حضرت مولانا حافظ سید الٰہی بخش نوشاہی قدس سرہ لقب بہ مظہر حق ،ساہنپال شریف (گجرات)
حضرت مولانا حافظ سید الٰہی بخش نوشاہی قدس سرہ لقب بہ مظہر حق ،ساہنپال شریف (گجرات) (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا حافظ سید الٰہی بخش نوشاہی قدس سرہ
لقب بہ مظہر حق ،ساہنپال شریف (گجرات)
حضرت مولاناحافظ سید الٰہی بخش مولانا حافظ سید نور اللہ شاہ مفتی رسول نگر (م۱۲۲۹ھ) ابن حافظ حیات ربانی (م ۱۱۷۳ھ)، ۱۱۸۲/۱۷۶۸ء میں ساہنپال شریف (گجرات ) میں پیدا ہوئے ۔ تعلیم و تربیت والد ماجد کے علاوہ عم مکرم مولانا سید ضیاء اللہ (م۱۲۳۴ھ) سے پائی ۔ علوم متداء لہ کے ساتھ ساتھ طب ، کتابت اور دعوت اسماء و عملیات میں بھی مہارت حاصل کی ۔ آپ سلسلۂ عالیہ نو شاہیہ قادریہ میں اپنے والد ماجد سے بیعت تھے ، ان کے علاوہ حضرت سید فتح الدین بن سید محمد عظیم نوشاہی (م ۱۲۲۷ھ) سے ظاہری طور پر اور حضرت سخی شاہ سلیمان نور قادری (م۱۰۱۲ھ) بھلوال اور حضرت نوشہ گنج بخش قادری قدس سرہٗ سے روحانی طور پر مستفیض ہوئے۔
حضرت مولانا الٰہی بخش نوشاہی سلسلۂ عالیہ قادریہ نو شاہیہ کے اور ادو اذکار پوری پابندی سے ادا کرتے اور آداب شریعت کا پورا پورا الحاظ کرتے ۔ آپ کے زمانہ ٔ سجادگی میں حضرت نوشہ گنج بخش رحمہ الہ تعالیٰ کے مزار شریف کو دریائے چناب کے سیلاب سے نقصا ن پہنچنے کا خطرہ لاحق ہوا تو آپ نے ۱۸ ،شوال ۱۲۳۷/۱۸۲۲ء کو حضرت نوشاہ کا تا بوت شریف نکالا اور دریا سے دو میل کے فاصلے پر دفن کر دیا ، آپ کی تصنیف کردہ دو غیر مطبوعہ کتابیں یاد گار ہیں :۔
۱۔ مفتاح العلاج (طبی مجربات )
آپ کے تین صاجزادے تھے :
۱۔ مولانا حافظ سید قل احمد نوشاہ ثانی (م۱۲۸۶ھ)
۲۔ سید غلام احمد المعروف کوٹے شاہ (م ۱۳۱۸ھ)
۳۔ سید فیض شاہ لاہوی (۸۱) (م ۱۳۳۴ھ)
۸رمضان المبارک، ۵ دسمبر ( ۱۲۵۳/۱۹۳۷ء ) کو حضرت مولانا الٰہی بخش تلاوت کلام پاک کر رہے تھے ’’ کم من فئتہ قلیلۃ غلبت فئتہ کثیرۃ با ذن اللہ ‘‘ تک پہنچ کر زبان رک گئی ، آپ کے فرزند اکبر مولانا حافظ قل احمد نے بتایا کہ’’ واللہ مع الصابرین ، پڑھتے ہی آپ کا وصال ہو گیا ۔
آپ کے فرزند اکبر حضرت مولانا حافظ سید قل احمد نوشاہی ۱۲۱۲/۸۔۱۷۹۷ء میں پیدا ہوئے ، مادہ تاریخ ولادت ’’ خجتہ قدم ‘‘ ہے ۔ ظاہری تعلیم والد ماجد مولانا الٰہی بخش اور جدا امجد مولانا نور اللہ شاہ رحمہما اللہ تعالیٰ سے حاصل کی ، بعد ازاں اپنے پھوپھی زاد بھائی مولانا سید غلام قادر سے تمام علوم کی تکمیل کی ۔ فن کتابت اپنے نانا مولانا محمد غوث سے حاسل کیا ۔ آپ علم و عمل میں اپنے آباء واجدا کے صحیح جانشین تھے چالیس سے زیادہ تسانیف کا ذخیرہ یادگار چھوڑا ، آپ کے دوصاجزادے تھے مولانا سید محمد امین نوشاہی (م ۱۳۱۰ھ) اور مولانا سید محمد شفیع (م۱۳۱۱ھ)۔ ۲۳ ربیع الثانی ، ۳ اگست ( ۱۲۸۶/۱۸۷۰ء ) کو بوقت تہجد آپ کا وصال ہوا۔
مولانا حافظ سید قل احمد نوشاہی کے فرزند اکبر مولانا سید شاہ محمد امین نوشاہی رحمہ اللہ تعالیٰ ۲۵ ذیعقدہ ( ۱۲۴۱ھ/۱۸۲۶ئ) کو پیدا ہوئے ، تاریخی نام ’’ مختار ‘‘ قرار پایا ۔ آپ نے اپنے آباء کے سلسلہ کو بحسن و خوبی نبھایا ، آپ کے تین صاجزادے تھے :
۱۔ مولانا حافظ سید روح اللہ ( م ۱۲۹۴ھ)
۲۔ پیر سید فاضل شاہ (م۱۳۳۷ھ)
۳۔ مولانا حافظ محمد شاہ (م ۱۳۳۷ھ)
آپ کا وصال ۱۸ جمادے الا خرے ، جنوری (۱۳۱۰ھ/۱۸۹۳ئ) کو ہوا۔
ان تمام حضرات کے مزارات قبر ستان نوشاہیہ ، ساہنپال شریف ، ضلع گجرات میں ہیں[1]
مناظر اسلام حضرت مولانا امام الدین قادری رضوی قدس سرہ (کوٹلی لوہاراں سیالکوٹ)
[1] شریف احمد شرافت نو شاہی مولانا ۔شریف التواریح ج ۲ موسام بہ طبقات نو شاہیہ (قلمی )۔
ناصر سنت ماحی بدعت حضرت مولانا ابو الیاس اما م الدین قادری رضوی ابن حضرت مولانا عبد الرحمن قدس سرہما کوٹلی لو ہاراں ۔، ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔جلیل القدر اساتذہ سے علوم دینیہ کی تحصیل کے بعد اعلیٰ حضرت امام اہلسنت مولانا شاہ احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہ کے دست مبارک پر بیعت ہوئے اور سلسلۂ عالیہ قادریہ میں خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے ۔ لطف کی بات یہ ہے کہ آپ کے دونوں بڑے بھائی مولانا علامہ ابو عبد القادر محمد عبد اللہ کوٹلوی اور فقیہ اعظم مولانا محمد شریف کوٹلوی قدس سرہما بھی اعلیٰ حضرت قدس سرہ خلیفۂ مجاز تھے[1]۔
حضرت مولانا امام الدین قدس سرہ کی مہر اس طرح تھی۔
آپ نے تمام عمر فرق باطلہ کے خلاف تقریری و تحریری طور پر جہاد کیا ۔ آپ پنجابی کے بہترین شاعر تھے علمی مسائل ، آیات قرآنیہ احادیث مبارکہ اور عبارات فقہیہ بڑی عمد گی سے نظم کے قالب میں ڈھال دیتے تھے ۔آپ نے تصانیف جلیلہ کا ذخیرہ یادگار چھوڑا لیکن آپ کے عزہ وقرا باء نے اس کی حفاظت و اشاعت کی طرف توجہ نہیں دی۔
چند تصانیف کے نام یہ ہیں:۔
۱۔ نصرۃ الحق المعروف بہ بیغ نعمانیہ بر گردن و ہابیہ (ردو ہابیہ ) تقلید ، علم غیب ، حیلۂ اسقاط، کفنی لکھنا اور احتیاط الظہر وغیرہ مسائل پر سیر حاسل بحث ، پنجابی اشعار میں ، صفحات ۸۲، مطبوعہ مفید عام پریس سیالکوٹ ، سن تالیف ۱۳۲۸ھ)
۲۔ احتیاط الظہر ( اس میں یہ ثابت کیا کہ نصاریٰ کی حکومت میں احتیاط الظہر پرھنی چاہئے،مخالفین اعتراف کے مسکت جوابات ، صفحات ۷۴، مطبوعہ سٹیم پریس امر تسر ، اس کے آکر میں اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں بریلوی قدس سرہ کی سند خلافت و اجادت بھی درج ہے۔
۳۔ ہدایۃ الشیعہ ، ( اردو ، دو حصے)
۴۔ الذکر المحمود فی بیان المولد المسعو د ، ( مطبوعہ ، کل صفحات ۴۸، نظم پنجابی)
نعت پاک کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ؎
سب تھیں نبی محمد نوں رب ، دتا شان اچیرا
علم غیب سکھلا یا اس نوں دور کیتا سب نھیرا
’ رب ، اپنے نازن دے نال رکھایا
نزد اللہ دے استھیں دو ھکے ہور پسند نہ آیا
وچوں دساں غیب استائیں
وچہ کلام اللہ دے دیکھو کہیا ہے رب سائیں
اسھیں خاس نتیجہ طاہر عقلاں والے جانن
غیبی علم بنی نوںمسیبی ہر دم شکر کما ون [2]
۱۹ ربیع الثانی ، ۲ اگست ( ۱۳۸۱ھ/۱۹۶۱ء ) کو حضرت مولانا ابو الیاس امام الشین قدس سرہ العزیز کا وصال ہو۔
آپ کے پوتے جناب رضا المصطفیٰ چشتی معروف صاحب قلم ہیں لیکن افسوس کہ کوشش بسیار کے با وجود راقم الحروف ان سے حضرت کے تفصیلی حالات حاصل نہ کر سکا لہذا انہی معلومات کو پیش کرنے پر اکتفاء کیا گیا ہے ۔ آخرمیں وہ سند اجازت پیش کی جارہی ہے جواعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ نے مولانا امام الدین کو عطا فرمائی تھی ، یہ سند رسالہ احتیاط الظہر میں چھپ چکی ہے ۔ اسی مطبوعہ سند کا عکس ہدیۂ قارمین ہے
[1] ماہنامہ الرضا دہلی ، شمار ۴۵، ۵، ماہ ربع الآخرو جمادی الاولیٰ ۱۳۳۸ھ(پیج نمبر۸۳ )
[2] امام الدین ، مولانا : نصرۃ الحق ، ص ۲
(تزکرہ اکابرِ اہلسنت)