مولانا سید جمال الدین کاظمی چشتی
مولانا سید جمال الدین کاظمی چشتی (تذکرہ / سوانح)
مولانا سید جمال الدین شاہ کاطمی بن پیر طریقت حضرت سید غلام کمال الدین شاہ کاطمی چشتی (متوفی ۱۹۹۳ئ) آستانہ کواجہ آباد شریف ضلع میانوالی (پنجاب) میں ۲۸ ، اگست ۱۹۴۶ء کو تولد ہوئے
تعلیم و تربیت:
آپ نے اپنا بچپن اپنے بزرگوں کے زیر سایہ گزارا۔ ابتدائی تعلیم خواجہ آباد اور ملحقہ گائوں ولیوالی میں حاصل کی۔ بارہ سال کی عمر میں آپ نے اپنا آبائی گائوں چھوڑ دیا اور دینی تعلیم کے حصول کیلئے جامعہ امدادیہ مظہریہ بندیال شریف (ضلع خوشاب ) میں داخل ہوگئے ۔ یہاں آپ کے استاد العلماء علامہ عطا محمد بندیالیوی اور حضرت علامہ عبدالحق بندیالوی سے اکتساب علم میں مشغول رہے۔ اس کے بعد وہاں بھچراں (ضلع میانوالی) بھکھی شریف ()ضلع منڈی بہائوالدین) سیال شریف (ضلع سرگودھا) مردان(سرحد) جامعیہ نعیمیہ (لاہور) اور دارالعلوم امجدیہ (کراچی ) کے مدارس میں دینی تعلیم کی تحصیل میں مصروف رہے۔
خانقاہوں کے عام صاحبزدگان کے بر عکس آپ نے عیش و آرام کی زندگی کو ترک کرکے سفر کی تکلیفوں کو برداشت کرتے ہوئے دنی تعلیم مکمل طور پر حاصل کی ۔ (نوائے وقت کراچی ۲۲، جولائی ۲۰۰۱) ۱۹۹۶ء میں آپ کو دورہ حدیث پاک پڑھنا تھا۔ طے یہ ہو اکہ صحاح ستہ سبقاً سبقاً پڑھی جائے۔ اسلئے مدرسہ شمس العلوم نصیریہ خواجہ آباد شریف میں استاد العلماء علامہ حافظ غلام محمد تونسوی کا تقرر ہوا سال بھر دورہ حدیث پاک کے اسباق جاری رہے سال کے آخر تک صحاح ستہ مکمل ہوا۔
دستار بندی اور جانشین کا تقرر:
شعبان کے ابتدائی ایام میں حضرت سید غلام کمال الدین شاہ کاظمی نے دربار کواجہ آباد شریف کے زیر سایہ ایک پر وقار تقریب کا اتہمام کیا۔ جس میں مریدین کے علاوہ حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی سجادہ نشین سیال شریف بطور مہمان خصوصی تشریف لائے مولانا سید جمال الدین شاہ کاظمی کی حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی نے علوم دینیہ سے فارغ التحصیل ہونے پر دستار فضیل باندھی اور چند خصوصی سندوں سے حدیث پاک کی روایت کی اجازت مرحمت فرمائی۔ آپ کے والد ماجد سید غلام کمال الدین شاہ کی درخواست پر آئیندہ کیلئے جانشین مقرر کرتے ہوئے خلافت بھی عطا فرمائی۔ آخر میں اوراد چشتیہ کی اجازت مرحمت فرمائی۔
بیعت و خلافت:
واضح ہو کہ آپ کے والد ماجد کے منظور نظر ، دست بیعت و جانشین تھے اور حضرت خواجہ کے چشتیہ سلسلہ میں خلیفہ تھے۔
شمس العلوم کی تعمیر:
خانقاہ خواجہ آباد پر آپ کے والد ماجد نے دینی درسگاہ شمس العلوم نصیریہ کیلئے مختصر کچی جگہ تعمیر کی تھی جب کہ آپ نے ۱۹۷۲ء میں آٹھ کنال اراضی پر شمس العلوم نصیریہ کا سنگ بنیاد رکھا ارو مسلسل جد و جہد و کاوش سے چھ کمروں بمع برامدہ پر مشمل عظیم الشان عمارت پایہ تکمیل کو پہنچی۔
تحریک نظام مصطفی
۱۹۶۷ء میں ملک میں عام انتکابات ہوئے لیکن ’’قومی اتحاد‘‘ نے نتائج کو صحیح تسلیم نہ کرتے ہوئے تحریک شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ رفتہ رفتہ یہ تحریک ’’تحریک نظام مصطفی‘‘ ﷺ کا روپ دھار گئی۔ عوام اہل سنت بھٹو کے سوشلزم کے خلاف اور نظام مصطفی ﷺ کے نفاذ کی تحریک میں قوت پیردا کرنے کیلئے رضا کارانہ طور پر گرفتاریاں دینے لگے۔ چنانچہ آپ نے بھی اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے حکومت کے خلاف اہلیان میانوالی کے تعاون سے ایک زبردست جلوس نکالا جس سے انتظامیہ بوکھلا گئی اور آپ کو گرفتار کرنے کے درپے ہوگئی بالآخر آپ کو گرفتار کرکے میانوالی جیل بھیج دیا گیا۔ اس وقت آپ جمعیت علماء پاکستان ضلع میانوالی کے جنرل سیکریٹری تھے۔ جب کہ حضرت علامہ سید غلام فخرالدین گانگوی چشتی (مہتمم مدرسہ شمس العلوم کانگی شریف ضلع میانوالی) ضلعی صدر تھے۔ تحریک نظام مصطفی کے سلسلے میں آپ نے ڈھائی ماہ سے زائد عرصہ تک قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔
قمر العلوم فریدیہ کا قیام:
۱۹۷۹ء میں آپ مستقل طور پر کراچی تشریف لے آئے اور اپنے پیر و مرشد حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی کے نام سے ماری پور روڈ ٹرک اسٹینڈ لیاری کراچی میں جامعہ قمر العلوم فریدیہ دینی درسگاہ قائم ،ی۔ مختصر مدت میں قمر العلوم کو ایک شاندار عمارت کے علاوہ معیاری دینی درسگاہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے۔قمر العلوم میں آپ کا کتب خانہ بھی شاندار ہے ۔آپ فراغت کا وقت مطالعہ میں گزارتے تھے ۔
کراچی سے اسلام آباد لانگ مارچ :
۹، جولائی ۱۹۸۶ئکو آپ نے براعظم ایشیا کی تاریخ میں وہ بے مثال کارنامہ انجام دیا کہ آئندہ بھی اسے سنہری حروف میں لکھا جائے گا، آپ نے پاکستان میں نظام مصطفی ﷺ کے عملی نفاذکے لئے حکومت وقت پر یہ باور کرانے کے لئے کہ باسیان پاکستان کی اہم ضرورت نظام مصطفی کا نفاذہے ۔ کراچی تااسلام آباد تک اپنے ایک سو رفقا، ومریدین کے ساتھ پیدل لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ۔ ظاہر ا یہ اعلان بڑا عجیب معلوم ہوتا تھا کہ جولائی کی شدید ترین گرمی میں سترہ سو کلو میٹر کا طویل سفر کس طرح طے کیا جائے گا۔
لیکن آپ کی مستقل مزاجی نے اس اعلان کو حقیقت کا جامہ پہنا کر سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ اتنی بڑی جدوجہد ، دنیاوی تمام مفادات سے قطع نظر ہو کر صرف نظام مصطفی کے نفاذ کے لئے تھی ۔ غلامان مصطفی کا یہ قافلہ ۳۱، اگست ۱۹۸۶ء کو راستہ کی تمام مصائب و تکالیف برداشت کرتے ہوئے اور راستہ میں آنے والے تمام چھوٹے بڑے شہروں کے عوام اہل سنت کی جانب سے استقبالی الوداعی جلسے اور دعاتوں کی سورت میں ملنے والی محبتوں کو سمیٹتا ہوا بالآخر اپنی منزل مقصود کو پہنچ گیا لیکن ظالم و غاضب حکمرانوں نے اس عظیم قربانی سے صرف نظر کرتے ہو ئے کاروان نفاذ نظام مصطفی کو ’’صدر ہاوس ‘‘ اورپارلیمنٹ سے دور رکھنے کے لئے لیاقت باغ راولپنڈی کے قریب اس مختصر پر امن قافلہ کو ہر طرف سے گھیر لیا اور کاظمی صاحب سے مذاکرات کی درخواست کی ۔ مذاکرات میں حکومت کے نمائندوں نے ملک میں اسلامی نظام کے نفاذکا وعدہ کیا۔ جس کے بعد یہ احتجاجی پروگرام ختم کر دیا۔
جہاد افغانستان :
۱۹۸۹ئمیں کاظمی صاحب جہاد افغانستان میں کمیونسٹ ملک روس کے خلاف مجاہدوں کے شانہ بشانہ صف آرا ہو ئے ۔ ۹۴۔ ۱۹۹۵ ء میں دوبارہ جہا د افغانستان میں اپنے بیالیس (۴۲)ساتھیوں سمیت تشریف لے گئے ۔ ۱۹۹۸ء میں طالبان کے جہاد میں طبیعت کی نا سازی کے باوجو د شریک رہے ۔
تحریک اسلامی انقلاب کا قیام :
۱۹۹۰ء میں آپ نے تحریک اسلامی انقلاب کا قیام عمل میں لائے ۔ اس تحریک کے موسس وامیر آپ خود ہی تھے ۔ تحریک کے پلیٹ فارم سے آپ نے ملک بھر میں شمولیت کی دعوت دی ، کئی دورے کئے ، عوام الناس کو تقریر و تحریر کے ذریعے اسلامی نظام کے نفاذکی ضرورت و اہمیت سے آگاہ کیا ۔
ان دنوں آپ نے فقیر اقم سے رابطہ کیا اور اپنا لٹر یچر لاڑکانہ بھجوایا تھا ، فقیر نے چند مشورے اور تجاویز بھی ارسال کی تھیں ۔ معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ان کے انتقال سے تحریک ہی ختم ہو گئی ہے ۔ انفرادی تحریکوں کا اکثر یہی حال ہوتا ہے ۔
تصنیف و تالیف :
آپ نے تحریکی مصروفیا ت کے باوجود تحریری خدمات بھی انجام دیں ۔ ان میں سے بعض کتب کے نام درج ذیل ہیں :
۱۔اسلام اور عورت کی حکمرانی
۲۔اسلامی نظام اور ایمانی تقاضے
۳۔اسلامی نظام اور مغربی جمہوری پارلیمانی نظام
۴۔مغربی پارلیمانی طریق انتخاب علماء امت کی نظر میں
۵۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر
۶۔ گل گلستان اہل بیت
(حالات زندگی حضرت سید عبداللہ شاہ ، کلفٹن ، کراچی )
۷۔ تحریک اسلامی انقلاب کے اغراض و مقاصد اور لائحہ عمل
تمام کتابیں قمرالعلوم فرید یہ میں قائم تحریک اسلامی انقلاب کے دفتر سے شائع ہوئیں اور ملک بھر میں مفت تقسیم ہو ئیں ۔
اولاد :
آپ کو دو بیٹے تولد ہوئے :
٭ مولانا سید محمد فرید الحسنین شاہ کاظمی مہتمم قمرالعلوم فرید یہ کراچی
٭ مولانا حافظ محمد فاروق انور شاہ کاظمی
وصال :
مولانا سید جمال الدین شاہ کاظمی ۱۷،مئی ۱۹۹۹ء کو کراچی کے دورے پر تھے۔ یہیں آپ کی طبیعت سخت ناساز ہوگئی، جس کی وجہ سے آپ کو ہسپتال میں داخل کرنا پڑا، ہسپتال میں پانچ روز بے ہوش رہنے کے بعد جیسے ہی آپ کو ہوش آیا تو آپ نے انتہائی نگہداشت کے وارڈ آئی سی یو میں ہونے کے باوجود اپنے بڑے صاحبزادے فرید کو حکم دیا کہ آپ لائبریری سے فلاں فلاں کتابیں فورا لے آئیں تاکہ میں اپنی زندگی کا آخری فتویٰ مکمل کرلوں۔ انتہائی نگہداشت وارڈ کے بستر پر اس طرح لیٹے ہوئے تھے کہ بازوں میں خون کی ڈرپس لگے ہوئے تھے اور موت و زندگی کی کشمکش کے عالم میں آپ نے اپنی زندگی کا آخری فتویٰ (مستحقین کو زکوٰۃ، قرآن کی نظر میں) لکھا۔
۱۹ جولائی ۱۹۹۹ء کو بروز پیر ۵۳ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ آپ کی تجہیز و تدفین آپ کے آبائی گائوں خواجہ آباد شریف ضلع میانوالی میں ہوئی۔
نماز جنازہ آپ کے اساد محترم استاد العلماء علامہ عبدالحق بندیالوی نے پڑھائی۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کے چھوٹے صاحبزادے مولانا محمد فاروق انور کاظمی آستانہ خواجہ آباد کے سجادہ نشین اور بڑے صاحبزادے مولانا سید محمد فرید الحسنین کاظمی ، قمر العلوم فریدیہ کے مہتمم مقرر ہوئے۔
(انوارِعلماءِ اہلسنت سندھ)