سیّد محمد امین المشہوریہ بابا امیر ریشی اویسی قدس سرہٗ
سیّد محمد امین المشہوریہ بابا امیر ریشی اویسی قدس سرہٗ (تذکرہ / سوانح)
آپ سید حَسن تقی کشمیری کے فرزند ارجمند تھے۔ آپ نے بابا جلال کشمیری سے فیض پایا تھا۔ آپ ظاہری علوم اور تربیت سے فارغ ہوئے اور جوانی میں قدم رکھا۔ کہ والی کشمیر سلطان زین العابدین نے اپنی بیٹی کی شادی آپ نے کرنا چاہی۔ مگر آپ تارک الدنیا ہوکر وہاں سے چلے گئے اور پہاڑ کی ایک غار میں گوشہ نشین ہوکر یاد خدا وندی میں مشغول ہوگئے اور اس طرح آپ ظاہری اور باطنی کمالات پر پہنچے۔
جس وقت سلطان زین العابدین نے جھیل وُلر کے درمیان بمقام لنک پر ایک بلند عمارت تعمیر کی تو کشمیر کے عوام و خواص کو ایک بڑی دعوت پر بلایا۔ اس مجلس میں حضرت میربھی مدعو کئے گئے۔ مگر وہاں بعض حضرات کی نامشروع حرکات دیکھ کر بڑے کبیدہ خاطر ہوئے غصّے کے عالم میں دریا میں چھلانگ لگادی بادشاہ نے ملاحوں اور غوطہ خوروں کو حکم دیا کہ آپ کو نکالا جائے مگر تمام کوششیں رائیگاں گئیں۔ انہوں نے جس قدر تلاش کی آپ نہ مل سکے اس صورتِ حال سے بادشاہ کی طبیعت بڑی بے چین ہوئی۔ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر شہر کی طرف روانہ ہوا۔ لوگوں کے ساتھ جب باغ پشتو رہا کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ آپ نہر کے کنارے کپڑے سینے میں مشغول ہیں سلطان اترا۔ اور دوڑ کر قدم بوسی کی نہایت عجزو انکسار سے آپ کو وہاں سے اٹھایا۔ اور کشتی پر سوار کراکے محلہ ملحمبر پہنچے کشتی سے اتر کر محلہ رنجو شاہ میں قیام فرما ہوئے سلطان زین العابدین نے آپ کے لیے ایک وسیع اور عالی شاہ خانقاہ تیار کی۔
تواریخ اعظمی میں آپ کی شہادت کا واقعہ یوں درج ہے کہ سادات رو بہقی کو کشمیر پر اختیارات ملے تو درباری امرا نے فیصلہ کیا کہ اس خاندان کو قتل کردیا جائے جس نے اتنے سال حکومت کی ہے چنانچہ یہ لوگ بادشاہ کے محل پر حلمہ آور ہوئے سید حسین وزیر مملکت کو اُس کے چودہ افراد خاندان کے ساتھ قتل کردیا۔ بعض فسادی محمد امین کے حجرے میں گھس آئے حالانکہ وہ سادات بہقی میں سے تھے۔ مگر انہیں شہید کردیا۔ شہادت کے وقت آپ کی زبان پر مندرجہ ذیل اشعار تھے۔
منم آں رِند جہانگیر و مسیحا نفسے |
|
کہ من این ہر دوجہاں راشمارم نجسے |
|
آپ نے فرمایا تھا۔ کہ ہمارے غسل کے لیے غیب سے ایک تختہ نمودار ہوگا ہمیں اسی پر غسل دیا جائے اور سپرد خاک کریں۔ لوگوں نے دیکھا کہ صندل کا ایک تختہ دریا میں تیرتا ہوا۔ آیا اور حضور کی خانقاہ کے سامنے رک گیا۔ لوگوں نے اٹھایا آپ کو غسل دیا گیا اور خانقاہ میں دفن کردیا گیا۔
آپ کی شہادت کا واقعہ ماہ ذیقعدہ ۸۸۹ھ میں ہوا۔ جب کہ سلطان زین العابدین[۱]کو فوت ہوئے گیارہ سال گزر چکے تھے۔
[۱۔سلطان زین العابدین ۸۷۷ھ میں فوت ہوئے تھے۔ تواریخ اعظمیٰ نے آپ کی تاریخ وفات شہید کشمیر ۸۸۹ھ سے لی ہے۔]
آپ کی وفات کے بعد کا ایک واقعہ کتابوں میں درج ہے کہ آپ کے ایک عقیدت مند جس کا نام ملّا دولت نے بادشاہ کے وزیر سے ایک گاؤں ٹھیکے پر لے لیا۔ ژالہ باری کی وجہ سے ساری فصل برباد ہوگئی وزیر نے اس آسمانی آفت اور نقصان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اسے مجبور کر دیا کہ وہ ٹھیکے کی رقم ادا کرے۔ اور اس طرح اُس کے گھر کا تمام سازو سامان ضبط کرلیا اور وہ نانِ شبینہ کا بھی محتاج ہوکر رہ گیا۔ ایک رات آپ کے مزار پر حاضر ہوا۔ اور روتے روتے سوگیا خواب میں دیکھا کہ میر مخدوم حمزہ و شیخ بہاءالدین رحمۃ اللہ علیہما ایک جگہ تشریف فرما ہیں۔ اور فرما رہے ہیں کہ یہ ظالم وزیر حضرت شاہ نورالدین کے خاندان کا مرید ہے چنانچہ ہمیں شاہ نورالدین کے پاس سفارش کرنی چاہیئے۔ یہ بزرگ وہاں پہنچے سفارش کی۔ آپ نے فرمایا میں آج رات اسے تنبیہ کردوں گا۔ دوسری صبح اسی وزیر نے ملّا دولت کو طلب فرمایا۔ اور اس کا اثاث البیت واپس کردیا۔ اور راضی نامہ حاصل کرلیا۔
بفضل خدا وند مولی تعالیٰ |
|
چوشدوصل باوصل جاناں امین |
(خزینۃ الاصفیاء)