے ساتھ چلے آ رہے ہیں، یہ صاحبزادے پشاور سے چلے اور میرپور آئے سواروں کا ایک اجتماع لیے اور خود پالکی سوار تھے، مطربہ نے گزارش کی حضور ہم لوگ آپ کے لیے بھی ایک پالکی بنالیں، تاکہ آپ بھی اسی شان و شوکت سے سفر کریں، حضرت مسکرائے، فرمانے لگے، اندرونی شان و شوکت ظاہر شان بان سے زیادہ بہتر ہے، اگر اس صاحبزادہ نے اتنے انسانوں کو جمع کرلیا ہے تو تعجب کی بات نہیں یہ سارا آدم زاد ہیں، ہم جنس ہیں ان کا جمع ہوجانا تو کوئی بڑی بات نہیں اگر ہم چاہیں تو ان وادیوں اور جنگلوں سے جنگلی درندوں کو جمع کرلیں اور وہ بے شمار ہمارے نزدیک جمع ہوجائیں مگر ایسا کرنا اچھی بات نہیں ہے آپ یہ بات فرما ہی رہے تھے کہ چاروں طرف سے درندے، جانور، وحوش و طیور بیابانوں سے نکل کر دوڑے دوڑے چلے آرہے ہیں، ہرن اور وحشی جانور ایک طرف دوڑے آ رہے ہیں، حضرت نے دیکھا تو فرمایا: تم کدھر چلے آ رہے ہو، میں نے تو صرف بات کی ہے، میں نے تمہیں طلب تو نہیں کیا، یہ سنتے ہی جانور واپس چلے گئے۔
شاہ زمان بادشاہ پنجاب کابل کو روانہ ہوا، شاہ زمان کے ایک مصاحب کو سکھوں نے قتل کردیا، اور اس کے علاوہ سکھوں نے سارے پنجاب میں اندھیرے گردی پھیلادی، قتل و غارت گری کا بازار گرم کردیا، اسی دوران سکھوں کا لشکر جو صاحب سنگھ بیدی کی کمان میں مسلمانوں کو قتل کر رہا تھا پنجاب کے قصبوں اور دیہات میں تباہی مچا رہا تھا وہ مسلمانوں کو جہاں دیکھتا قتل عام کرتا، گھروں کو لوٹ لیتا، چنانچہ ان ظالموں نے سینکڑوں مسلمانوں کو قتل کردیا، اور علاقوں کے علاقے لوٹ لیے، یہ جتھ میر پور کے قریب پہنچا تو مسلمانوں میں خوف و ہراس پھیل گیا، میر پور کے مسلمان جمع ہوکر حضرت بہاون شاہ کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور کہنے لگے ہمیں مقابلہ کے لیے تیار ہونا چاہیے حضرت نے فرمایا لڑنا یا مقابلہ کرنا بے فائدہ ہے تم بلا فکر اپنے اپنے گھروں کو چلے جاؤ، میں تمام معاملہ اپنے ہاتھ میں لیتا ہوں، لوگ آرام سے اپنے گھروں میں جا بیٹھے، سکھوں کا لشکر آیا، اور میر پور پر حملہ کی تیاریاں شروع کیں، پہلے ہی حضرت کی خانقاہ میں داخل ہوئے، آپ کا چہرہ درخشاں دیکھا تو سوچنے لگے کہ ایسے لوگوں کو بھی قتل کیا جاسکتا ہے حضرت بہاون شاہ نے ایک نگاہ ڈالی، یہ سارا ہرا ول دستہ مسلمان ہوگیا اور کلمہ شاہدت کا ذکر کرنے لگا یہ انقلاب آفرین صورت حال دیکھتے ہی سکھوں کے سارے لشکر میں تفرقہ پڑ گیا صاحب سنگھ بیدی نے خود حضرت کی زیارت کی، اشرفیوں کا بھرا ہوا ایک طشت لے کر نذرانہ پیش کیا، مگر آپ نے یہ نذرانہ قبول کرنے سے انکار کردیا، فرمایا: اگر خیریت مطلوب ہے تو اپنا سارا لشکر لے کر نکل جاؤ، نہیں تو سب کے سب دامن اسلام میں آجائیں گے، صاحب سنگھ اپنا لشکر لے کر آگے بڑھا اور دوسری طرف نکل گیا۔
حضرت باہون شاہ کی وفات ۱۲۱۳ھ میں ہوئی، آپ کا مزار میرپور میں ہے۔
چوں شد عبدالکریم اے شیخ حق
|
|
رفت از دنیا نجنات النعیم |
شیخ فروز است (۱۲۱۳ھ)۔ دیگر بختیار (۱۲۱۳ھ) سال وصل آن شہ جنت مقیم
(خذینۃ الاصفیاء)