یہ اسید بیٹے ہیں ابو اناس بن زنیم بن عمرو بن عبداللہ بن جابر بن محمیہ بن عدی بن علی بن دیل بن بکر بن عبد مناۃ بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر کنانی دولی عدوی کے۔ یہ سریہ بن زنیم کے بھائی ہیں جن کو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے منبر پر آواز (٭حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ خطبہ پڑھنے میں بطور مکاشفہ کے اپنے لسکر کو دیکھا کہ دشمن کی گھات یں آگیا ہے تو سی وقت وہ پکار اٹھے کہ اے ساریہ پہاڑ پر چڑھ جائو) دی تھی۔ ابو احمد عسکری نے بیان کیا ہے کہ اسید کے سین کو کسرہ ہے یہی نام ہے اسید بن اناس کے اور یہ اسید زنیم کے بیٹے ہیں اس بنا پر وہ ساریہ کے بھائی ہو جائیں گے۔ یہ اسید شاعر تھے نبی ﷺ کے حضور میں حاضر ہوے انھیں میں حارث بن وہب اور عویر بن اخزم اور حبیب اور بیعہ جو دونوں مسلمہ کے بیٹھ موجود تھے اور ان کے ہمراہ ان کے قوم کی ایک جماعت تھی ان لوگوںنے حضرت سے یہ عرض کیا کہ نہ ہم آپ سے لڑیں گے اور نہ آپ کے ساتھ ہو کے قریش سے لڑیں گے اور ان لوگوںنے اسید بن اناس سے اپنی بیزاری بیان کی اور کہا کہ وہ آپ کی ہت برائی بیان کیا کرتا ہے لہزا نبی ھ نے ان کا کون معاف کر دیا یہ خبر اسید کو پہنچی تو وہ طائف چلے گئے پھر فتح مکہ کے سال ساریہ ابن زنیم طائف گئے اور انھوں نے اسید سے فتح مکہ کی خبر بیان کی اور انھیں لے کے نبی ﷺ کے حضور میں حاضر کر دیا اسید حضت کے سامنے بیٹھ گئے اور اسلام لائے رسول خدا ﷺ نے انھیں امان دیا اور ان کے چہرہ اور سینے پر آپ نے اپنا ہاتھ پھیرا اسید نے یہ اشعار اس وقت موزوں کیے۔
فانت الفتی تہدی عد الدیہنا بل اللہ یہدیہا وقال لک اشہد فما حملت من ناقۃ فوق کو رہا
ابر داد فی ذمۃ من محمد واکسی لبرد الحال قبل ابتذالہ داغطے لراس السائق المتجرد
تعلم رسول اللہ انک قار علے کل حی مقہمیں و منجد تعلم بان الرکب رکب عوپھر
م الکاذبون المخلفوکل موعد انبوا رسول اللہ ان قد ہجوتہ غل رفعت سو طے الی اذن یدی
سوی اننی قد قلت ویل ام فتیۃ اصیبوا بخس لایطاق واسعد
(٭ترجمہ (اے نبی) آپ ایسے جوان ہیں کہ عرب کو دین کی ہدایت کرتے ہیں بلکہ اللہ انھیں ہدایت کرتا ہے اور اس نے آپ سے فرمایا ہے کہ آپ گواہ رہے پس کسی اونٹنی نے اپنی پشت پر مجھ سے زیادہ نیکوکار اور وفائے عہد کرنے والا سوار نہیں کیا (یعنی عرب میں آپ کے مثل کوئی نہیں ہے) یہ آپ حالت کی چادر کو قبل اس کے کہنہ ہونے کے پہنا دیتے ہیں (یعنی لوگوںکی بہت جلد خبر گیری کرتے ہیں) اور برہہ شتربان کے سر کو بند کرتے ہیں (یعنی ہر ادنی سے ادنی کی حاجت روائی میں آپ سرگرمہیں) اے رسول خدا آپ کو واضہ ہو کہ آپ ہر جاندار پر وضیع ہو یا شریف قدرت رکھتے ہیں۔ آپ کو یہ بھی واضح ہو کہ قبیلہ عویمر کے لوگ بڑے چھوٹے اور وعدہ خلاف ہیں کیا ان لوگوںنے رسول خدا کو یہ خبر دی کہ میں نیان کی ہجو کی ہے اگر میں نے ایسا کیا ہے تو میرا ہاتھ میرے کوڑے کو نہ اٹھائے یعنی بیکار ہو جائے یہ صرف میں نے کہا تھا کہ ان جوانوں کی خرابی ہو انھیں ایسی حکومت پہنچے جس کی برداشتنہ ہوسکے اور مروہ سعد نہ ہو)
اس قصیدہ میں اس سے زیادہ اشعار ہیں جب انھوں نے پہلا مصرعہ پڑھا وانت الفتی تہدی معد الدینہا تو رسول خدا ﷺ نے فرمایا بل اللہ یہدیہا لہذا دوسرے مصرعہ میں انھوںنے سی کو نظم کر دیا بل اللہ یہدیہا و قال لک شہد امیر ابو نصر نے کہا ہے کہ اسید بن ابی اناس بن زنیم بن محمیہ بن عبید وہ کہتے تھے ہمیں عمر بن ابراہیم ہاشمیںے عبدالملک ابن عمیر سے انھوں نے ایسد بن سفیانس ے جو نبی ﷺ کے صحابی تھے نقل کر کے بیان کیا کہ وہ کہتے تھے جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی اور مدینہ رونے کی آواز سے گونج اٹھا اور لوگ ویسے ہی ازخود رفتہ ہوگئے جیسے کہ نبی ﷺ کی وفات کے دن تھے تو علی بن ابی طالب رضی الہ عنہ نیز قدم روتے ہوئے اور انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتے ہوئے آئے ور کہنے لگے کہ آج خلافت نبوت ختم ہوگئی ہاں تک کہ وہ اس گھر کے دروازے پر کھڑے ہوگئے جس میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے پھر انھوں نے کہا کہ اے ابوبکر اللہ آپ پر رحم کرے آپ سب لوگوں سے ہلے اسلام لائے اور آپ کا ایمان سبس ے زیادہ خالص تھا اور آپکا یقین سب سے زیادہ تھا اور آپ سب سے زیدہ بے پروا تھے اور آپسبس ے زیادہ السام کے پشت پناہ تھے اور سب سے زیادہ رسول خدا ﷺ کے حق میں محتاط تھے اور سب سے زیادہ ان کے اصحاب کو امن دینے والے تھے اور سب سے زیادہ آپنے رسول خدا ﷺ کا حق صحبت ادا کیا اور آپکے مناقب سب سے افضل تھے اور اسلامی خدمتوں میں آپ سب سے زیادہ اور متبہ میں سب سے بلند تھے اور بہ نسبت سبکے رسول خدا ﷺ کے قریب بیٹھا کرتے تھے اور عادت یں روش میں طریقہ میں خلاق ہیں سب سے آپکے مشابہ تھے اور آپ کیمنزلت سب سے زیدہ تھی اور رسول خدا ﷺ کے نزدیک آپ سبس ے زیدہ بزرگ تھے اور معتبر تھے خدا آپکو اسلامکی طرف سے اور رسول خدا ﷺ کی طرف سے عمدہ جزا دے آپ نے رسول خدا ﷺ کی ایسے وقت تصدیق کی جب لوگ ان کی تکذیب کر رہے تھے اسی وجہسے اللہ نے آپکا نام اپنی کتاب میں صدیق رکھا یہ حدیث اسی طول کے ستھ انھوںنے بیان کی ہے۔ بس حدیث کو ابو عمر ضریر نے عمران بن قطان یعنی ابو العوام سے انھوں نیابو حفص عمر بن ابراہیم عدوی سے اپنی سند کے ستھ روایت کی ہے اور اس کو بعض مرد کے باشندوں نیعمر بن ابراہیم سے انھوںنے سماعیل بن عیاش سے انھوں نے اسماعیل بن عیاش سے انھوں نے بعدلاملک بن عمیر سے انھوں نے اسد بن صفوان سے روایت کیا ہے۔ ان کا تذکرہ تینوںنے لکھا ہے۔
(اسد الغابۃ جلد نمبر ۱)