سیدگامے شاہ رحمتہ اللہ علیہ
سیدگامے شاہ رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
آپ کا اصلی نام غلام محمد المعروف گامے شاہ تھا۔آپ سیّد ناصرالدین بن سیّد سُبحان علی ہاشمی رحمتہ اللہ علیہ کے اکلوتے بیٹے تھے۔بیعتِ طریقت اپنے عم حقیقی سید نظا م الدین رحمتہ اللہ علیہ سے تھی۔
تعلیم وعبادت
آپ نے چندے تعلیم مولاناسیّد غلام قادربن سیّد عبداللہ برخورداری ساہنپالوی رحمتہ اللہ علیہ سے پائی۔قرآن مجید ۔دروداکبر۔درود مستغاث،دعائے گنج العرش بلاناغہ پڑھتے۔نمازروزہ کے پابندتھے۔غریب پرور۔فیض رساں۔صاحب خُلق و مروّت تھے۔
معافی کا مختارہونا
سیّد غلام رسول بن سیّد کریم بخش ہاشمی رنملوی رحمتہ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ موضع رَن مل،عہدشاہانِ مغلیہ میں ملک ہدایت خاں ٹِوانہ کوجاگیر میں ملاہواتھا۔اس کی اولاد یہاں کاخراج وصول کرتی تھی۔بعہدسلطنت ملکہ وکٹوریہ مسمیان شہمیروامیرقوم ٹِوانہ نے چاہِ ہَندووالہ بملکیّت رقبہ ساٹھ بیگہہ زمین کا معاملہ مبلغ تیس روپیہ ساداتِ نوشاہیہ ہاشمیہ سکنائےرَن مل کومعاف کردیا۔جوکہ اُس وقت چاہِ ہَندووالہ کے مالک وقابض تھے۔اُس وقت مندرجہ ذیل حضرات کے نام معافی تحریرہوئی۔
۱۔سیّد نظام الدین بن سیّد سبحان علی رحمتہ اللہ علیہ ۔
۲۔سیّدحیدرشاہ بن سیّد محمد نیک رحمتہ اللہ علیہ ۔
۳۔سیّدنورحسن بن سیّد قادر بخش رحمتہ اللہ علیہ۔
۴۔سیّد شاہ مغل بن سیّدغلام محمدرحمتہ اللہ علیہ۔
بعدگذرنے مدّت مدیدکے سیّد سلطان علی بن سیّد گوہرشاہ ہاشمی وغیرہ صاحبزادگان نے عدالت میں
درخواست کی کہ معاملہ معافی ہم کو مِلناچاہیئے۔چنانچہ تحصیلدار موقعہ پرآیا۔اس نے کہاکہ تم سب برادران اپنےکنبہ میں ایک شخص کومنتخب کرو۔جس کے نام سرکارکی طرف سے معاملہ آیاکرے۔ چنانچہ سب نے سیّد غلام محمد المعروف گامے شاہ بن سیّد ناصرالدین رحمتہ اللہ علیہ کومنتخب کرکے اپنی طرف سے مختاربنادیا۔اس سے پہلےمعاملہ معاف ہوتاتھا۔گورنمنٹ برطانیہ مالکوں سے وصول ہی نہ کرتی تھی۔بعددرخواست کرنے کے اِ س طرح ہواکہ پہلے چاہِ ہَندووالہ کامعاملہ وصول کرلیتے۔ بعدمیں مبلغ تیس روپیہ آپ کے نام بطورمعافی واپس بھیج دیتے۔وہ روپیہ سب صاحبزدگان رنملویہ آپس میں تقسیم کرلیتے۔اس سے کافی عرصہ بعد دریائے چناب کابیلہ تقسیم ہوا۔ تو اُن ساٹھ بیگہہ کے ساتھ ایک سو اَسّی بیگہہ زمین شاملات میں سے ملی۔جوالحال آبادہے اور صاحبزادگان اُس پر قابض ہیں۔
کرامت
آگ کاسردہونا
آپ کے بیٹے سیّدعلی احمد سے منقول ہے کہ آپ کاشتکاری کیاکرتے تھے۔ ایک دن باہرکنوآں پرآگئے۔کسی شخص کے کھیت کو آگ لگ گئی۔اُنہوں نے آپ سے التماس کی۔ توآپ نے چادرکاکوناپکڑکرسَرکے اُوپرپھرایااور ہاتھ سے اشارہ کیا۔اُسی وقت آگ بُجھ گئی۔
اولاد
آپ کے پانچ بیٹےہوئے۔
۱۔سیّدسلطان احمد مرزائی۔
۲۔قاضی عزیزاحمد۔
۳۔سیّد فضل احمد۔
۴۔سیّد علی احمد۔
۵۔سیّد فیض احمد۔
؎ سیّد سلطان احمد کے دوبیٹے ہوئے۔مولوی احمدبخش۔صاحبزادہ مولابخش عرف محمد اسلم
یہ دونوں مرزائی مذہب اختیارکرگئے۔
؎ مولوی احمد بخش مرزائی۔اولیأاللہ کا سخت منکرہوگیا۔اس کی عقوبت میں اللہ تعالےٰ نے
اس کوسخت گرفت کی۔مخبوط الحواس ہوگیااور ساراجسم بے حس وحرکت ہوگیا۔اسی
طرح چندسال مبتلارہ کر مرگیا۔اس کے چاربیٹے ہیں۔نصیر احمد ۔رشید احمد۔منیر احمد
شریف احمد۔چاروں موجودہیں۔
؎ قاضی عزیزاحمد کا ایک بیٹاصاحبزادہ عبدالرحمٰن موجودہے۔
؎ صاحبزادہ عبدالرحمٰن کا ایک لڑکا اقبال احمد موجودہے۔
؎ سیّد فضل احمد(متوفی ذی الحجہ ۱۳۵۴ھ)کا ایک بیٹا عبدالحق نامی ہے۔جو مرزائی ہوگیاہے
؎ سیّدعلی احمد بن سیّد گامے شاہ ۔نیک اخلاق بزرگ صورت ضعیف العمراس وقت موجود
ہیں۔ان کے پانچ بیٹے ہیں۔سیّد نواب علی۔سیّد احسان علی۔سیّد ارشادعلی۔سیّد جمشید
علی۔سیّد خورشید علی۔سب اس وقت زندہ موجودہیں۔
؎ سیّد فیض احمد بن سیّد گامے شاہ کے تین بیٹے ہیں۔سیّد سعید احمد۔نذیراحمد۔ریاض احمد
سب موجودہیں۔
تبرکات
آپ کی چادراوردستارسبزرنگ اورپاپوش اولاد کے پاس محفوظ ہے۔
تاریخ وفات
سیّد گامے شاہ کی وفات ۹ جمادی الاخرٰی ۱۳۳۰ھ میں ہوئی۔قبرگورستانِ نوشاہیہ میں ہے۔
(سریف التواریخ جلد نمبر ۲)