سیدنا) انیس (رضی اللہ عنہ)
سیدنا) انیس (رضی اللہ عنہ) (تذکرہ / سوانح)
ابن قتادہ باہلی۔ ان کا شمار بصریوں میں ہے۔ ان سے اسیر بن جابر اور شہر بن حوشب ین روایت کی ہے۔ ان کی حدیث عباد بن راشد کے پاس ہے وہ میمون بن سیاہ سے وہ شہر بن حوشبس ے روایت کرتے ہیں کہ انھوںنے کہا چند لوگ خطبہ پڑھنے کھڑے ہوئے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ و ارضاہ کو برا کہنے لگے اور ان کی برائی بیان کرنے لگے یہاں تک کہ آخر میں ایک شخص قبیلہ انصار کے یا اور کسی قبیلہ کے کھڑے ان کا نام انیس تھا انھوںنے خدا کی حمد و ثنا بیان کی بعد اس کے کہا کہ تم لوگوں نے آج حضرت علی کو بہت برا کہا اور میں اللہ کی قسم کھاتا ہوں کہ میں نے رسول خدا ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں قیامت کے دن اس سے بھی زیادہ شفاعت کروں گا جتنے کہ پتھر اور مٹی کے ٹکڑے زمیں پر ہیں اور میں خدا کی قسم کھاتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ نے بڑھ کر کوئی اپنے قرابت کا لحاظ کرنے والا نہ تھا پس کیا تم لوگ یہ سمجھتے ہو کہ آپ کی شفاعت تم تک پہنچ جائے گی اور آپ کے اہل بیت اس سے محروم رہیں گے۔ اس حیث کے روایت کرنے میں میمون ابن سیاہ تنہا ہیں وہ بصرہ کے رہنے والے اور معتبر ہیں وہی ان کی حدیثوں کے حافظ ہیں ابن مندہ اور ابو نعیم نے ان کا ذکر اسی طرح لکھا ہے۔ مگر ابو عمر نے کہا ہے کہ یہ انیس صحابہ میں سے ایک شخص ہیں اور انصاری ہیں ان کا نسب انھوں نے نہیں بیان کیا۔ ان سے شہر بن حوشب نے رویت کی ہے ان کی حدیث یہ ہے کہ حضرت نے فرمایا میں قیمت کے دن اس سے زیادہ شفاعت کروں گا جس قدر پتھر اور مٹیکے ڈھیلے زمیں پر ہیں ابو عمر نے لکھا ے کہ اس حدیث کی سند قوی نہیں ہے انھوںنے یہ بھی کہا ہے کہ انیس بن قتادہ باہلی بصرہ کے رہنے والے ہیں
ان سے ابو نضرہ نے رویات کی ہے وہ کہتے ہیں میں بنی ضبیعہ کے ایک جمعت کے ہمراہ رسول خدا ﷺ کی خدمت میں گیا بعض لوگ ان کو انس بھی کہتے ہیں مگر انیس زیادہ مشہور ہے۔ ابو نعیم نے سفاعت والی حدیچ انیس انصاری بیاضی کے تذکرہ میں روایت کی ہے اور ان کا تذکرہ انھوںنے مستقل طور پر لکھا ہے۔ ابو موسی نے ان کا تذکرہ ابن مندہ پر استدراک کرنے کے لئے لکھا ہے۔ ابن مندہ نے اس حدیث کو اسی اسناد کے ساتھ لکھا ہے مگر انھوںن یان انیس کو باہلی لکھ دیا ہے۔پس جب راوی بھی ایک ہی ہیں یعنی عباد بن راشد میمون بن سیاہ اور شہر بن حوشب سے اور حدیث بھی ایک ہی ہے یعنی شفاعت والی اور ابن مندہ اور ابو نعیم دونوں کہتے ہیں کہ انصار میں ے یا ان کے علاوہ ایکشخص کھڑے ہوگئے پس اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ یہ دونوں ایک ہیں پھر میں نہیں جانتا کہ ان دونوں نے ان کو باہلی کیسے لکھ دیا علاوہ اس کے ابو نعیم اکر ابن مندہ کی پیروی کیا کرتے ہیں رہ گیا ابن مندہ کا ابو موسی پر استدراک کرنا اس کی کوئی وجہ نہیں معلوم ہوتی کیوں ہ اگرچہ انھوںنے ان کو انصاری نہیں لکھا مگر مطلب وہی ان کی عبارت سے بھی نکلتا ہے جو ابو موسی نے باہلی کے تذکرہ میں بیان کیا ہے صرف بات اتنی ہے کہ اگر وہ ان کو باہلی نہ لکھتے تو بہتر ہوتا کیوں ہ حدیث میں کوئی ایسی بت نہیں ہے جو ان کے باہلی ہونے پر دلالت کرے حدیث میں صرف اسی قدر مضمون ہے جو ان کے انصاری ہونے پر دلالت کرتاہے واللہ اعلم۔ ابو عمر نے انیس باہلی کا تذکرہ اسی طرحلکھاہے جس طرح م نے بیان کیا اور وگہ ایک دوسری حدیث اس تذکرہ میں لائے ہیں وہ یہ کہ انیس نے کہا میں رسول خدا ﷺ کی خدمت میں قبیلہ ضیعہ کے کچھ لوگوںکے ہمراہ گیا تھا اور انھوں نے انیس انصاری کا بھی تذکرہ لکھا ہے اور ان کے تذکرہ میں شفاعت والی حدیث لائے ہیں لہذا ان پر طعن نہیں ہوسکتا۔ ان کا تذکرہ تینوں نے لکھا ہے۔
(سیدنا) انیس (رضی اللہ عنہ)
ابن قتادہ بن ربیعہ بن مطرف بن خالد بن حارث بن زید بن عبید بن زید بن مالک بن عوف بن عمرو بن عوف ابن مالک انصاری اوسی۔ بدر میں رسول خدا ﷺ کے ہمراہ شریک تھے اور جنگ اح میں شہید ہوئے۔ اخنس بن شریک نے ان کو قتل کیا تھا۔ ابو عمر نے کہا ہے کہ بعض لوگوں نے بیان کیا ہے کہ انھوںنے خنسا بنت خذام اسدیہ سے نکاح کیا تھا۔ اور بعض لوگوں کا بیان ہے کہ ان کا نام انس ہے حالانکہ یہ صحیہ نہیں مگر ہم نے ان کا ذکر انس کے بیان میں بھی کیا ہے۔ مجمع بن جاریہ نے روایت کی ہے کہ خنساء بنت خذام انیس بن قتادہ کے نکاح میں تھیں جب وہ احد کے دن شہید ہوئے تو خنساء کے والد نے خنساء کا نکاح قبیلہ مزینہ کے ایک شخص سے کر دیا مگر خنساء اس سے خوش نہیں ہوئیں اور رسول خدا ﷺ کے حضور میں حاضر ہوئیں۔ رسول خدا ﷺ نے ان کا نکاح فسخ کر دیا پھر ابو لبابہ نے خنساء سے نکاح کیا اس نکاح سے سائب بن ابی لبابہ پیدا ہوئے۔ ان کا تذکرہ تینوں نے یا ہے۔ ابو عمر نے خنساء کو اسدیہ لکھا ہے حالانکہ وہ انصاریہ ہیں۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)