مولانا مفتی سید میران شاہ لکیاری
مولانا مفتی سید میران شاہ لکیاری (تذکرہ / سوانح)
حضرت مولانا حاجی میاں محمد میران شاہ لکیاری ، استاد الکل ، گیسوئے دراز، یوسف ثانی علامۃ الزمان حضرت مولانا سید محمد عا قل شاہ لکیاری ؒ کے نواسہ تھے۔ مولانا میران شاہ ، ہالانی (تحصیل کنڈیارو ضلع نوشہرو فیروز ) میں لکیاری سادات کے محلہ میں پیدا ہوئے۔
تعلیم و تربیت :
مولانا میران شاہ نے ابتدائی تعلیم ہالانی میں حاصل کی اس کے بعد شہداد کوٹ کی عظیم دینی درسگاہ میں داخلہ لیا ۔ جہاں استاد الاساتذہ رئیس العلماء حضرت علامہ نور محمد شہداد کوٹی ؒ کی خدمت میں رہ کر بارہ سال کی عمر میں درسی نصاب مکمل کر کے فارغ التحصیل ہوئے۔
اس کے بعد ہالانی سے رامپور ( انڈیا) پیدل گئے۔ ان دنوں رامپور ریاست میں دینی علوم کی مرکزی درسگاہ تھی جہاں بڑے بڑے علماء کرام درس دیا کرتے تھے ۔ مولانا میران شاہ نے ۱۸سال مسلسل رامپور میں قیام کیا، عقلی نقلی علوم میں مہارت تامہ حاصل کر کے، سند حدیث لے کر وطن واپس تشریف لائے۔ اس وقت آپ کی عمر تیس برس تھی ۔ ( ان دنوں رامپور میں مقبولیت و شہرت کے عالم دین مولانا مفتی ارشاد حسین فاروقی رامپوری نقشبندی ؒ صاحب ’’فتاویٰ ارشادیہ ‘‘ تھے۔ اس لئے میرا گمان ہے کہ میران شاہ نے مفتی ارشاد حسین کے پاس تعلیم حاصل کی ہوگی اور ۱۸سال کا عرصہ نہایت طویل عرصہ ہے جب کہ سندھ میں ۱۲سال کی عمر میں نصاب کی تکمیل کر لی تھی، ہو سکتا ہے دوران تعلیم یا اس کے بعد تدریس کے فرائض انجام دیئے ہوں اور یہ بھی ہو سکتا ہے وہاں تصوف کی کتابوں کا بھی درس لیا ہو۔ بہر حال اس حوالہ سے تحقیق کی ضرورت ہے۔ راشدی )
سفر حرمین شریفین :
میران شاہ کو فارسی زبان پر کافی عبور حاصل تھا کہ رامپور کے مدرسہ میں ’’ میران شاہ ایرانی ‘‘ کے نام سے مشہور تھے۔ ہالانی پہنچے تو حج کا مہینہ تھا ، حجاج کرام حرمین شریفین کی تیاریوں میں مصروف تھے، لہذا آپ بھی ہالانی سے حرمین شریفین تشریف لے گئے۔ آپ کا نصیب وہ حج ، حج اکبر ہوا۔ بلد الامین و دیار حبیب ﷺ کی حاضری و زیارت کی تمام سعادتوں سے بہر یاب ہو کر وطن واپس آئے۔
مفتی اعظم :
والی ریاست خیر پور میرسس میر علی مرادد خان ٹالپر نے ۱۲، محرم الحرام ۱۲۹۹ھ کو مولانا میران شاہ کو ریاست کا ’’مفتی اعظم ‘‘ مقرر کیا۔ آپ نے خداداد ذہانت اور فقہی بصیرت سے مسائل حل کئے ۔ اہل سنت و جماعت کی نشر و اشاعت کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہے۔
پادری کا مسلمان :
انگریز گورنمنٹ کے عہد میں حضرت مولانا سید میران شاہ سے عیسائیوں کے تین پادریوں نے مناظرہ کیا۔ اور شرط یہ رکھی کہ جو ہار جائے گا وہ جیتنے والے کا دین قبول کرے گا۔ رب کریم کے فضل و کرم سے حق واضح ہوا، شاہ صاحب فاتح مناظرہ قرار پائے تو تینوں پادریوں نے اپنے وعدے کے مطابق کلمہ شریف پڑھ کر دین اسلام قبول کر لیا۔ سبحان اللہ !
(شکست کھانے کے بعد پادریوں نے دیوبند یوں اہل حدیثوں وہابیوں کی طرح ضد اور ہٹ دھرمی اختیار نہیں کی بلکہ حق واضح ہونے کے بعد فورا ایمان لے آئے)
نئے مسلمانوں کے ’’اعلا ن اسلام ‘‘ کی رسم کا اہتمام حضرت علامہ مخدوم محمد داوٗد آگرو ؒ کی مسجد شریف واقع ہالانی مین کیا گیا تھا۔
ہمایون شریف :
مولانا میران شاہ نے ایک روز بیٹھے بیٹھے ہمایون شریف جانے کا پروگرام بنا لیا اسٹیشن سے ٹرین میں بیٹھ کر ہمایون شریف اسٹیشن پر اتر کر مفتی اعظم سندھ و بلوچستان ، فقیہ لاثانی ، شیخ الحدیث و تفسیر ، استاد الاساتذہ عاشق خیر الوریٰ ، امام اہل محبت حضرت علامہ مفتی عبدالغفور ہمایونی قدس سرہ کے آستانہ عالیہ کا رخ کیا۔ وہاں پہنچ کر دیکھا کہ علامہ ہمایونی دروازے پر اس طرح کھڑے ہیں جیسے کسی کا انتظار ہو۔ آپ سے خدام نے پو چھا تو علامہ صاحب نے فرمایا: ’’ہمارے استاد تشریف لا رہے ہیں ‘ ‘ یہ حضرت ہمایونی کے کشف کی ایک ہلکی سی جھلک ہے۔ حضرت کی زیارت سے سکون ملا ۔ میران شاہ ایک تو علامہ ہمایونی کے دادا استاد محترم کے نواسہ دوسرا یہ کہ سید تھے پھر کیوں کر نہ انتظار ہو اس لئے فرمایا کہ میرے استاد تشریف لا رہے ہیں ورنہ حقیقی استاد نہ تھے یہ ہے نسبت کا احترام ۔ علامہ ہمایونی نے احترام و محبت کی عظیم مثالیں قائم فرمائیں ۔
حضرت ہمایونی ؒ ، حضور انور ﷺ کے نامور عشاق میں سے تھے۔ آپ کا سیدھا ہاتھ مبارک ہمیشہ کپڑے میں ملبوس رہتا تھا اور کسی سے بھی بغیر کسی کپڑے کے مصافحہ نہیں فرماتے تھے۔ آپ کے دست اقدس کے ملبوس ہونے کی وجہ بتائی جاتی ہے کہ حضرت ہمایونی حضور پر نور ﷺ سے بیداری میں مصافحہ کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ اس لئے ہاتھ مبارک سے خوشبو مہکتی تھی میران شاہ نے بتایا کہ ان سے علامہ ہمایونی نے بغیر کپڑے کے مصافحہ کیا۔ سبحان اللہ !
اولاد :
مولانا میران شاہ کو تین بیٹے تولد ہوئے۔
۱۔ حاجی سید حسن علی شاہ لکیاری سابق ڈائر یکٹر ایجوکیشن ، مصنف : ’’سالکین جو تحفو ‘‘
۲۔ غازی سید غلام محمد شاہ سابق سب انسپکٹر پولیس
۳۔ سید مدد علی شاہ سابق کلیکٹر ، مضمون نگار : ’’ہالانی سندھ کا ایک قدیم تاریخی شہر ‘‘(نئی زندگی)
وصال :
حضرت مولانا میران شاہ لکیاری نے ۸۱ سال کی عمر میں ۲۷ ، مئی ۱۹۲۵ء ؍ ۱۳۴۳ھ کو انتقال کیا۔ مولانا غلام دستگیر شاہ لکیاری بھی اسی خاندان کے نامور عالم و خطیب گذرے ہیں ۔
( ماہنامہ نئی زندگی کراچی مارچ ۱۹۵۷ء مضمون نگار مدد علی شاہ )
مفتی قاری محبوب رضا خان رضوی
حضرت مولانا مفتی قاری محبوب رضا خان ۱۶ نومبر ۱۹۱۶ء کو بریلی شریف (انڈیا) میں پیدا ہوئے۔
تعلیم و تربیت:
ابتدائی تعلیم بریلی شریف میں حاصل کی اور جب ۱۳ برس کی عمر کو پہنچے تو قرآن مجید حفظ کرلیا۔ اس کے بعد مختلف اساتذہ کے پاس دینی و دنیوی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھا۔ دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف میں حضرت صدر الشریعہ علامہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمۃ (مصنف بہار شریعت) اور دیگر اساتذہ سے علم حاصل کرکے فارغ التحصیل ہوئے۔ اس کے بعد ۱۹۳۹ء میں علی گڑھ یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور ۱۹۴۴ء میں اعلیٰ نمبروں میں ڈگری حاصل کی۔
پاکستان کا قیام:
قاری محبوب رضا خان نے عملی زندگی میں قدم رکھا، کچھ کرنا چاہا تو وہ دور قیام پاکستان کی تحریک کے جوش و خروش کا دور تھا۔ آپ نے بھی قیام سلطنت السلامیہ کیلئے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور اس جد و جہد میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ قیام پاکستان کے بعد قاری صٓحب ۱۸، مئی ۱۹۴۸ء کو پاکستان کے شہر لاہور تشریف لائے۔ ذریعہ معاش کیلئے ایک دواخانہ قائم کیا۔ لاہور کے بعد عارف والہ تشریف لے گئے وہاں بھی ایک مطب کھولا۔ تقریباً دس برس تک انسانیت کی خدمت سر انجام دیتے رہے اس کے بعد کراچی تشریف لائے یہاں ۱۹۵۹ء میں مدرسہ حنفیہ رضویہ قائم کیا۔
سفر حرمین شریفین:
۱۹۶۵ء میں آپ نے پہلا حج کیا اور مدینہ منورہ کا سفر کیا، سرکار مدینہ ﷺ کے دربار مقدس میں حاضری دی اور درود و سلام کے گجرے پیش کئے۔ قیام مدینہ منورہ کے قیام کے دوران قطب مدینہ ضیاء الدین مدنی قادری علیہ الرحمۃ کی صحبت سے مستفیض ہوئے۔
بیعت و خلافت:
۱۹۶۸ء میں سلسلہ قادریہ رضویہ میں حضرت مفی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خان بریلوی قدس سرہ کے دست بیعت ہوئے اور خلافت سے نوازے گئے۔
درس و تدریس:
آپ کراچی میں اہل سنت و جماعت کی نامور دینی درسگاہ دارالعلوم امجدیہ میں مدرس مقرر ہوئے۔ درس و تدریس کے ساتھ دار الافتاء میں تقریباً ۸(آٹھ) برس خدمات سر انجام دیں۔ اسی دروان آپ نے نماز میں لائوڈ اسپیکر کے عدم جواز پر فتویٰ جاری فرمایا جس پر تقریباً ۳۸ علماء اہل سنت نے تصدیق تو توثیق فرمائی۔
خطابت:
مولانا قاری محبوب علی خان نے میمن مسجد کھوڑ ی گارڈن (مصلح الدین گارڈن) میں ۱۹۶۰ء سے تقریباً دس برس تک امامت/ خطابت اور درس و تدریس کی خدمات سر انجام دیں۔ اس کے علاوہ تبلیغ دین تر ویج اہلسنت کیلئے ملائیشیا، سری لنکا اور کئی افریقی ممالک بھی تشریف لے گئے اور آپ کے ہاتھ پر متعدد غیر مسلم افراد نے اسلام قبول کیا۔
تصنیف و تالیف:
آپ نے فتاویٰ کے علاوہ متعدد رسائل تحریر فرمائے۔
٭ بہار شریعت۔ کے بقیہ ۳ حصوں کی تکمیل میں دیگر علماء کے ساتھ کام کیا۔
٭ فتنہ طاہری کی حقیقت مطبوعہ ۱۴۰۸ کراچی جمعیت اشاعت اہلسنت /ضیاء الدین مدنی پبلشرز کھاراد ر کراچی۔
شاعری:
وہ شاعری کا پاکیزہ ذوق بھی رکھتے تھے نمونہ کے طور پر منقبت کے چند اشعار حاضر خدمت ہیں۔ یہ منقبت محدث اعظم حضرت علامہ سردار احمد فیصل آبادی علیہ الرحمۃ کی شان میں کہی ہے۔
حضرت سردار احمد رہنمائے سالکان
عالماں راناوک انداز ادب شد بے گماں
مہر اوج چرخ علم و ماہ برج عقل و حلیم!
شاہ اقلیم فنون و واعظ شیریں بیاں
اے کہ تجھ پر آشکار ہے حقیقت اور مجاز
اے کہ راہ زندگی میں تو ہے خضر سالکاں
بلبل باغ مدینہ آفریں صد آفریں
یاد آئیں گی ہمیشہ تیری نغمہ سنجیاں
نور کے پھولوں کی بارش حشر ہو قبر پر
اور کرکے نیسانِ خود اب گُہر افشانیاں
وصال:
مولانا قاری مفتی محبوب رضا خان دل کی تکلیف میں ادارہ امراض قلب میں داخل کئے گئے جہاں زیر علاج رہنے کے دوران ہی انہوں نے ۹ دسمبر ۱۹۹۱ء جمادی الآخر ۱۴۱۲ھ بروز پیر صبح سات بجے اس دنیائ۸ے فانی سے کوچ فرمایا۔ نماز جنازہ کی امامت مولانا مفتی عبدالعزیز حنفی صاحب نے فرمائی۔ آپ کے خلیفہ حاجی عبدالغفار برکاتی میمن (برکاتی فائونڈیشن والے) نے کراچی کے تاریخی و قدیم قبرستان میوہ شاہ (لیاری) میں اپنے خاندان کی جانب سے زمین پیش کی اسی زمین میں آپ کی میت کو دفن کیا گیا، مزار شریف پر عالیشان گنبد بنایا گیا ہے۔ آپ کے گنبد کا عکس بریلی شریف سے اعلیٰ حضرت امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ کے گنبد شریف سے لیا گیا ہے جو کہ قابل دید و جاذب نظر ہے پہلا سالانہ عرس آپ کے مرزار پر انوار پر ہوا اور اب ہر سال عرس شریف آپ کے گھر پر (واقع گلشن رضا نزد محمدی مسجد گلبرگ بلاک ۱۲ کراچی) نہایت عقیدت سے منایا جاتا ہے۔
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)