مولانا سید محمد چھٹل شاہ لکیاری
مولانا سید محمد چھٹل شاہ لکیاری (تذکرہ / سوانح)
حضرت سید محمد چھٹل شاہ بن سید تاج محمد شاہ گوٹھ بدڑ ( تحصیل سیوہن شریف ضلع دادو ) میں ماہ ربیع الاول شریف ۱۵، جون ۱۹۲۷ء کو تولد ہوئے۔
تعلیم و تربیت :
ابتدائی تعلیم گوٹھ کی مسجد کے مکتب سے حاصل کی ۔ اس کے بعد ۱۲بارہ سال کی عمر میں والد ماجد نے مدرسہ عین العلوم امینانی شریف میں داخلہ دلادیا۔ جہاں مولانا سید امیر محمد شاہ حسینی سے درس نظامی کا نصاب مکمل کر کے ایک اندازے کے مطابق ۱۹۴۵ء میں فارغ التحصیل ہوئے۔
استاد العلماء مولانا محمد اکتڑائی ( اکتڑ متصل بوبک ) سے بھی اکتساب فیض کیا تھا اور فتاویٰ نویسی کا کام فقیہ اعظم حضرت علامہ مفتی محمد قاسم مشوری نور اللہ مرقدہ اور مفتی میاں احمد ( گوٹھ مڈھ ضلع دادو) سے سیکھا تھا۔
بیعت :
فقیہ اعظم ، تاج العارفین ، بحر العلوم والفیوض ، امام المیراث ، عاشق خیر الانام حضرت علامہ الحاج مفتی محمد قاسم مشوری نور اللہ مرقدہ کے دست اقدس پر سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ میں بیعت ہوئے۔
درس و تدریس :
بعد فراغت ضلع دادو کے مختلف مدارس میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیئے۔ دوڑ شہر میں درس دیا ، مستوئی گوٹھ میں دس سال ، دادو شہر میں دو سال درس دیا۔ اس کے بعد خیر پور نا تھن شاہ ( ضلع دادو) میں ایک بیوہ خاتون نے پلاٹ مدرسہ کے نام وقف کیا، آپ نے اپنے دوست خاص و پیر بھائی علامہ مفتی غلام محمد لغاری کی رفاقت سے ۱۹۵۶ء کو اس پلاٹ پر ’’مدرسہ خیرالعلوم ‘‘ کی بنیاد رکھی ۔ اس مدرسہ میں ۱۹۵۶ء تا ۱۹۹۶ء تک مسلسل چالیس سال بحیثیت مدرس و منتظم کے فرائض باحسن و خوبی سر انجام دیئے۔
کتب بنیی کا بھی انتہائی شوق تھا، شوق کی تکمیل کے لئے کتابوں کا عظیم ذخیرہ جمع کیا تھا جس میں تقریبا ۳۰۰۰ تین ہزار کتب موجود ہیں اور یہ کتب خانہ مدرسہ کی زینت بنا ہوا ہے۔
دورہ تفسیر القرآن :
شاہ صاحب کو دین کا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ، عدم و سائل کے باوجود مدرسہ خیر العلوم میں تقریبا ۱۹۸۴ء میں دورہ تفسیر القرآن کا انعقاد کیا۔ تدریس کے فرائض کیلئے مصنف کتب کثیرہ شیخ القرآن علامہ مفتی محمد فیض احمد اویسی مدظلہ العالی ( بہاولپور ) کی خدمات حاصل کی اور تشہیر کے لئے شاندار قسم کے بڑی سائز کے اشتہار چھپواکر سندھ بھر میں تقسیم کئے گئے۔ ایک ماہ کے اس دورے میں تقریبا نو ے ( ۹۰) علماء و طلباء نے شرکت کی۔ جن کی رہائش خورد و نوش کا انتظام مدرسہ کے ذمہ تھا۔ اختتام پر ایک عظیم الشان جلسہ حضرت فقیہ اعظم ، امام اہل سنت ، استاد الاساتذہ ، علامہ مشوری سر کار قدس سرہ کی صدارت مین منعقد ہوا۔ دادو اور لاڑکانہ اضلاع کے اکثر علماء و مشائخ اور لاتعداد عوام اہل سنت نے شرکت کی تھی۔ آخر میں حضرت سر کار مشوری قدس سرہ نے تاریخی و عظیم روحانی خطاب فرمایا تھا۔ اور طلباء کی دستار فضیلت بھی ہوئی اور اسناد بھی تقسیم ہوئی۔ فقیر راشدی کو یاد ہے کہ اس کام میں حضرت چھٹل شاہ کے ساتھ مفتی غلام محمد لغاری اور مولانا سید تاج محمد شاہ نے بھر پور ساتھ دیا۔
تصنیف و تالیف :
حضرت شاہ صاحب لاڑکانہ تشریف لاتے تو کبھی کبھار فقیر راقم الحروف کو بھی ملاقات کا شرف حاصل ہوتا۔ تو فقیر انہیں تصنیف کی جانب توجہ مبذول کراتا آخر ایک بار خوش سنائی کہ انہوں نے تین چار رسائل اختلافی مسائل پر تحریر کئے ہیں جس میں مدلل گفتگو کی گئی ہے ۔ فقیر نے جدید طریقہ اشاعت یعنی کمپوزنگ و آفسٹ اشاعت کے متعلق مشورے پیش کئے تو فرمایا: ’’ اکثر طبیعت ناساز رہتی ہے اسلئے کچھ وقت نکال کر فیئر کاپی بنا کر پھر آپ کے مشورے پر عمل کیا جائے گا‘‘ ۔ بعد میں علالت کے سبب غالبا شاہ صاحب کو فیئر کاپی بنانے کا وقت نہ مل سکا اور شاہ صاحب کا انتقال ہوا اور ان رسائل پر ابھی تک کچھ کام نہ ہو سکا ۔ یہ رسائل آپ کی آخری عمر کی یاد گار تحریر یں ہیں ۔
سفر حرمین شریفین :
آپ نے ۴ حج ، اور ۶ عمر ے کئے ۔ اس طرح دس بار خانہ کعبہ اور دربار رسول ﷺ کی حاضری کی سعادت حاصل کی۔
شادی و اولاد :
آپ نے دو شادیاں کی ، جس میں سے تین بیٹیاں اور تین بیٹے تولد ہوئے۔ ( ۱) مولوی سید احمد شاہ (۲) مولوی سید محمد شاہ (۳) سید محمود شاہ لکیاری
تلامذہ :
آپ کے بعض تلامذہ کے نام درج ذیل ہیں :
۱۔ مولانا محمد قاسم ببر دادو، حال مدینہ منورہ
۲۔ مولانامحمد مستوئی دادو
۳۔ مولاناغلام مصطفی ڈیپر تحصیل ٹنڈو محمد خان
۴۔ مولانا محمد یوسف لغاری خیر پور ناتھن شاہ
وصال :
سید محمد چھٹل شاہ طبیعت کی ناسازی کے سبب علیل رہنے لگے ، اس کے باوجود صوم صلوٰۃ اور ذکر شریف کی کثرت کی پابندی آخردم تک جاری رکھی ۔ ۱۱، ذوالحجہ ۱۴۱۶ھ؍ ۳۰مئی ۱۹۹۶ء بروز منگل ۶۸ سال کی عمر میں انتقال کیا۔
[حافظ عبدالستار ابڑو (لاڑکانہ ) نے خیر پور جاکر مرحوم کے بیٹوں سے معلومات حاصل کر کے فقیر کو ارسال کی، فقیر نہایت مشکور ہے]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)