سید المرسلین قطب الحق رحمتہ اللہ علیہ
سید المرسلین قطب الحق رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
سید با صفا جگر گوشۂ مصطفے حسن و ملاحت کی کان لطافت و ظرافت کے سر چشمے دریاے پیغمبری کے چمکدار موتی قصر حیدری کے شب چراغ گوہر سید السادات نبیرہ سید المرسلین قطب الحق والدین حسین ابن سید محمد کرمانی ہیں جو کاتب حروف کے منجھلے چچا تھے یہ بزرگ علم و فضل و ایثار ظاہر و باطن کی طہارت اور لطافت طبع میں بے نظیر زمانہ تھے اور عقل کامل فراست وافر رکھتے تھے جب تک زندہ رہے مجردانہ زندگی بسر کی اور متعلقین و نیز تزویج کے تعلق سے مبرار ہے آپ نے سلطان المشائخ کے خلیفہ مولانا فخر الدین زرادی کی خدمت میں علوم دینی کی تحصیل کی اور ہمیشہ مکان کا دروازہ کھلا رکھا جو شخص چاہتا بلا تامل آپ کے مکان میں چلا آتا اور غریب الوطنوں اور حاجتمندوں اور شہر کے باشندوں کو آمد و رفت کرنے سے کوئی مانع و مزاحم نہ ہوتا کیونکہ آپ کے مکان پر کوئی چوبدار اور دربان مقرر نہ تھا حتی کہ لوگ اس مقام تک بڑی جرأت و دلیری سے چلے جاتے تھے جو اس بزرگ سید کی خلوت کا مقام تھا اور جو کچھ ان کا مقصود و مطلوب ہوتا آپ اسے پورا کرتے اور حاجتمندوں کو نہایت خوش دل واپس کرتے۔ وضیع و شریف میں کسی شخص کو بات میسر نہ ہوئیب اس پاک اور پاک زادہ اور پاکباز سید کے اور یہ فضائل اس برکت کا اثر تھا کہ آپ نے پچپن کے زمانہ سے بڑھاپے تک جناب سلطان المشائخ کی نظر مبارک میں تربیت و پرورش پائی تھی اور سلطان المشائخ کی پسر خواندگی کے ساتھ مشرف مشہور تھے۔ چنانچہ واعظوں کے سرتاج کریم الدین جو نظم و نثر دونوں کے مالک تھے بزرگ سید کی مدح میں یوں تحریر کرتے ہیں۔
صفات ذات وے اندر جھاں ھمیں نہ بس است
کہ شیخ خواندش فرزندو خواجہ رانبر است
(ان کی ذات اور صفات کی تعریف اس جہان میں اسی قدر کافی ہے کہ شیخ نے ان کو اپنا فرزند کہا اور خواجہ کے نواسے ہیں۔)
قطع نظر ان باطنی صفات کے آپ جمال با کمال بھی رکھتے تھے جس شخص کی نظر آپ کے جمال با کمال پر پڑتی اگرچہ وہ نہایت رنجیدۂ غمگین ہوتا بالخاصیت مسرور شادان ہوجاتا۔
شیخ سعدی خوب فرماتے ہیں۔
اے روئے تو راحتِ دلِ من
چشم تو چراغ منزلِ من
آپ کا چہرہ ہمارے دل کی راحت اور آنکھیں چراغ منزل ہیں۔)
یہ ضعیف عرض کرتا ہے۔
اے سید پاک و پاک زادہ |
|
در عالم حسن داد دادہ |
(اے پاک سید۔ ملک حسن میں اعلیٰ درجہ کے امیر۔ نظامت ظاہر و باطنی اور ظرافت میں تمام عالم کے خوبصورت اور اہل کمال تیرے آگے دست بستہ کھڑے ہیں۔ سروِ چمن تیری خوبی کے سامنے دست بستہ کھڑا ہے۔ تیرے چہرہ کی خوبصورتی کا اس جہان میں شور ہے۔ ہاں تیری زلف اور گیسو سے نسیم صبح نے خوشبو پائی ہے۔)
ایک دفعہ سلطان المشائخ قدس اللہ سرہ العزیز کو قبض شدید ہوا آپ نے غسل کر کے سفید کپڑے جسم مبارک پر آراستہ کیے اور باغ کی طرف جانا چاہا اسی اثنا میں آپ نے سید پاک کو بلایا جب سید السادات سلطان المشائخ کے پاس آئے تو سلطان المشائخ نے مسکرا کر فرمایا کہ ہمیں قبض لاحق ہوگیا تھا اور ہم باغ جانا چاہتے تھے اسی اثناء میں ہمیں الہام ہوا کہ سید حسین کو طلب کرو۔ جناب سید حسین کا قاعدہ تھا کہ نماز فجر کے بعد ہر روز سلطان المشائخ کی خدمت میں بلائے جاتے اور آپ نماز ظہر تک سلطان المشائخ کی خدمت میں رہ کر ہم نشینی اور ہم کلامی کی دولت سے مشرف ہوتے اور اسرار و انوار سے فیض یاب ہوتے تھے اسی اثناء میں بہت رموز و لطافت کا ذکر چھڑ جاتا اور بے شمار علمی تحقیقات کا انکشاف ہوتا۔ علما و مشائخ اور سلاطین و امرا اور خان لوگ سلطان المشائخ کی پائبوسی کی سعادت حاصل کرنے کے بعد بزرگ سید کے مکان پر جاتے تھے کیونکہ وہ اس شفقت و مہربانی کا معائنہ کرتے تھے جو سلطان المشائخ کو آپ کے ساتھ تھی۔ علاوہ اس کے آپ کی جبیں مبارک پر سرداری کا دبدبہ اور اقبال کا ستارہ ہر وقت چمکتا رہتا تھا۔ اور سلطان المشائخ کی نظر کی برکت سے آپ کے جہان آرا چہرہ پر جمال یوسفی ظاہر تھا۔ شیخ سعدی کہتے ہیں۔
دیباچۂ صورتِ بدیعت
عنوانِ کمال حسن ذات است
(تیری بدیع صورت تیری کمال ذات کی لطافت کا آئینہ ہے۔)
یہ ضعیف کہتا ہے۔
راحت دلھا ست دیدن سوئے تو
فرحتِ جانھا ست جاناں روے تو
بندِ زلفیں ازدو گیسو باز کن
تاجھان خوشبو شو داز بوے تو
گرد کویت اھل دل گردان مدام
خانۂ اھل دلان شد کوئے تو
(تیری طرف دیکھنا دلوں کی راحت اور تیرا چہرہ دیکھنا جان کی خوشی ہے۔ اپنے گیسوؤں کی گرہ کو کھول کہ جہان تیری خوشبو سے معطر ہوجائے۔)
لوگ کہتے ہیں کہ مرد کی کمال لطافت وہ چیز ہے کہ کمتر اور نادر کسی اور شخص میں پائی جائے۔ بزرگ سید میں تین چیزیں خصوصیت کے ساتھ پائی جاتی تھیں جو اور شخص میں بہت کم دیکھی گئی ہیں۔
زیب جامہ چنا نچکہ مے باید |
|
نوک خامۃ ترا مسلم شد |
(جامہ زیبی جس قدر چاہیے تجھے حاصل ہے اور نوک خامہ تیرے لیے مسلم ہوئی۔ اپنی لطافت سے قبول عام تجھے حاصل ہوا۔ اور تیری ذات ان عمدہ اوصاف سے موصوف ہوئی۔)
بزرگ سید کا لباس اکثر اوقات صوفیانہ ہوتا تھا جو رنگ برنگ کے صوف اور کم خواب اور چینی وغیرہ کپڑے سے تیار کیا جاتا تھا۔ ان کپڑوں میں سے جس قسم کا لباس ایک دفعہ زیب جسم فرماتے اسے دوبارہ نہ پہنتے۔ اور جس کو طبعیت مبارک چاہتی عطا فرماتے۔ علی ہذا القیاس مکلّف و لذیذ کھانے جو لطافت میں انتہا درجہ کو پہنچ جاتے تھے یاروں اور عزیزوں کو کھلاتے۔ آپ کا منہ مبارک ایک دم پان سے خالی نہ رہتا تھا یعنی پے در پے اور متواتر پان نوش کرتے تھے اگرچہ ایک پان دس روپے کو دستیاب ہوتا۔ جب سلطان المشائخ کا انتقال ہوگیا تو آپ کے خلفاء بزرگ سید کے اعزاز و احترام میں انتہا درجہ کی کوشش کرتے تھے اور آپ کی ملاقات کے لیے قدیم دستور کے مطابق آپ کے مکان پر جاتے تھے کیونکہ آپ نے سلطان المشائخ کی خدمت میں ان کے باب میں بہت کچھ مدد کی تھی جیسا کہ سلطان المشائخ کے خلفا کی خلافت کے باب میں گزر چکا ہے۔ آخر الامر سلطان محمد انار ا للہ برہانہ کے عہد حکومت میں جب ۷۳۲ ہجری میں ملک ہندوستان کی مسندِ وزارت نے خواجہ جہان احمدایاز مرحوم کے جہان آرا جمال سے زیب و زینت اختیار کی اور وہ دیو گیر کی طرف روانہ ہوئے تو خواجہ جہان احمد نے ان دنوں میں اس محبت و قدر و منزلت کی وجہ سے جو سید پاک کی سلطان المشائخ کی نظر مبارک میں دیکھی تھی اور انہیں سلطان المشائخ کی مجلس میں نہایت مکرم و معظم دیکھا تھا اپنے پاس رکھنا چاہا لیکن بزرگ سید نے ان کی اس التماس کے ساتھ اصرار کو قبول نہیں کیا۔ مگر جب آپ نے دیکھا کہ مبادا خواجہ جہان احمد سلطان محمد کے حکم سے بزور مجھے اپنے پاس رکھنے کی کوشش کرے تو آپ نے خواجہ جہان احمد مرحوم سے فرمایا کہ میں دو شرطوں کے ساتھ تمہاری صحبت میں رہ سکتا ہوں۔ ایک یہ کہ سادات و اہل تصوف کا لباس جواب میں پہنتا ہوں وہی ہمیشہ پہنا کروں گا اورلباس کو کبھی اور کسی حال میں ترک نہ کروں گا۔ دوسرے یہ کہ تم مجھے کسی معین شغل میں مشغول نہ کرو۔ آپ کی ان دونوں شرطوں کی وجہ یہ تھی کہ سلطان محمد سادات اور صوفیوں سے ان دونوں صفتوں کو بدل دیتا تھا۔ چنانچہ خواجہ جہان احمد مرحوم نے ان دونوں شرطوں کو قبول کرلیا اور دم مرگ تک پورا کیا اور سید بزرگ کی تعظیم و تکریم انتہا درجہ کی کوشش کی لیکن خواجہ جہان احمد اس تعلق سے پیشتر بزرگ سید کا جو جلال و عظمت اور جاہ و راحت اور شوق و ذوق سلطان المشائخ کی زندگی کے زمانہ میں رکھتے تھے سید کو اس کے بعد وہ بات میسر نہیں ہوئی۔ یہاں تک کہ آخر عمر میں آپ پر فالج گرا جیسا کہ اکثر دوستان خدا کو یہی واقعہ پیش آیا ہے اثناء راہ بیماری میں بہت دفعہ شیخ نصیر الدین محمود قدس اللہ سرہ العزیز اور ایک مرتبہ خواجہ جہان احمد عیادت کےلیے بزرگ سید کے مکان پر تشریف لائے۔ ازاں بعد آپ نے شعبان کی اکیس تاریخ ۷۵۲ ہجری میں بوقتِ نماز فجر پنج شنبہ کے دن انتقال کیا۔ ایک بزرگ نے کیا خوب فرمایا ہے۔
سروے ز بوستان معانی فر و شکست
بر جے ز آسمان معانی خراب شد
(سر و بوستان معانی بیٹھ گیا یعنی گر پڑا اور ایک آسمان معانی کا برج جس سے طرح طرح کے اسرار پیدا اور منکشف ہوتے تھے خراب ہوگیا۔)