سیّدجلال شاہ رحمتہ اللہ علیہ
سیّدجلال شاہ رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
مظہرنورخدائے ذوالجلال |
قطب ِعالم حضرت سیّد جلال |
آپ موردِ فیوضِ سبحانی۔کاشف اسرارِ رحمانی ۔بزرگ وقت قطب زمان تھے۔سیّد برہان شاہ بن سید کرم شاہ چک سادہ والہ رحمتہ اللہ علیہ کے فرزندثانی تھے۔
بیعتِ طریقت
آپ کی بیعتِ طریقت شیخ محمد بخش معمارگجراتی رحمتہ اللہ علیہ سے تھی۔ان کی خدمت میں کافی عرصہ گذارا۔وہ پیشہ معماری کرتے تھے۔اس لیے آپ نے بھی اُن کی محبت سے فن معماری سیکھ لیا۔
شجرہ بیعت
آپ کے پیر طریقت شیخ محمد بخش معمار گجراتی متوفی ۱۲۷۵ھ کو دو نسبتیں حاصل تھیں۔ایک قادری نوشاہی خاندان سے۔دوسری نقشبندی مجددی خاندان سے۔
۱۔یہ مرید شیخ کلیم اللہ گجراتی کے۔وہ مرید سید حافظ الٰہی بخش مظہر حق نوشاہی برخورداری کے۔وہ مرید اپنے والد سید حافظ نوراللہ کے ۔وہ مرید اپنے والد سید حافظ محمد حیات ربانی کے۔وہ مرید اپنے والد سید حافظ جمال اللہ فقیہ اعظم کے۔وہ مریداپنے والدسید حافظ محمد برخورداربحرالعشق کے۔وہ مریداپنے والدحضرت سید حافظ حاجی محمد نوشہ گنج بخش قادری رحمتہ اللہ علیہ کے۔
۲۔یہ مرید میاں محمد پناہ شیخپوری کے۔وہ مرید میاں غلام رسول بن میراں محمد خورشید سیالکوٹی کے۔وہ مریدامیرمحمدزکریادہلوی کے۔وہ مریدمیاں محمدسندھی کے۔وہ مرید شاہ محمد غوث قریشی عباسی لاہوری کے۔وہ مرید میاں شاہ محمد خاں لودھی کے ۔وہ مرید شیخ آدم بنوری کے۔وہ مرید حضرت مجدّد الف ثانی شیخ احمد سرہندی رحمتہ اللہ علیہ کے۔
پیشہ معماری
آپ نے اپنے پیرروشن ضمیر کے ساتھ بہت عرصہ تک صحبت رکھی۔فقیر کو مسجدیں بنانے اور روضے بنانے کاشوق تھا۔آپ نے ان کے ساتھ ہوکرکئی بزرگوں کے مزارات تعمیر کئے۔
حضرت نوشہ گنج بخش کا تیسراروضہ جوبصورت پالکی ہے۔وہ آپ کے ہاتھ کی عمارت ہے اور حضرت داتاگنج بخش لاہوری کےدربارکے سامنےجوڈیوڑھی ہے ۔وہ آج تک آپ کے ہاتھ کی یادگارہے۔
معمار کہلانا
آپ کی زبان سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ فقیرصاحب کسی دربارکی عمارت کررہے تھے۔اورمیں گارا،اینٹیں دے رہاتھا۔اچانک میرے دل میں خیال آیا۔کہ میں سیّد ہوکر راج کی نوکری دے رہاہوں۔چنانچہ میرے ضمیر سےآگاہ ہوکر فقیر صاحب نے فرمایاشاہ صاحب جاؤ۔کنویں سے پانی لے آؤ۔میں نے کنویں میں ڈول ڈالا۔جب باہرکھینچناچاہا۔تو نہ نکل سکا۔ہر چند زورلگایا۔مگرڈول نہ نکلا۔فقیرصاحب نے خود بخود فرمایاآپ تو سیّد ہوکر ڈول نہیں کھینچ سکتے۔توپھر سیادت کا کیافائدہ!اُسی وقت میں نے اپنے خیال سے توبہ کی اور فقیر صاحب سے معافی لی اور ان کو راضی کرلیا۔
اِسی واقعہ کے بعد شاہ صاحب کاطریقہ تھاکہ بجائے سیّد جلال کے اپنے آپ کو فقیر جلال کہاکرتے۔ اگرکوئی آپ سے پوچھتاکہ آپ کی قوم کیاہے؟توآپ فرماتےمیں راج(معمار)ہوں۔
دربارداتاصاحب سے فیض پانا
آپ نے چند سال تک دربار حضرت داتاگنج بخش لاہوری رحمتہ اللہ علیہ پر نوکری دی اور فیوضاتِ کثیر حاصل کئے اور کسی کو معلوم نہ کرایا۔کہ ہم سیّد ہیں۔آخر آپ کے کمالات کاشہرہ ہواتو داتاصاحب کے سب مجاوراورگدی نشین آپ کے مریدہوگئے۔
درگاہِ داتاصاحب سے عقیدت
ایک دن آپ درگاہِ داتاصاحب کے چشمہ سے چلو میں پانی لے کر پی رہے تھےاورآنکھوں پر لگارہے تھے۔مولوی غلام قادر بھیروی امام مسجد بیگم شاہی لاہورمؤلف کتب اسلام۔وہاں موجود تھے۔انہوں نے کہا۔شاہ صاحب یہ کیاکررہے ہیں؟آپ نے فرمایااس پانی سے دل اور آنکھیں روشن کررہاہوں۔مولوی صاحب خاموش ہوگئے۔
سچیار صاحب کا فیض
آپ فرماتے ہیں کہ جب ۱۳۱۰ھ میں نوشہرہ شریف دریابُرد ہوا اورحضرت سچیار صاحب اوران کی اولاد کے تابوت مزارات سے نکال کر ایک مکان میں رکھے گئے۔ ہم بھی زیارت کرنے کے واسطے وہاں گئے۔جب عین زیارت کاوقت ہوا۔توہمارےدل میں خیال پیداہواکہ اگردرویش زندہ ہوتاتو اس کے دیکھنےکاکوئی فائدہ ہوتا۔اب فقیر کی ہڈیوں کاکیا دیکھناہے۔اس خیال سے زیارت نہ کی اور واپس چلے آئے۔رات کو خواب میں حضرت سچیار صاحب کی زیارت ہوئی۔انہوں نے فرمایا۔شاہ صاحب فقیر کی ہڈیوں کاکیادیکھنا ہوتاہےاور ہمارے قلب پر پھونک مار کرفرمایا۔کہ فقیرکایہ دیکھناہوتاہے۔جب ہم بیدارہوئے توہماراقلب ذاکر تھا۔
پاک صاحب سے عقیدت
ایک بارآپ کہیں سفرپرجارہے تھے۔راستہ میں حضرت شیخ عبدالرحمٰن پاک صاحب بھڑیوالہ رحمتہ اللہ علیہ کادربارآگیا۔وہاں زیارت کی ۔آپ کے ساتھ شیخ محمد امین لاہوری تھے۔انہوں نے کہایاحضرت یہ بزرگ ذات کے دھوبی تھے۔آپ نے فرمایا۔میاں اس بات سے توبہ کر فقیرکی ذات ذاتِ حق ہے۔
ایک مخالف شریعت کو تنبیہ
منقول ہے کہ ایک بار آپ کہیں جارہے تھے۔ایک گاؤں کے پاس سے گذرے۔رمضان شریف کا
مہینہ تھا۔چندآدمی سڑک پر بیٹھ کردن کوحُقّہ پی رہےتھے۔ آپ نےفرمایاتم لوگ علانیہ حُقّہ پی رہے ہو۔کچھ شرم کرنی چاہیئے۔ان میں سے ایک شخص نے گستاخانہ جواب دیاکہ جب خداسے کوئی چوری نہیں توبندوں سے کیاچوری ہے؟آپ نے فرمایابعض کام ایسے ہوتے ہیں کہ بندوں سے بھی شرم کرنی پڑتی ہے۔مثلاً تمہاری منکوحہ تم پر حلال ہے۔کیا عام مجلس میں کھلم کھلا اس سے جماع کرسکتے ہو۔وہ سخت شرمسارہوا۔
ایک مولوی سے گفتگو
منقول ہے کہ ایک بار آپ ریل میں سوارکرلاہور جارہے تھے ایک مولوی صاحب بھی گاڑی میں بیٹھے تھے۔اُن سے پوچھاکہاں جارہے ہو مولوی صاحب نے کہا کہ لاہور میں اشتہارچھپوانے جارہاہوں کہ اس ملک میں جمعہ پڑھناجائزنہیں۔پھراس نے پوچھا۔ آپ نے کہاں جارہے ہیں۔آپ نے فرمایامیں بھی لاہور اشتہارچھپوانےجارہاہوں ۔کہ اس ملک میں نماز پڑھنی جائز نہیں۔اُس نے پوچھا یہ کیا؟آپ نے فرمایا۔ایک فرض سے تم روک رہے ہو۔دوسرے سے ہم روک دیتے ہیں۔وہ لاجواب ہوگیا۔
آپ نے اس کو نصیحت فرمائی۔کہ لوگوں کے جمعہ پڑھنے سے تمہاراکیانقصان ہے۔تو کیوں روپے خرچ کرکے لوگوں کو ثواب سے روک کر اپنے لیے عذاب خریدتاہے۔چنانچہ وہ اس ارادہ سے باز آیا۔
مرزاقادیانی کے بیٹے سے گفتگو
منقول ہے کہ مرزاغلام احمد قادیانی کابڑابیٹا مرزاسلطان احمد ایک کنجری پر عاشق تھا۔وہ آپ کے پاس آیااورالتجاکی۔آپ نے فرمایا۔اگرتوکسی نیک کام کے واسطے دعا کراتاتوکیااچھاہوتامگرخیراب یہ بھی تمہارا مقصد حاصل ہوجائےگا۔چنانچہ انہیں دنوں میں کنجری نے اس سے نکاح کرلیا۔اس کے بعدوہ آپ کامعتقد ہوگیا۔
بعدازاں مرزاسلطان احمد آپ کے پاس بیعت ہونے کی غرض سے حاضرہوا۔آپ نے فرمایامیاں تیراباپ تونبوّت کامدعی ہے اور ہم فقیرلوگ ہیں۔توپیغمبرکابیٹاہوکردرویشوں کے پیچے کیوں پھرتا ہے۔اُس نے کہا عالیجاہ۔میرے باپ کے دماغ میں خلل واقع ہوگیاہے اور بسبب مالیخولیاکے نبوّت کادعوےٰ کردیا۔حالانکہ نبوت حضرت محمد رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم پرختم ہوچکی ہے۔آپ نے اس کو بیعت کرلیااورآپ کی دعاسےسرکاری ملازمت میں بہت عہدے ملے۔
مرزاسلطان احمد کہتاتھاکہ جب کہیں میری تبدیلی ہونی ہوتی۔توآپ رات کو خواب میں مل کر پہلے ہی مجھے اطلاع دے دیاکرتے۔صبح کو تبدیلی واقع ہوجاتی۔
تحریرکتب
آپ کے ہاتھ کاایک بیاض قلمی موجود ہے۔جوکہ آج کل آپ کے برادرزادہ حاجی پیر معصوم شاہ کے پاس ہے۔اس میں چودہ خاندانوں کاذکرلکھ کراس طرح دستخط کیاہے۔
"تمت بعون اللہ ۔تمام شد چہاردہ خانوادہ بدست خدافقیرسیّد جلال الدین گیلانی ولد سیّد برہان شاہ ساکن موضع چک سادہ پر گنہ گجرات ازاولاد حضرت سید عبدالواسع تحریریافت داخل سلسلہ قادری نوشاہی ست"۔
سجع مُہر
آپ نے ۱۲۶۶ھ میں مُہربنوائی۔جس پریہ الفاظ کندہ ہیں۔"سید جلال گیلانی ۱۲۶۶ھ"۔ یہ مُہر بیاضِ جلالیہ پرثبت ہے۔
کرامات
دعائے دولتمندی
شیخ محمدامین وشیخ محمدصدیق لاہوری نے دونوں بھائی آپ کے مریدہوئے اوراپنی غربت وافلاس کی
شکایت کی۔آپ نے ان کے حق میں دعائے خیرفرمائی۔وہ تھوڑے ہی عرصہ میں مالدار ہوگئے۔
ایک مرید کو مقدمہ سے خلاص کرنا
آپ کامریدکرم بخش کہتاتھاکہ مجھ پر قتل کا مقدمہ بن گیا۔ان ایام میں آپ لاہورتھے۔میں نے ماجراعرض کیا۔آپ مجھ کو سرگی کے وقت درگاہِ حضرت داتاگنج بخش رحمتہ اللہ علیہ پر لے گئے۔روضہ اقدس کے دروازہ سے دائیں طرف خود کھڑے ہوگئےاور بائیں طرف مجھ کوکھڑاکیا۔مجھ پر بیہوشی طاری ہوگئی۔دیکھتاہوں کہ وہاں کچہری لگ گئی اور میرامقدمہ پیش ہوگیااورمجھے بَری کاحکم ہوگیا۔جب آٹھ دن کے بعد عدالت میں تاریخ پر پیش ہواتوجج نے مجھ بَری کردیا۔
ایک مرید کو تادیب کرنا
آپ کا ایک مریدمیاں عالم تھا۔وہ ایک عورت پر فریفتہ ہوگیا۔ آپ نےہرچند اُسےمنع کیا۔کہ یہ فقیروں کاکام نہیں مگروہ باز نہ آیا۔اسی اثنأ میں ایک رات سویا۔ فجر کواٹھاتواندھاہوچکاتھا۔کئی ڈاکٹروں کے پاس گیا۔مگرسب نے جواب دے دیا۔آپ کے آگے بہت منت سماجت کی۔مگرآپ نے فرمایاتواندھاہی اچھاہے۔آنکھیں ہوں تو فساد کرتی ہیں۔تو اسی حالت میں رہے گااورلوگ تیری خدمت کیاکریں گےاور تیری دعاسے بے اولادوں کو اولاد ہوا کرے گی۔چنانچہ ایساہی ہوا۔
اولاد
آپ کے ایک ہی فرزند سید غلام محی الدین تھے۔
یارانِ طریقت
آپ سے کافی مخلوق فیضیاب ہوئی۔خواص احباب یہ تھے۔
۱۔سید غلام محی الدین فرزند آنجناب ساکن چک سادہ ضلع گجرات
۲۔شیخ فضل نوربن مرزالعل بیگ افغان ساکن بغدادہ متصل ہوتی مردان۔مدفون چک سادہ۔
۳۔میاں غلام حسن مجاور وسجادہ نشین درگاہِ حضرت داتا گنج بخش لاہور۔
۴۔منشی مہتاب دین ازاولادِ شاہ عنایت قادری شطاری لاہور۔
۵۔حاجی مولوی احمد بخش ساکن لاہور۔
۶۔شیخ محمد صدیق ساکن لاہور۔
۷۔شیخ محمد امین ساکن لاہور۔
۸۔میاں عالم زرگرساکن کوٹ خوشحال متصل پنڈی بَھٹیاں ضلع گوجرانوالہ۔
۹۔میاں غلام محمد امام مسجد گڑھی لودی۔تحصیل حافظ آباد۔ضلع گوجرانوالہ۔
۱۰۔میاں میراں بخش بن شیخ محمد بخش معمار ساکن گجرات۔
۱۱۔حاجی اسمٰعیل ساکن گجرات۔
۱۲۔میاں عمر بخش معمارساکن جلالپور بَھٹیاں۔
۱۳۔شیخ محمد سعید مدفون ساراں کے برمکان نوربادشاہ۔
۱۴۔چوہدری کرم بخش ساکن جان پورمتصل حجرہ شاہ مقیم ضلع منٹگمری ۔
۱۵۔سائیں امیر علی رنگریز المعروف ہادی چرخہ مدفون جموں۔
۱۶۔خان بہادرمرزاسلطان احمد بن مرزاغلام احمد مغل برلاس ساکن قادیان ضلع گورداسپور۔
۱۷۔بابابرخوردارساکن بَنبانوالہ ضلع سیالکوٹ۔
۱۸۔میاں شرف بنجارہ ساکن بَن باجواہ ضلع سیالکوٹ۔
۱۹۔میاں مہردادگورہایہ ساکن کوٹ پہلوان۔
۲۰۔میاں ابراہیم گورہایہ۔
۲۱۔مائی اللہ رکھی مجذوب ساکن لاہور۔
مدحیات
آپ کی تعریف میں بعض لوگوں نے نظمیں لکھی ہیں۔از انجملہ۔
قصیدہ
ازحاجی مولوی احمد بخش لاہوری رحمتہ اللہ علیہ
مطلعِ صبحِ صفا سرچشمۂ نورِ خدا |
حضرتِ سیّد جلال الدین چراغِ اولیا |
مخزنِ اسرارِ یزداں حضرت سیدجلال |
مطلعِ انوارِ رحماں حضرتِ سیّد جلال |
سیّدِ والاقدرکانِ ولایت راگُہر |
نورجاں محبوبِ سبحان حضرتِ سیّد جلال |
خواجۂ ہردوسراآرامِ جاں مصطفےٰ |
نورچشمِ شاہِ مرداں حضرتِ سیّد جلال |
مظہرِ ذاتِ خداآئینۂ صدق وصفا |
طوطیِ بستانِ عرفاں حضرتِ سیّد جلال |
قبلۂ مقصودِ عالم کعبۂ حاجاتِ خلق |
نوبہارباغِ ایماں حضرتِ سیّد جلال |
واقفِ رمزطریقت عالمِ علم الیقین |
کاشفِ اسرار قرآں حضرتِ سیّد جلال |
مقتدائے حق پرستاں پیشوائے مقبلاں |
قافلہ سالارِ پاکاں حضرتِ سیّد جلال |
گوہرِدُرجِ حقیقت ماہِ بُرجِ معرفت |
سربسرتوحیدِیزداں حضرتِ سیّد جلال |
زندۂ جاوید ہست ازجُرعۂ جامِ فنا |
چوں خضرازآبِ حیواں حضرت ِسیّدجلال |
جلوہ گرہست آنچناں درحلقۂ روشندلاں |
چوں درانجم ماہِ تاباں حضرتِ سیّد جلال |
مثلِ عابد شاکروصابرچوشاہِ کربلا |
خوبرو چوں ماہِ کنعاں حضرتِ سیّد جلال |
صاحبِ جودوسخامشکل کشاحاجت روا |
چوں بعالم شاہِ جیلاں حضرتِ سیّد جلال |
مرشدوہادی درہبردستگیر و پیشوا |
ہست مارادین و ایماں حضرتِ سیّد جلال |
دردمے سازوتروتازہ دلِ پژمردہ را |
چوں بکشتِ خشک باراں حضرتِ سیّد جلال |
داروئے دردِ درونِ دردمندانِ جہاں |
قوتِ ماناتواناں حضرتِ سیّد جلال |
نیست غم از شرِّ دشمن ہست چوں مانندِ نوح |
کشتیِ مارانگہباں حضرتِ سیّد جلال |
گرچہ ظاہر غائب ست ازچشم ماواندمگر |
جملہ حالِ ماغریباں حضرتِ سیّد جلال |
مثل بلبل میشوم گریاں چوآئید درخیال |
ہمچوگل لب ہائے خنداں حضرتِ سیّد جلال |
ساخت ازیمنِ قدومِ خویش چک سادہ را |
غیرتِ بستانِ رضوان حضرتِ سیّد جلال |
بادتاروزِ قیامت سایۂ فضلِ خدا |
برسرِ جملہ مریداں حضرت ِسیّد جلال |
ہست درلاہور خاک پائے |
احمدِ مسکین ثناخواں حضرتِ سیّد جلال |
دیگر
از میاں کرم بخش رحمتہ اللہ علیہ
اے ہمارے رہنماؤ پیشواؤ مقتدا |
مخزن علمِ لدنی مہبطِ نورخُدا |
شب چراغِ بحرِ عرفاں فخرِ آلِ مصطفےٰ |
واقفِ سِرّ الٰہی رہبرِ راہِ ھُدا |
لعل ہو خیرالنساکے گُل زباغِ مرتضےٰ |
سیّدِ عالی نسب ہو برگزیدہ اولیأ |
آپ کے در کے ہیں سائل سب امیروہم گدا |
میں بھی اک دریوزہ گرہوں سُن میری یہ التجا |
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دے مجھے دیدار اپنے کبریاکے واسطے! |
لوخبرسیّد جلال الدین خداکے واسطے! |
پیشوائے عارفاں ہورہنمائے سالکین |
موردِ فیضِ الٰہی مخزنِ نور متین |
رہبرگُل متقین ومشعل راہِ یقین |
قبلۂ حاجات ہواورکعبۂ دنیاؤدین |
ہوگلستانِ علی ہجویر کے تم خوشہ چین |
اور ہو ملکِ طریقت کے تمہیں مسند نشین |
ہجرسے ہے حال ابترہوں میں بس اندوہگین |
جل گیافرقت سے دل اے نورختم المرسلین |
کرکرم مجھ پر محمد مصطفےٰ کے واسطے |
لوخبر سیّد جلال الدین خدا کے واسطے! |
مخزنِ لطف و سخا ہو معدنِ جودوکرم |
مصدرِ الطاف ہو اور مطلعِ نورِ قدَم |
چشمہ ہوفیض ومروت اے میرے عالی ہمم |
منبعِ احسان و ہمّت ثروت و فیض و کرم |
بحرِ عرفاں کے شناورمالکِ ملکِ حَشَم |
گوہرِدرجِ ولایت صاحبِ عزّو شرم |
بِن تمہارے ہوں پریشاں اے میرے عالی ہمم |
کرتاہوں آگے تمہارے یہ عرض باچشمِ نم |
بوبکرفاروق وعثماں مرتضےٰ کے واسطے |
لوخبرسیّد جلال الدین خداکے واسطے |
عالمِ برزخ میں زندہ گرچہ ہیں عالیجناب |
پرہومیری آنکھ سے پوشیدہ اے عالیجناب |
پھرتاہوں مغموم وحیراں ہے میری حالت خراب |
آپڑاہےبارِ غم اوردردورنج والتہاب |
جاتاہے اب ہاتھ سے دل لو خبرمیری شتاب |
فرقتِ حضرت سے یہ تن ہےمیرامثلِ رباب |
شعلۂ نارِ ہجرسے دل ہواجل کرکباب |
خاکساروعاجزو بیکس ہوں اے عالیجناب |
آمیر ی امداد کو خیرالنساکے واسطے |
لوخبرسیّد جلال الدین خدا کے واسطے |
دیکھ تو اے پیرمیرے غم سے ٹوٹاہے بدن |
ہجرکی آتش سے جل کر خاک ہیں یہ جان و تن |
دربدرپھرتاہوں میں اندوہگین ودلکشن |
خوارہوں لاچار مسکیں اے میرے شاہِ زمن |
کس طرف جاؤں کہوں کسکو یہ منزل ہے کٹھن |
آپڑااس ہجرسے سرپرمیرے رنج و محن |
آمیر ی فریادسن اے نورِذاتِ ذوالمنن! |
دومجھے دیدار اب اےنورِ ذاتِ پنج تن |
بہرحسن اورشہید ِ کربلا کے واسطے |
لوخبرسیّد جلال الدین خداکے واسطے |
کیاکروں اظہاروہ جو ہے مجھے دردِ نہاں |
بِن تمہارے ہےمجھے دنیامثل ریگِ تپاں |
بیقراری رنج و غم آکرہواسرپرعیاں |
جزتمہارے قیدخانہ ہیں مجھے دونوں جہاں |
اشک ریزاں ہوں میں تجھ بن اور ہوں نالہ کناں |
گرنہ ہو مجھ کو زیارت جاتی ہے اب تن سے جاں |
ہجرکے غم سے سبھی زائل ہواتاب وتواں |
دومجھے دیداراے بشتِ پناہ بیکساں |
دیجے میرامدعازین العباکے واسطے |
لوخبرسیّد جلا ل الدین خداکے واسطے |
اے میرے ہادی ومرشد رہبرِ صاحب نظر |
ہوں میں عاجز اوربیکس آپڑاہوں دَر اُپر |
حال ہے مجنوں صفت ٹوٹ ہے بس لختِ جگر |
بیٹھاہوں درپرتیرے محتاج عاجز مفتقرا |
ہے جلاتاجان وتن کو روزو شب نارِ ہجر |
پھرتاہوں حالت پریشاں بن تیرے دیوانہ سر |
روزوشب رہتاہوں غم سے آپ کے باچشمِ تر |
آمیری امداد کوجلدی سے لو میری خبر |
باقروجعفر علی موسےٰ رضاکے واسطے |
لوخبرسیّد جلا ل الدین خداکے واسطے |
گرچہ لذت ہجرمیں ہے لیک ہے امرِ محال |
ہاں بجزامداد کے ہرگزنہیں میری مجال |
کیاکروں تحریر جو ہے مجھ کو رنج و غم ملال |
مثلِ جنوں کوہ کن پھرتاہوں میں شوریدہ حال |
جل گیانارِ ہجرسے غم سے تن مجھ کو کمال |
میں ہوں سائل درتیرے کاسن میری یہ قیل و قال |
جزتمہارے کون ہے غمخواراے سیّدجلال |
دومجھے خمخانۂ الطاف سے جامِ وصال! |
موسےٰ کاظم اورتقیِ باصفاکے واسطے |
لوخبرسیّد جلال الدین خداکے واسطے |
جزتمہارے باغ کے سبھی ہیں خاروخس |
ہے میرے دل میں تیرے دیدارکی ہر دم ہوس |
بج رہاہے شوق حضرت سے یہ دل مثلِ جرس |
ہوترقی شوق کی یہ التجا ہے میری بس |
ہے بغیر از آپ کے دنیامجھے مثلِ قفس! |
اس سبب سے رہتاہوں میں چشم گریاں ہرنفس |
تم یگانہ ہونہیں ثانی تمہارا ہیچ کس |
جزتیرے اے پیرمیرے کون ہے فریا د رس |
علی نقی عسکری مہدی رضاکے واسطے |
لوخبر سیّد جلال الدین خداکے واسطے |
بارِ ہجراں سے میرے سرپرہواشور وشرر |
آبلہ دل کا ہے پھوڑا اور ہے خستہ جگر |
فرقتِ حضرت سے ٹوٹی ہے میری دیکھو کمر |
اس سبب سے رہتاہوں اندوہگیں اور چشم تر ہوں |
پریشاں اور قیامت کا ہےبس مجھ کو حذر |
حال ہے ابترمیرااورہوں میں عاجز مضطرر |
ہے فقط مجھ کو وسیلہ ذات کامدِّ نظر |
رحم کر مجھ پرتو جلدی اے شہِ عالی قدر |
غوث ِاعظم پیرومرشد رہنماکے واسطے |
لوخبر سیّد جلال الدین خداکے واسطے |
اے کرم چپ ہو نہ کرشوروفغاں کو بَرملا! |
کہہ تو حضرت سے تمامی جو ہے تیرامُدعا! |
وہم فاسد جوہیں دل میں ہوویں سب یکدم فنا |
دُور ہو مجھ سے خودی حاصل ہوپھرمجھ کو بقا |
عرض ثانی ہے کہ جب درپیش ہوروزِجزا |
ہوتیرادامن میراہوہاتھ اے آلِ عبا |
اے میرے سیّد جلال الدین شاہ سُن التجا |
رکھ حضوری میں مجھے حاضر تودرصبح ومسا |
یعنی نوشہ گنج بخشِ دوسراکے واسطے |
لوخبرسیّد جلال الدین خداکے واسطے |
تاریخ وفات
سیّد جلال الدین کی وفات اتوار۔وقت نماز مغرب ۔تیرہویں ذیقعدہ ۱۳۱۳ھ میں ہوئی۔آپ کی قبرچک سادہ میں روضہ اطہر حضرت سید صالح محمد نوشاہی رحمتہ اللہ علیہ کے اندر سنگِ مرمر سے بنی ہوئی ہے۔بلند چبوترہ پرواقع ہے۔
قطعۂ تاریخ
افتخارِ زاہداں سیّد جلال الدین شاہ |
پیشوائے مومناں آں سرورِ عالم پناہ |
سیزدہ ذیقعدوقتِ شام کردازماسفر |
بیست شش اپریل رفتہ درجناں باعزوجاہ |
روزآں یکشنبہ بودوشانزدہ ماہِ بساکھ |
سنہ ہجری یکہزار وسیصد وہم سیزدہ |
مادۂ ہائےتاریخ
۱۔آفتابِ طریقتِ علی۔
۲۔رحمتِ خداوند۔
(سریف التوایخ جلد نمبر ۲)