سید فیض اللہ
سید فیض اللہ (تذکرہ / سوانح)
آپ شاہبازِ اَوجِ سیادت،اخترِ بُرجِ سعادت۔سادات صالحیہ سےصاحب کرامت و شرافت تھے۔ حضرت سیّد صالح محمد قادری نوشاہی رحمتہ اللہ علیہ کے فرزنداکبر اور مرید و خلیفہ و سجادہ نشین تھے۔
تحصیل علوم و فضائل
آپ نے ظاہری تعلیم مولانا عبدالحکیم سیالکوٹی رحمتہ اللہ علیہ سے پائی۔ایک بارحضرت نوشہ گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ بمعہ یارانِ خواص سیالکوٹ تشریف لے گئے آنجناب پلنگ پر بیٹے تھے۔مولوی صاحب اور سیّد صالح محمد رحمتہ اللہ علیہ نیچے صف پر بیٹھے تھے۔ اتنے میں سیّددریادل اور آپ آگئےاورسلام و آداب کیا۔مولوی صاحب اور شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے سیّد دریادل رحمتہ اللہ علیہ کو اپنے پاس بٹھالیا۔چونکہ جگہ تنگ تھی۔اس لیے آپ کھڑے رہے۔حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے دیکھ کرفرمایا۔میاں فیض اللہ تم ہمارے پاس بیٹھ جاؤ۔ آپ نےعرض کیا۔یاقبلہ ۔میری کیامجال ہے کہ میں حضور کے برابر بیٹھ سکوں۔نیزسیّد دریادل اور مولوی صاحب اوروالد صاحب نیچے بیٹھے ہیں۔آنجناب رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایاکہ ہم نے تجھ کو اپنے برابر بٹھادیاہےاب بیٹھ جاؤ۔چنانچہ آپ بحکم الامرفوق الادبآنجناب کے پاس بیٹھ گئے۔پھر حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایامیاں فیض اللہ ہم نے تجھ کوعلم بخش دیا ہے۔چنانچہ اس کے بعد آپ بڑے فاضل جیّد اور درویش کامل ہوئے۔۱؎
۱؎تذکرہ نوشاہیہ ۱۲۔سید شرافت
صاحب تذکرہ نوشاہیہ نے لکھاہے۔
"ہم فقیروہم فاضل بہردو اوصاف موصوف اند"۱؎
۱؎اس عبارت سے ثابت ہوتاہےکہ سید فیض اللہ سال تصنیف تذکرہ نوشاہیہ یعنی ۱۱۴۶ھ میں زندہ موجودتھےاوراگر اس عبارت کو رسالہ احمد بیگ کی عبارت سمجھاجائے تو بھی اس کے سال تصنیف ۱۱۰۷ھ میں آپ کاموجود ہوناثابت ہوتاہے۔لیکن آپ کے خاندانی افراد میں مشہور ہے کہ آپ ۱۰۹۹ھ میں فوت ہوگئے۔۱۲شرافت
شغل تدریس
آپ نے تمام عمردرس وتدریس میں گذاری ۔طلبائے علم دُوردُور سے آکر تعلیم پاتے اور طالبان حق باطنی فیض سے مستفیض ہوتے۔
اولاد کے ولی اللہ ہونے کی بشارت
منقول ہے کہ حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ بمعہ یاران سیالکوٹ سے واپس آرہے تھے۔تو دریائے چناب کے جنوبی کنارہ پر کوٹلی کھوکھراں میں رات رہے۔صبح کو دیکھاکہ کھوکھراں کی ایک لڑکی صحن میں کھیل رہی ہے۔آنجناب نے سید صالح محمد رحمتہ اللہ علیہ کو فرمایاکہ ان کھوکھروں سے اس لڑکی کا رشتہ اپنے بیٹے فیض اللہ کے لیے طلب کرو۔ کیونکہ اس کے بطن سے سات اولیأ اللہ پیداہوں گے۔ہماراخیال ہے کہ وہ تمہارے ہی پوتے ہوں۔چنانچہ شاہ صاحب نے کھوکھروں سے رشتہ طلب کیا۔توانہوں نے خوشی سے دےدیا۔
اولاد
آپ کا نکاح کھوکھراں کی بیٹی سے ہوا۔اُس کے بطن سے چھ بیٹے اور ایک بیٹی پیداہوئی۔
۱۔سیّد محمد ظریف ۔
۲۔سیّد عبدالہادی۔
۳۔سیّد عبدالعزیز۔
۴۔سیّد عبدالقادر۔
۵۔سیّد احمد ۔
۶۔سیّد عبدالواسع۔
اوربیٹی کانام سیّد ہ سائدہ بی بی تھا۔یہ ساتوں باکمال اولیأ اللہ ہوئے۔
؎ سیّد محمد ظریف کاذکر تیسرے باب میں آئے گا۔
؎ سیّد عبدالہادی کا ذکر بھی تیسرے باب میں آئے گا۔
؎ سیّد عبدالعزیز متقی وپرہیزگاراہلِ یمن و برکت تھے۔ان کے ایک ہی فرزند سیّد بڈھن
شاہ تھے۔جو لاولد فوت ہوئے۔
؎ سیّد عبدالقادر ریاضت و مجاہدہ میں قوی تھے۔۱۱۶۹ھ میں انتقال کیا۔ان کے ایک ہی
فرزندسیّد محمد ماہ تھے۔جن کاذکر چوتھے باب میں آئے گا۔
؎ سیّد احمد ۔شغل پاس انفاس میں مشغول رہتے۔۱۱۶۹ھ میں فوت ہوئے۔ان کے دوبیٹے
تھے۔سیّد علی اصغر۔سیّد فضل شاہ۔
؎ سیّد علی اصغر ۔بزرگ وقت۔محتشم اولیائے باکمال سے تھے۔علم ظاہری و باطنی کے عالم
تھے۔۱۱۸۱ھ میں وفات پائی۔مادۂ تاریخ "غلام علی" ہے۔ان کے ایک فرزند سیّد کرم
شاہ تھے۔
؎ سیّد کرم شاہ ۔علم ظاہری کے علاوہ حقائق تصوّف میں مثل دریاتھے۔درس تدریس اور
مطالعہ کتب کے سواکوئی کام نہ تھا۔خصوصاً دیوانِ حافظ کا مطالعہ رکھتے اور اس کے
معارف کی غواصی کرتے۔۱۲۲۱ھ میں انتقال کیا۔ان کے ایک ہی فرزند سید بوٹے شاہ
تھے۔
؎ سیّد بوٹےشاہ کاذکر چھٹے باب میں آئے گا۔انشأ اللہ تعالیٰ۔
؎ سیّد فضل شاہ بن سید احمد کے ایک ہی فرزند سیّد غلام شاہ تھے۔
؎ سیّد غلام شاہ کے تین بیٹے تھے۔سیّد امیرشاہ لاولد۔سیّد سکندرشاہ۔سیّد منوّر شاہ۔
؎ سیّد سکندرشاہ کے ایک ہی فرزند سیّد حسین شاہ تھے۔
؎ سیّد حسین شاہ کے ایک ہی فرزند سیّد بڈھے شاہ تھے۔
؎ سیّد بڈھے شاہ کا ذکر آٹھویں باب میں آئےگا۔
؎ سیّد منوّر شاہ بن غلام شاہ کے چار بیٹے تھے۔سیّد مبارک شاہ۔سیّد گلاب شاہ لاولد۔ سیّد
شرف شاہ۔سیّد جلال شاہ۔
؎ سیّدمبارک شاہ کے تین بیٹے تھے۔سیّد حاکم شاہ لاولد۔سیّد محمد شاہ ۔سیّد معصوم شاہ
لاولد۔
؎ سیّدمحمد شاہ۔چک سادہ سے سفر چلے گئے۔پنڈدادن خاں ضلع جہلم میں وفات پائی وہیں
مدفون ہیں۔ان کے ایک ہی فرزندسیّد باغ علی تھے۔
؎ سیّد باغ علی مجذوب تارک الدنیاتھے۔سیروسیاحت میں رہتے۔جو منہ سے نکالتے وہ پورا
ہوجاتا۔صاحب تجرید تھے۔سفرکی حالت میں ۱۳۴۹ھ میں انتقال کیا۔وارثو ں نے
نعش لاکر چک سادہ میں اپنے بزرگوں کے گورستان میں دفن کی۔معتقدین نے اُس پر
گنبد بنوادیا۔اِن کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
؎ سیّد شرف شاہ بن منور شاہ کے ایک ہی فرزند سیّد رسول شاہ موجود ہیں۔
؎ سیّد جلال شاہ بن منور شاہ کے تین بیٹے ہوئے۔سیّد رحمان شاہ لاولد۔سید عالم شاہ۔ سیّد
سردارشاہ۔یہ دونوں اس وقت ۱۳۵۲ھمیں موجود ہیں۔
؎ سیّدسردارشاہ کے دوبیٹے سیّد محمد فاضل و سیّد محمدافضل موجودہیں۔
؎ سیّد عبدالواسع بن سیّد فیض اللہ کا ذکر تیسرے باب میں آئےگا۔
تاریخ وفات
سیّد فیض اللہ کی وفات ۱۱۲۰ھ میں ہوئی۔قبر چک سادہ میں اپنے والد کے روضہ شریف کے جنوبی دروازہ کے باہر مشرق کی طرف ہے۔
(سریف التوایخ جلد نمبر ۲)