سید خاموش رحمتہ اللہ علیہ
سید خاموش رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
سادات کرام کے شرف برگزیدہ مخلوق کے خلاصہ خاص و عام کے مقبول سید السادات منبع البرکات شمس الملۃ والدین سیدخاموش ابن سید محمد کرمانی کاتب حروف کے چھوٹے چچا ہیں جو علم و فضل اور فیاضی و سخاوت و لطافت طبع اور خاص و عام کو کھانا دینے میں بے مثل اور یگانہ روز گار تھے۔ آپ نے سلطان المشائخ کی نظر مبارک میں پرورش پائی تھی۔ اور مجلس خلوت میں سلطان المشائخ کے سامنے نظامی کا خمسہ نہایت خوش الحانی اور درد کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ سلطان المشائخ کی نظر خاص کے ساتھ مخصوص اور بے اندازہ جمال اور بے حد لطافت رکھتے تھے۔ یہ ضعیف عرض کرتا ہے۔
در زات مبارک تو پید است |
|
ھر جاکہ لطافتے است ای جان |
(تیری ذات مبارک سے جہان کہیں کہ لطافت اور خوبی ہے پیدا ہے۔ تیرے اوصاف کا بیان کرنا میری قدرت سے باہر ہے تیرا کمال ہی تیرے اوصاف کی کافی دلیل ہے۔)
جو یار و عزیز کہ شہر سے سلطان المشائخ کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے شب کو بزرگ سید کے مکان میں رہتے تھے۔ چنانچہ قاضی محی الدین کاشانی جن کے سید خاموش شاگرد تھے اور مجمع البحرین اور ہدایہ ان سے پڑھی تھی اور مولانا حجت الدین ملتانی اور مولانا بدر الدین یار اور مولانا شرف الدین یار اور مولانا شمس الدین یحییٰ اور مولانا حسام الدین اور بہت سے اودھ کے باشندے اور شیخ نصیر الدین محمود اور مولانا علاؤ الدین سنبھلی اور دوسرے عزیز ہمیشہ آپ کے مکان میں فروکش ہوتے تھے آپ ان حضرات کے لیے ہر قسم کے عمدہ عمدہ کھانے تیار کرتے تھے اور ان عزیزوں کے لیے قوالوں کو نوکر رکھ کر چھوڑا تھا جو ہر وقت حاضر رہتے تھے آپ کے گھر کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا تھا اور دنیا دار یعنی سلاطین و امرا اور اہل کتب اور دیگر شغل دار آپ کی لطافت طبع اور پاکیزہ راہ و روش کی وجہ سے محبت کے قیدی ہوگئے تھے اور آپ کا ایک اشارہ پاتے ہی مسلمانوں کی مہمات و مقاصد کو انجام پر پہنچا دیتے تھے اور دو سو آدمیوں کے قریب جن میں درویش اور غریب الدیار اور دلق پوش ہوتے تھے آپ کے مکان میں کھانا کھاتے تھے اور خاص خاص دوست و احباب اس تعداد کے علاوہ ہوتے تھے۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ سید خاموش نے موضع دیوگیر میں پچھلی شب کو کاتب حروف کو ایک شخص کے ہاتھ بلا بھجا جب میں ان کی خدمت میں پہنچا دیکھتا ہوں کہ تسبیح ہاتھ میں لیے ہوئے قبلہ رخ مشغول بیٹھے ہیں تھوڑی دیر کے بعد میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا کہ کل شیخ کمال الدین کُئی نے مجلس میں مجھ سے معاوضہ کیا اور صرف حسد و فضول کی وجہ سے مجھے کہا کہ تم سید نہیں ہو۔ اب میں خود بھی مشغول اور اپنے تمام بھتیجوں کو بھی مشغول ہونے کا حکم کیا ہے تمہیں اس لیے بلایا ہے کہ ہمارے ساتھ تم بھی مشغول ہو اگر ہمارا نسب جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک درست اور صحیح ہے تو حق تعالیٰ اس حاسد کو ضرور مقہور فرمائے گا چنانچہ میں آپ کے قریب بیٹھ گیا۔ جب ہم سب لوگ صبح کی نماز پڑھ چکے تو ایک شخص نے آکر بیان کیا کہ شیخ کمال کئی گردن میں دستار ڈالے ہوئے دو تین اور آدمیوں کے ساتھ دروازے کے آگے کھڑا ہے۔ میں نے اسے اندر آنے کی اجازت دی اور وہ اسی طرح گردن میں دستار ڈالے ہوئے اندر آیا اور سید خاموش کے قدموں میں گر پڑا اور کہنے لگا کل جو میں نے آپ کی نسبت ایک بات کہی تھی حقیقت میں اس جلیل القدر اور محترم خاندان کے غلاموں کی شان کے لائق نہ تھی۔ میں اس سے پشیمان ہوں اور دل سے توبہ کر کے اپنی گستاخی کی معافی کے لیے حاضر خدمت ہوا ہوں بزرگ سید نے بڑے تامل کے بعد اس کا سر اپنے قدموں سے اٹھایا اور فرمایا اگر تو اس قدر جلد توبہ نہ کرتا اور میرے قدموں پر سر نہ رکھتا تو اپنی گستاخی کی سزا دین و دنیا میں دیکھ لیتا۔ انجام کار سید خاموش عالم شباب اور عین کامرانی کے زمانے میں مرض اسہال میں مبتلا ہوئے اور ایک شنبہ کی رات مہینے کی پچیسویں تاریخ ۷۳۲ ہجری میں انتقال فرما گئے اور دیو گیر میں خواجہ خضر کے مقام کے نیچے مدفون ہوئے۔ آپ کا روضہ متبرکہ ان شہروں کی مخلوق کا حاجت روا ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ