مولانا سید معشوق حسین ’’اطہر ‘‘
مولانا سید معشوق حسین ’’اطہر ‘‘ (تذکرہ / سوانح)
مولانا سید معشوق حسین بن سید امراوٗ علی ۱۰، شعبان المعظم ۱۲۹۰ھ بمطابق ۳، اکتوبر ۱۸۷۳ء کو بمقام پاپو ڑضلع میرٹھ ( یوپی ، بھارت) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے جدا مجد حضرت سید ثناء ؒ عابد شب زندہ دار اور زاہدو پرہیز گار بزرگ تھے۔ انہیں کی نسبت سے آپ کا خاندان ’’ثنائی ‘‘ مشہور ہے۔
آپ جب بارہ سال کی عمر کو پہنچے تو والد ماجد وفات پا گئے تو بڑے بھا ئی سید اشفاق حسین نے پدرانہ شعفقت کے ساتھ آپ کی تعلیم و تربیت اپنے ذمہ لے لی ۔
تعلیم و تربیت:
آپ نے ابتدائی تعلیم وطن ہی میں پائی ، ۱۸۸۷ء میں جب آپ قائم گنج ضلع فرخ آباد ( بھارت ) میں مولوی قمر الدین قمر ساکن سوروں ضلع ایٹہ ( یوپی ، بھارت ) کے پاس زیر تعلیم تھے تو شاعری کا شوق پیدا ہوا ۔ آپ نے اپنی شاعری کو اپنے عمیق مطالعہ اور کثرت مشق کی بدولت عروج کمال تک پہنچایا۔
اس کے بعد لاہور جا کر مولانا اصغر علی روحی ( مترجم : فضائل درود شریف للنبھانی ) سے عربی کی چند کتابیں پڑھیں پھر جے پور پہنچے اور وہاں مولانا امیر حسینی محدث دہلوی سے مشکواۃ شریف اور دیگر کتب متد اولہ کا درس لیا۔ عربی اور فارسی زبانوں میں اچھی استعداد کے مالک تھے۔ ابتداء میں معلمی کا پیشہ اختیار کیا اس کے بعد وکالت سے وابستہ رہے۔
( تذکرہ شعرائے میر ٹھ ص ۲۰۳ نور احمد میر ٹھی بحوالہ ’’اطہر ہاپوڑی : حیات دفن شاعری ‘‘ ڈاکٹر یٹ کا مقالہ ، مصنفہ شاہدہ افضال مطبوعہ سند یلہ ، بھارت ، ۱۹۹۴ء )
زمانہ قیام لاہور میں عشرت اصفہانی کا تلمذ اختیار کیا۔ عشرت اصفہانی بڑے فاضل اور حاضر طبع شاعر تھے۔ ایک سال تک استفادہ کیا۔ اردو میں کسی سے اصلاح نہیں لی ۔ ۱۸۹۱ء ۱۸۹۰ء میں مین پوری شہر میں رہنے کا اتفاق ہوا۔ وہاں حضرت محسن کاکور دی ، منشی طاہر علی طاہر فرخ آبادی اور منشی حیات بخش رساتلمیذ حضرت داغ دہلوی کے ہم صحبت رہے۔ ۱۸۹۵ء سے ۱۸۹۹ء تک علی گڑھ میں قیام رہا۔ ۱۸۹۹ء کو رام پور جانے کا اتفاق ہوا تو وہاں ملک الشعراء حضرت امیر مینائی کی خدمت میں شرف نیاز حاصل کیا۔ ۱۹۰۲ء کو دربار دہلی کے موقع پر فصیح الملک حضرت داغ دہلوی سے آغا دہلوی سے آغا شاعر دہلوی کی معیت میں ایک مرتبہ ملاقات کی اور اپنی غزل سنائی ، جس کا مطلع ہے:
شب فراق یہ عالم تھا میرے نالوں کا
کلیجہ ہاتھوں اچھلتا تھا سننے والوں کا
مرزا داغ دہلوی نے داد دی کہ بہت بے تکلف مطلع کہا، اسی زمین میں حضرت داغ کا مطلع یہ ہے:
گیا ہے عرش معلی پہ شور نالوں کا
خدا بھلا کرے آزاد رہنے والوں کا
ایک مرتبہ حضرت اطہر نے ایک نعت لکھ کر امام احمد رضا بریلوی کی خدمت میں بھیجی ۔ جس کا مطلع تھا:
کب ہیں درخت حضرت والا کے سامنے
مجنون کھڑے ہیں خیمہ لیلیٰ کے سامنے
امام احمد رضا نے قلم برداشتہ اصلاح فرمائی:
کب ہیں درخت حضرت والا کے سامنے
قدسی کھڑے ہیں عرش معلی کے سامنے
۱۹۰۲ء تا ۱۹۰۶ء تک رام پور میں وکالت کی، یہاں حضرت جلال لکھنوی اور منشی امیر اللہ تسلیم سے صحبت رہی ۔ ۱۹۰۷ء تا ۱۹۱۰ء تک گوالیار میں بحیثیت وکیل رہے اور مضطر خیر آبادی کے ہم سخن بنے ۔ اگست ۱۹۱۰ء کو جے پور آئے اور وکالت شروع کی، ۱۹۲۵ء میں منصف ہوئے اور ۱۹۳۰ء تک اس عہد پر فائز رہے یہاں سے سبکدوش ہو کر ریاست ٹونک چلے گئے اور داد سخن دیتے رہے ۔ ۱۹۴۷ء میں جے پور کی سکونت ترک کر کے پاکستان ( کراچی ) آگئے۔
تصنیف و تالیف :
آپ کی تخلیقات میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں :
۱۔ اردو کے تین دیوان ( چمنستان اطہر)
۲۔ مجموعہ قصائد اردو
۳۔ مجموعہ قصائد غزلیات فارسی
۴۔ رسالہ تحقیقات الفاظ
۵۔ قطعات تاریخ
۶۔ رسالہ اصلاھ عروض
۷۔ مکتوبات شعری
۸۔ رسالہ جدید عروض و قوافی
۹۔ اظہار اللغات
آخر الذکر تصنیف لغت کے متعلق ہے جس کے دو حصے ہیں ، ایک حصے میں فارسی الفاظ ہیں ، جن کو ہندوستانی فارسی نہیں سمجھتے اور تشبہ کرتے ہیں ، دوسرے حصے میں وہ الفاظ ہیں جن کو ہندوستانی فارسی سمجھتے ہیں اور حقیقت میں فارسی نہیں ہے۔ ہر لفظ کی سند ’’فرہنگ ناصری ‘‘ سے دی گئی ہے اور دوسرے حصے میں محاکمہ ہے جو ’’برہان قاطع ‘‘ اور مرزاغالب کی’’قاطع برہان ‘‘ کے متعلق ہے۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ مرزا غالب کی رائے برہان قاطع کی نسبت اکثر غلط ہے اور اس کی تائید فرہنگ ناصری سے نہیں ہوتی ، فرہنگ ناصری کا موٗلف ایرانی ہے اس کی رائے برہان قاطع اور قاطع برہان سے زیادہ مستند ہو سکتی ہے ۔
آپ کو نثر نگاری میں بھی کمال تھا ا س وقت کے رسائل میں آپ کے مضامین چھپتے رہتے تھے۔ رسالہ ’’ہمایوں ‘‘ لاہور بابت ۱۹۲۲ء میں آپ نے ان اعتراضات کا مدلل جواب دیا جو مولانا شبلی نعمانی ندوی نے ’شعر العجم ‘‘ میں صوفی بزرگ حضرت امیر خسرو پر کئے ہیں ۔
بیعت :
آپ مذہبا سنی حنفی اور مشربا نقشبندی مجددی تھے۔
اولاد:
آپ کے ہاں اولاد نرینہ نہیں تھی ، دو صاحبزادیاں تھیں ۔ بڑی صاحبزادی سید شفیق حسین ( ڈپٹی ڈائریکٹر پوسٹ اینڈ ٹیلی گراف کراچی ) کے عقد میں تھی ۔ اور چھوٹی صاحبزادی کی شادی سید اظہار الحسن ( جے پور ، بھارت ) سے ہوئی ، چھوٹی صاحبزادی سے آپ کو بہت محبت تھی، ان کا انتقال جے پور میں ہوا۔ اس وقت سے آپ اکثر افسردہ مغموم رہتے تھے۔
وصال:
حضرت اطہر ہاپوڑی نے ۲۵ ، فروری ۱۹۵۷ء کو کراچی میں انتقال کیا۔
[محترم خلیل احمد رانا س( جہانیاں منڈی ) کے مضمون بشمولہ ماہنامہ جہان رضا، لاہور ، جنوری ۲۰۰۱ء سے اور تذکرہ شعرائے میرٹھ سے ماخوذ ہے]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)