علامہ سید محمد فاضل شاہ کاظمی
علامہ سید محمد فاضل شاہ کاظمی (تذکرہ / سوانح)
مفسر قرآن حضرت مولانا سید محمد فاضل شاہ ’’فاضل‘‘ بن مولانا سید غلام حیدر شاہ کاظمی ۱۲۵۲ھ/ ۱۸۳۱ء میں حیدرآباد سندھ میں تولد ہوئے۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت سیدنا امام موسیٰ کاظم رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے۔ آپ کے ددھیال میں ایک بزرگ سید علی حیدر استر آبادی کے نام سے ایران میں ہو گزرے ہیں جو کہ فارسی کے نامور اور صاحب دیوان شاعر تھے۔ آپ کا خاندان مرزا عیسی تر خان کی حخومت میں ٹھٹھہ آیا۔ اس کے بعد نصر پور اور آخر میں حیدرآباد کے محلہ قاضی سادات میں سکونت اختیار کی۔ آپ کے خاندان میں کئی علماء شعرا اور درویش ہو گزرے ہیں۔
تعلیم و تربیت:
مولانا سید محمد فاضل شاہ نے قرآن مجید کی تعلیم مشہور درویش آخوند حافظ محمد صابر انصاری ہالائی سے حاصل کی۔ (شاہ صاحب کے جد کریم حضرت سید محمد اسماعیل شاہ نے مسجد شریف کے حجرہ میں مکتب قائم کیا تھا جہاں آخوند صاحب تعلیم دیتے تھے) آپ کے دادا جان حضرت سید محمد اسماعیل شاہ درویشی کے حوالہ سے حیدرآباد شہر میں شہرت رکھتے تھے۔ ختم قرآن کے بعد فارسی و عربی کی تعلیم کیلئے حضرت علامہ مولانا عبداللہ ولہاری کی خدمت میں حاضرت ہوئے۔ مولانا ولہاری کنبھر و شریف (دھوروناوضلع عمر کوٹ) کے کامل بزرگ درویش صابر علیہ الرحمۃ کی اولاد میں سے تھے۔ جن کی بزرگی اور ان کی اولاد کے روحانی فیض کا ذکر تاریخ سندھ ’’تحفۃ الکرام فارسی جد ۳ ص:۱۶۶ پر درج ہے۔
علامہ ولہاری حضرت خواجہ عبدالرحمن سرہندی مجددی علیہ الرحمۃ کے مرید خاص تھے اور آپ کا عظیم الشان مدرسہ حیدرآباد شہر میں بھائی خان کی چاڑھی پر ہوا کرتا تھا ، جہاں دور دراز علاقہ کے طلاء اکتساب فیض کیلئے اس مدرسہ میں داخلہ لیا کرتے تھے۔
مولانا فاضل شاہ ’’سراجی‘‘ کتاب پڑھ رہے تھے کہ علامہ ولہاری کی طبیعت ناساز ہوگئی جس کے سبب اپنے وطن چلے گئے حیدرآباد کی خوش قسمتی کہئے کہ استاد العلماء حضرت علامہ محمد حسن ضلع دادو سے حیدرآباد تشریف لائے اور محلہ فقیر جو پڑ جامع مسجد مائی خیری میں مدرسہ قائم کیا۔ مولانا محمد حسن کو علمائے سندھ نے ’’علم منطق‘‘ میں استاد کا خطاب دیا تھا۔ وہ منطق کے بہت بڑے ماہر و قابل استاد تھے۔ مولانا فاضل شاہ نے بقیہ کتب مولانا محمد حسن سے پڑھ کر کمال کو پہنچے۔ مولانا محمد حسن کے ہونہار شاگردوں میں علامہ قاضی سید اسد اللہ شاہ فداؔ (ٹکھڑ) اور مولانا میاں پیر محمد صٓحب (ٹنڈو قیصر) شہر آفاق عالم دین ہو گزرے ہیں۔
بیعت:
شاہ صٓحب اور آپ کے والد حضرت سید غلام حیدر شاہ دونوں سلسلہ نقشبندیہ میں شیخ طریقت حضرت خواجہ عبدالرحمن سرہندی فاروقی علیہ الرھمہ سے بیعت ھتے۔ فاضؒ شاہ متشرع صوفی اور روشن ضمیر فقیر تھے،ل آپ نے دیگر مشائخ طریقت مثلاً: حضرت پیر سید حزب اللہ شاہ راشدی المعروف پیر صاحب تخت وہنی پاگارہ اور حضرت مخدوم امین محمد صدیقی سہروردی (ہالا) کی صحبت سے روحانی بالیدگی حاصل کی۔
علمی مقام:
سامی دیانند ہندوئوں کے پہلے جائے نشین پنڈت لیکہرام آریہ مسافرؔ جب حیدر آباد دعوت پر آئے۔ ایک روز حیدر آباد کے ہندئوں مثلا : دیوان نولرائے، دیوان میٹا رام وغیرہ نے دیوان نولرائے کے بنگلہ پر حیدرآباد کے علماء اسلام کو دعوت دے کر بلوایا کہ پنڈت کے سوالات کے جوابات دیں۔ اس دعوت پر حیدرآباد و مضافات کے تقریباً بیس (۲۰) علماء اسلام تشریف لائے۔ تمام علماء نے حضرت فاضل شاہ کو اپنا امیر مقرر کیا۔ پنڈت لیکہرام نے پانچ سوالات کئے حضت علامہ سید فاضل شاہ نے ہر سوال کا فوری طور پر مدلل و مفصل جواب دے کر پنڈت کو ساکت اور لاجواب کر دیا۔ تمام علماء اسلام نے مرحبا و ماشاء اللہ کہا۔
بحیثیت مفتی:
برٹش گورنمنٹ کے عہد میں مسلمانوں کی کوششوں سے گورنمنٹ نے حیدرآباد کے شہر کیلئے مخدوم قاضی احمد مٹیاروی کو قاضی مقرر کیا لیکن انہوں نے تھوڑی مدت کے بعد استعفیٰ دے دیا۔ اس کے بعد قاضی سید محمد یوسف شاہ مقرر ہوئے جو کہ فاضل شاہ کے چچا تھے۔ قاضی حافظ محمد یوسف نے اگست ۱۸۹۲ء میں انتقال کیا۔ ان کے بعد انے کے صاحبزادے قاضی سید محمد ابراہم شاہ قاجی اور فاضل شاہ مفتی مقرر ہوئے اس سے قبل بھی قاضی ہوتے ہوئے سید فاضل شاہ فتویٰ جاری فرماتے تھے۔ آپ فتاویٰ نویسی میں مہارت تامہ رکھتے تھے، مسلمان آپ کے فتویٰ کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے تھے۔
مستجاب الدعوات:
ایک روز حیدرآباد میں سخت قحط پڑا ایک تو سخت گرمی اور دوسرا یہ کہ پانی کے کوئی آثار نہیں تھے اس صورتحال نے غریب مسلمانوں کو بہت پریشان کیا۔ اس صورتحال میں حضرت علامہ سید فاضؒ شاہ نے عوام الناس کو جمع کیا صبح گیارہ بجے قرآن شریف اٹھایا اور لشکر ساتھ لے کر حضرت شاہ اولیاء کی مزار شریف پہنچے فاتحہ خوانی کے بعد عوام الناس کو میدان میں جمع کیا اور پردرد فکر انگیز تقریر کے ذریعہ مسلمانوں کو اپنے گناہ یاد دلائے اور انہیں توبہ تائب ہونے کی ترغیب دی۔ آپ کی رقت انگیز تقریر سن کر سامعین خوف خدا میں رونے لگے، چیخ و پکار بلند ہونے لگی۔ اس عالم میں نماز پڑھائی اس کے بعد ننگے سر ہو کر روتے ہوئے دعا میں مشغول ہی تھے کہ زور دار بارش ہونے لگی ۔ حتیٰ کہ بارش کا پانی میدان گلی و کوچہ میں جمع ہوگیا مجمع اللہ اکبر کے نعرے لگا کر اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔ ہندو آپ کی یہ کرامت دیکھ کر بہت متاثر ہوئے۔
عادات و خصائل:
علامہ سید فاضل شاہ عالم باعمل ، شب خیز عابد ، روکھی سوکھی کھانے والے زاہد، مفتی نکتہ دان مصنف محقق، صوفی، شاعر، سخی متوکل تھے۔ خود نقشبندی تھے خفی ذکر کرتے تھے لیکن طبیعت میں شدت پسندی نہیں تھی اسلئے ایک رسالہ تحریر کیا جس میں ذکر خفی و جلی دونوں کو جائز لکھا اور دونوں کا مقصد، منزل مقصود تک پہنچانے کا سبب بتایا، جس کا دل جو ذکر چاہے وہی ذکر کرے۔ سبحان اللہ!
جیسے جیسے عمر گزرہی تھی آپ کی عبادت و توکل میں بھی ترقی ہورہی تھی۔ ایک بار مسجد شریف میں ایک سال معتکف رہے۔ دن رات عبادت، ریاضت، نوافل، تلاوت کلام پاک، ورد درود شریف اورادو وظائف ذکر فکر مطالعہ و تحریری کام میں مشغول رہے ۔ سادہ لباس و سادہ خوراک پسند فرماتے تھے۔ اس ایک سال کے مجاہد کے بعد ن کا اکثر حصہ مسجد شریف میں گزارتے اور رمضان المبارک کا پورا مہینہ مسجد شریف میں معتکف رہتے تھے۔ تحریری کام مسجد شریف میں کرتے، امامت و خطابت بھی فرماتے تھے اور روزانہ بعد نماز عصر تا مغرب درس دیا کرتے ۔ جمع کے دن آپ کا خصوصی خطاب ہوا کرتا تھا جس میں بیشمار نفوس علمی و روحانی بیان سننے کیلئے شہر و مضافات سے آتے تھے۔ اس کے ساتھ درس و تدریس کا عمل بھی جاری تھا۔ ماسٹڑ محمد صدیق مسافرؔمرحوم (مؤرخ سندھ) بھی شاہ صٓحب کے آخری دور کے شاگر دتھے۔
شادی و اولاد:
بعد فراغت تعلیم آپ کی اپنے خاندان میں شادی ہوئی۔ بیوی کے بطن سے دو بیٹے اور آٹھ بیٹیاں تولد ہوئیں۔ سید دین محمد شاہ ۱۲۹۰ھ میں تولد ہوئے۔ جوان ہوئیے شادی کی اور ایک بیٹی تولد ہوئی اس کے بعد ۲۲ سال کی عمر مین ۱۳۱۳ھ میں انتقال کیا ۔ دوسرے بیٹے سید محمد شاہ نے بچپن میں انتقال کیا۔
دوسری شادی چچازاد بھائی قاضی حافظ سید محمد ابراہیم شاہ کی ہمشیرہ سے ہوئی۔ اس کے بطن سے فقط ایک بیٹا سید ہوندل شاہ تولد ہوئے۔
تصنیف و تالیف:
فاضؒ شاہ کے والد ماجد سید غلام حیدرشاہ بھی عالم دین و شاعر تھے۔ کتاب ’’لیلیٰ مجنون‘‘ کو نظم میں تحریر کیا جو کہ بمبئی کے لیتھو پریس میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ ’’قصہ ہیر رانجھا‘‘ بھی تحریر کیا تھا جوکہ ۱۸۸۵ء میں کراچی سے شائع ہوا۔ اس کتاب کا ذکر J.F. Blumbardfنے سندھی زبان میں شائع شدہ کتب کے پہلے کیٹلاگ کیصفح ۸ پر کیا ہے۔ جو کہ ۱۸۹۳ء میںلندن سے شائع ہوا۔ (سندھی علماء اور ان کی تصانیف ماہنامہ نئی زندگی جولائی ۱۹۹۶ئ)
مولانا سید فاضؒ شاہ ، صاحب تصانیف کثیرہ بزرگ تھے آپ کا اکثر منظوم و منشور تحریری سرمایہ تقریباً تین بوریوں کی صورت میں ضائع ہوگیا۔ ان میں سے بعض کتب کے اسماء درج ذیل ہیں:
٭ تفسیر فاضلین(سندھی) قرآن مجید کا مکمل ترجمہ و تفسیر ہے۔ حسن اتفاق کہئے کہ تفسیر جلالین (عربی) کو دو علماء نے تحریر کیا اور دونوں کا نام جلال الدین تھا۔
۱۔ علامہ جلال الدین سیوطی
۲۔ علامہ جلال الدین محلی
اس لئے تفسیر پر نام جلالین پڑ گیا۔
اسی طرح تفسیر فاضلین کو بھی دو علماء نے تیار کیا۔
۱۔ مولانا سید فاضل شاہ۔
۲۔ مولانا سید فضل الدین
تفسیر فاضلین کا کامل نسخہ حضرت مولانا ابو الفضل مفتی عبدالرحمن ٹھٹوی مدظلہ العالی کے کتب خانہ میں محفوظ ہے۔اور بعض اہل علم نے ان کی نقل حاصل کی ہے۔ اور کسی مرد مجاہد کے انتظار میں ہے جو کہ زر کثیر صرف کرکے علم و عرفان کے خزینہ فیض کے نگینہ کو استفادہ عام کیلئے شائع کرے۔
٭ تفسیر بسم اللہ
٭ صفات باری تعالیٰ۔ ضخامت ۸۰۰ صفحات
٭ معراج الحبیب ﷺ نبی کریم ﷺ کے مراج، جسمانی شریف کے بیان و تحقیق پر مشتمل ہے۔
٭ شرح دلائل الخیرات (سندھی)
٭ الفوز الوفی فی ذکر الجلی والخفی (ذکر جلی و خفی کے ثبوت و دلائل قاہرہ پر مشتمل ہے۔
٭ حقیۃ الفدک (عربی) باغ فدک کے متعلق شیعوں کے اعتراضات و الزامات کے شافی و کافی جوابات
٭ نفلی نمازیں(عربی)
٭ چونڈکافیوں (انتخاب کافی) میں سندھ کے نامو رشعراء کی مختصر سوانح مع کلام درج ہے۔
٭ میزان الشر ۔ علم عروض کے متعلق یہ رسالہ لیتھو پریس ۱۸۸۳ء میں کرچی سے شائع ہوا۔
٭ دیوان فاضل۔ ۱۸۸۳ء میں ورنیکیولر لٹریچر کمیٹی نے شائع کیا۔ طبع ثٓنی ۱۹۲۸ء میں پوکرداس تھا نورداس نے شکار پور سے شائع کیا۔ طبع ثالث ۱۹۳۷ء میں سندھ مسلم ادبی سوسائٹی حیدرآباد نے شائع کیا جس سے دیوان فاضل کی مقبولیت کا پتہ لگتا ہے۔
شاعری:
آپ بلند پایہ صوفی شاعر تھے۔ فارسی او سندھی کلام پر مشتمل دیوان فاضلہے۔ آپ نے شاعری کی ہر صنف حمد ونعت، غزل، قصیدہ، مخمس اور مسدس وغیرہ میں طبع آزمائی کی ہے۔ آپ قدوۃ العافرین حضرت پیر سید حزب اللہ شاہ مسکین ؔ راشدی المعروف پیر صاحب تخت وہنی پارگارہ علیہ الرحمۃ کے نہایت معتقدین میں سے تھے۔ حضرت کے وصال پر شاہ صاحب نے سندھی میں ایک دردناک طویل قصیدہ لکھا تھا جسے نامور دانشور ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ نے ’’دیوان مسکین‘‘ کے مقدمہ میں نقل و محفوظ کیا ہے۔ (دیوان مسکین علیہ الرحمۃ فارسی و سندھی، مترجم مفتی محمد رحیم سکندری، مطبوعہ درگاہ راشدیہ پیران پاگارہ ۱۹۸۵ئ)
وصال:
علامہ فاضل شاہ دمہ کی تکلیف میں ۶۷ سال کی عمر میں ۱۹ شعبان المعظم ۱۳۱۹ھ بمطابق دسمبر ۱۹۰۰ء کو انتقال کیا۔ حیدرآباد کے قبرستان میں مزار شریف واقع ہے۔ آپ کی شان میں آپ کے ہم عصر نامور عالم و شاعر آخوند محمد قاسم (ہالا) نے منقبت سندھی میں کہی جو کہ دیوان قاسم ص ۶۰ پر درج ہے۔ (ماخوذ : دیوان فاضلمرتبہ ماسٹر محمد صدیق مسافرؔ مطبوعہ سندھ مسلم ادبی سوسائٹی حیدرآباد ۱۹۳۷ئ)
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )