حضرت مولاناسیّد محمدہاشم دریادل رحمتہ اللہ علیہ
حضرت مولاناسیّد محمدہاشم دریادل رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
حضرتِ ہاشِم کہ دریادل خطابِ پاک اوست |
عالمِ ایجاد یکسربستۂ فتراکِ اوست |
آنچہ مردم طلب ازسُرمہ صفاہاں میکنند |
گوکہ جملہ یک بیک مخفی دردنِ خاکِ اوست |
بہرِ نعلینش بداں چرمےبہ ازچرمِ سُہَیل |
تارجانہائے ملک پئے شہ پاکِ اوست |
ہرکہ شدخاکِ قددمشق زیست خرّم درجہاں |
ہرکہ رُخ تابیدزودردوجہاں غمناک اوست |
آنکہ شداشرف ززہرمارِ دنیانیش خوار |
بالیقیں دائم کہ یادِ ایزدی تریاکِ اوست |
اوصاف جمیلہ
آپ پیشوائے زمان،مرجع عارفان۔زبدۃ الواصلین۔قدوۃ الصالحین۔ برہان شریعت۔سُلطان طریقت۔خزینتہ حقیقت۔دُرّدریائے معرفت۔صاحب سخاوت وکرامت و خوارق و زُہدوتقوٰی ووجدسماع تھے۔آپ سیّد العارفین حضرت سیّد شاہ حاجی محمدنوشہ گنج بخش بن حاجی الحرمین حضرت سیّد علاوالدین حسین غازی علوی قادری قدس اللہ سرہماالعزیزکے فرزند اصغر اور مریدو خلیفہ تھے۔
آپ کی والدہ ماجدہ کا نام حضرت روئیل خاتون بنت مولاناحافظ بہاوالدین بن حاجی عزیزاللہ بن شیخ فریدالدین منہاس ساکن قصبہ ہیلاں تھا۔
تربیّت
آپ کی تربیّت بڑے اچھے طریقہ پر ہوئی۔والد بزرگوار کو آپ سے بہت محبّت تھی۔ بچپن میں اپنے پاس سُلاتے۔ایک مرتبہ آنجناب قدس سرہٗ پانڈووال میں تشریف لے گئے۔ آپ رات کواکیلے سوئے جب سردی کی تکلیف محسوس ہوئی توکہا"باباجی لیف دو"۔حضورانورنے وہاں سے ہی بتصرفِ باطنی آپ کو لحاف اوڑھادیا۱؎۔
تحصیل علوم
آپ جب سن تمیز کو پہنچے تو والد بزرگوار نے چندے اپنے پاس پڑھایا۔پھر موضع دیووال علاقہ بارگوندلاں میں مولوی حاجی حسین فاضل رحمتہ اللہ علیہ کے پاس بھیجدیا۔ کچھ عرصہ وہاں تعلیم پائی۔اخفائے احوال کے واسطے ایک غریب بافندہ کے ہاں ڈیرہ رکھا۔چندسال کے بعد وہاں سے فارغ ہوکرسیالکوٹ میں آفتابِ پنجاب مولاناعبدالحکیم سیالکوٹی رحمتہ اللہ علیہ کے درس میں داخل ہوئے۔تمام علوم منقول ومعقول وہاں سے حاصل کئے۔علّامہ شیخ محمد تقی رحمتہ اللہ علیہ ساکن کیلیانوالہ بھی اُن ایّام میں وہاں مدرسہ کے استاد تھے۔اُن سے بھی تلمذکیا۔بیس سال کے بعد فارغ التحصیل ہوئےاوردستارِ فضیلت پہن کرواپس تشریف لائے۲؎۔
حضرت والد بزرگواررحمتہ اللہ علیہ نے آپ کی خدمت کے واسطے شیخ نورمحمدرحمتہ اللہ علیہ کو مامور کیاتھا۔وہ دیووال اورسیالکوٹ میں آپ کی خدمت میں موجودرہے۔دن رات حاضر رہتے۳؎۔
ایک بار آپ کے دَوران تعلیم میں آپ کی خبرگیری اورسیالکوٹ کے لوگوں کی فیض رسانی کے لیے حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ بھی سیالکوٹ میں تشریف لے گئے تھے۴؎۔
مطالعہ کا شوق
آ پ علم میں اس قدرمحوومستغرق تھے۔کہ شام کے قت مطالعہ میں بیٹھتے اسی حالت میں صبح
ہوجاتی۔مگربوجہ محویّت کے آپ کوپتہ نہ لگتا۵؎۔
اخلاق وعادات
آپ صحبتِ خلق سے پرہیزفرماتے۔ظاہر شریعت کی پابندی میں اپنے احوال باطنی کو پوشیدہ رکھاتھا۔ فقہائے وقت اورمحدّثین زمانہ میں ممتازتھے۔سخاوت ومہمان نوازی میں یگانہ آفاق تھے۔اسی مناسبت سے آپ کو"ہاشم دریادل"کہاجاتاتھا۶؎۔
فائدہ۔فیروزاللغات فارسی حِصّہ اوّل میں ص ۴۳۰ میں لکھاہے۔"دریادل ف بلندحوصلہ۔ فیاض سخی۔
۱؎، ۲؎،۳؎ ،۵؎تذکرہ نوشاہیہ۱۲۔۶؎ثواقب المناقب۔خزینتہ الاصفیأ ۱۲ شرافت
محبّت فی اللہ
آپ کو اپنے والد کے خلفأ میں سے حضرت پاک صاحب بھڑیوالہ رحمتہ اللہ علیہ سے زیادہ محبت تھی اوراُن کو سب میں سے افضل خیال کرتے تھے۔چنانچہ جب آپ کے برادر زادہ سیّد شاہ عصمت اللہ حمزہ پہلوان رحمتہ اللہ علیہ کو راہِ حق کا شوق دل میں موجزن ہوا۔تواپنے جد امجدکے یاروں میں سے شیخ رحیم داد سلیمانی رحمتہ اللہ علیہ اورشیخ پیرمحمد سچیارنوشہروی رحمتہ اللہ علیہ اورسیّد شاہ محمد شہید رُہتاسی کے پاس گئے۔لیکن کسی سے کشود کا ر نہ ہوا۔آپ نےان کو فرمایاکہ اگر تم کو راہ خدا کی طلب ہے توبھڑی میں جاؤ۱؎۔
تولیتِ درگاہ شریف
منقول ہے کہ حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے آخری ایّام حیات میں اپنی خلافت و سجادگی کے لیے تمام یاران کبارکے رُوبرواپنے فرزنداکبرحضرت سیّد حافظ محمدبرخوردار بحرالعشق رحمتہ اللہ علیہ کو نامزد کیااوردستارنیابت سے سرفراز فرمایا۔ سب حضرات نے اس فرمانِ شاہنشاہی کو بسروچشم تسلیم کیا۲؎۔جاگیرمتعلقہ درگاہ بھی اُن کے نام منتقل ہوئی۔حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے ارتحال کے بعد سیّد دریادل رحمتہ اللہ علیہ پر غربت کا زمانہ طاری ہوااورترکِ وطن کا ارادہ کرلیا۔حافظ بحرالعشق رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کے حزن وملال کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے درگاہ شریف کی تولیت اپنی نیابت میں آپ کے سپُردفرمائی اورجاگیر کے کاروبار بھی آپ کی حراست میں کردئیے۔اُس روز سے آپ کازمانہ عروج واقبال کا زمانہ ہوگیااورروزبروز آپ کا کام ترقی پررہااورآپ جاگیر کی آمدن انصاف و عدل سے اپنے برادرِ بزرگ حضرت حافظ صاحب کو نصف حِصّہ دیتے رہےاورنصف حِصّہ اپنے مصارف میں لاتے رہے۔
۱؎تذکرہ نوشاہیہ۱۲۔۲؎رسالہ الاعجاز۔تذکرہ نوشاہیہ۔کنزالرحمت۔انوارالقادریہ ۔کلیدگنج الاسرار۔ خزینتہ الفقرا وغیرہ ۱۲۔شرافت
یہ سپُردِ خلافت کاواقعہ متعدد تاریخوں میں مذکورہے۔چنانچہ
۱۔حضرت مرزااحمد بیگ لاہوی رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب مقاماتِ حاجی بادشاہ المعروف رسالہ الاعجاز المشہوررسالہ احمد بیگ میں اس طرح لکھاہے۔
"حضرت میں برخوردارجیورادیدہ پر آب شدفرمودندکہ شماارادہ ہجرت بگذاریدواینجانزدِماباشیدو جملہ یارانِ حضرت شاہ رافرمودندکہ الحال شمایاں میاں ہاشم دریادل رابجائے من دانستہ باشیدوہرکہ بردرگاہ بیاید اوّل ایشاں راسلام کردہ پیشِ من بیائید ازاں روز خدمتِ درگاہ بمیاں محمدہاشم جیورسیدد حضرت میاں برخوردارخوددرمسجد مصلے نشین گشتندداختیار ہمہ کارہابایشاں سپُرد ند"۔بلفظہٖ
خلاصہ مطلب یہ کہ حافظ صاحب کے آنسوبھرآئے اورآپ کو ہجرت سے روکااوردرگاہ شریف کی تولیت آپ کے سپُردکی۔
۲۔مولوی نوراحمدچشتی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب تحقیقات چشتی ص ۴۲۹میں اس طرح لکھاہے۔
"بعد وفات اول ہاشم۱؎برخوردارسجادہ نشین ہوئے اورابعدازاں بخوشی خود انہوں نے ہاشم دریائی کو وسادہ آرائے خلافت کیا"بلفظہٖ۔
توجن مولفوں نے حضرت سیّد محمد ہاشم دریادل رحمتہ اللہ علیہ کو"صاحب دستار" یا "برسجادہ مشیخت
قائم شدہ "لکھاہے۔اس سے آپ کا وہی زمانہ مرادہے۔جس وقت آپ کو اپنےبڑے بھائی حافظ بحرالعشق رحمتہ اللہ علیہ کی طرف سے خلاف مل چکی تھی اورآپ اپنے والد ماجد کے بالواسطہ مسندنشین ہوئے تھے۲؎۔
حلیہ و لباس
آ پ کاقددرمیانہ ۔رنگ گندمی گون مائل بہ سبزی۔رخسارروشن۔ریش مبارک بقدرایک قبضہ کے تھی۔خوبصورت حَسین و جمیل تھے۔علمأ کالباس زیبِ تن فرماتے۳؎۔
۱؎مطبوعہ کتاب میں کاتب نے حافظ برخوردارکی بجائے ہاشم برخوردارلکھ دیاہے اورہاشم دریادل کو
ہاشم دریائی لکھدیاہے۱۲۔۲؎آج کل کے بعض لوگوں نے جو آپ کو اپنی تحریروں میں حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کا سجادہ نشین اول اورولی عہد لکھاہے۔اُن کے پاس کوئی مستند تاریخی ثبوت نہیں یہ اُن کا مکابرہ اور محض خودغرضی ہے۔بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ سجادہ نشین اول حضرت سیّد حافظ محمد برخوردار بحرالعشق تھےاوراُن کی سُپرد سے اُن کی نیابت میں سجادہ نشین دوم حضرت سید محمد ہاشم دریادل تھے۔یہ لوگ اس مسئلہ میں شیعہ مسلک کا اتباع کرتے ہیں۔جیساکہ وہ حضرت امام علی المرتضیٰ علیہ السلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خلیفہ بلافصل مانتے ہیں۔حالانکہ ان کی خلافت اصحاب ثلاثی کی خلافت کے بعد چوتھے نمبرپرتھی۱۲۔شرافت۳؎تذکرہ نوشاہیہ۱۲۔
خوارق وکرامات
آپ سے اکثرکرامات کاظہورہوتاتھا۔کمالاتِ روحانی پورے پورے حاصل تھے۔
ایک درویش کو مستفیض کرنا
آپ کے خادم شیخ عبداللہ رحمتہ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ ایک دفعہ آپ چک سادہ میں ایک درخت کےسایےمیں چارپائی پراستراحت فرماتھے۔میں اورشیخ رحیم الدین خادم رحمتہ اللہ علیہ آپ کے پاؤں دبارہےتھے۔اچانک آپ پر ایسی حالت طاری ہوئی کہ جسم گرم اورچہرہ مبارک سُرخ ہوگیا۔بیقراری سے کروٹیں بدلنے لگے۔اسی اثنامیں ایک گودڑی پوش درویش آکراس درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔آہِ سردکھینچی۔ہم نے پوچھااے فقیر۔کہاں سے آیاہے۔ اورکہاں جارہاہے؟اس نے کہامیراوطن اکبرآباد (آگرہ) سے پانسوکوس پَرے ہے۔ایک بزرگ ولی اللہ مجھے خواب میں ملے اوردریائے چناب پراپنامقام بتایا۔میں ان کی تلاش میں سرگردان پھررہا ہوں۔نہ تو ان کا نام یاد ہے کہ کہیں سے پوچھ لوں اورنہ مقام کا پتہ ہے۔ہم نےپوچھاکہ اُس بزرگ کا حلیہ بتاؤ۔اُس نے بیان کیاتووہ بعینہٖ حضورکاحلیہ تھاہم نے ہاتھ سے اشارہ کیاکہ وہ تو یہ ہیں اورسیّد محمد ہاشم دریادل رحمتہ اللہ علیہ اِن کا اسم شریف ہے۔یہ سن کر اس کی خوشی کی کچھ انتہانہ رہی اوراُٹھ کر آپ کاقدمبوس ہوااوراپنی آنکھوں کوجمال سے منوّر کیا۔ہم دیکھ رہےتھے کہ جب طالب و مطلوب آپس میں دوچارہوئے ۔توآپ کے جسم سے نورکاایک شعلہ نِکلااوراس درویش کے جسم میں داخل ہوگیا۔پھرآپ نے روٹی کے چند لقمے اس کو کھلائے۔وہ کھاتے ہی بیہوش ہوکرگرپڑا۔تھوڑی دیر کےبعدہوش میں آیا۔آپ نے اُس کوفرمایا۔کہ دنیاحاسدوں اوربخیلوں سے پُر ہے۔تم اسی وقت یہاں سے چلے جاؤ۔چنانچہ وہ واپس چل دیااورمجھ کو فرمایاکہ اس کو رخصت کرآؤ۔چنانچہ میں اس کو ایک کوس تک چھوڑ کرآیا۔حضورنے فرمایاکہ یہ ایسامردِکامل ہوگاجیسے مَرد ہوتے ہیں۱؎۔
۱؎ تذکرہ نوشاہیہ ۱۲۔شرافت
کشفی طورپرایک واقعہ سے آگاہ ہونا
شیخ عبداللہ خادم رحمتہ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ ایک دن چاشت کے قریب آپ سیرکو نکلے۔میں
بھی ہمراہ تھا۔کسی شخص نے پوچھاکہاں تشریف لے جا رہے ہیں۔آپ نےازراہِ خوش طبعی فرمایا۔چندگائیں گُم ہوگئی ہیں۔ان کی تلاش کو نکلے ہیں۔میں نے د ل میں سمجھ لیاکہ یقیناً کوئی ایساواقعہ پیش آنے والے ہے۔آپ کافرمودہ غلط نہیں ہوسکتا۔ابھی پانچ چھ گھڑیاں گذری ہوں گی کہ علام شیخ محمد تقی فاضل کیلیانوالہ کا پیغام آگیاکہ ہماری آٹھ گائیں آج رات چوری ہوگئی ہیں۔کہیں سے اُن کی ڈُھونڈھ کریں۔آپ نے میری طرف منہ کر کے فرمایا "ازماست کہ برماست"پھرموضع اگرویہ میں تشریف لے گئے۔چوہدری جودھ نمبردار آپ کی سواری کو پہچان کرقدم بوس ہوااورعرض کیا کہ ایسی سخت دُھوپ میں کہاں جانے کا ارادہ ہے۔آپ نے فرمایااستادکی گائیں چوری ہوگئی ہیں۔ان کو تلاش کررہے ہیں۔اس نے کہاکہ آپ سایہ میں آرام کریں۔میں ڈھونڈدوں گا۔چنانچہ اُس نے نکّی چٹھہ سے گائیں واپس بھجوادیں۱؎۔
ایک فقیر کا دل مسخر کرنا
منقول ہے کہ مرزاالف بیگ الملقب بہ شاہ الف المعروف بہ شیخ محمد تقی مجذوب نوشہروی رحمتہ اللہ
علیہ جو حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے اکابریاروں سے تھے۔مجذوبانہ اطوارسلطان پور کے جنگل میں برہنہ پھراکرتےاورآبادی کی طرف نہ آتے تھے۔ ایک مرتبہ اُن کا بھائی مرزا شیربیگ آپ کی خدمت میں آیا اورعرض کیاکہ میرابھائی فقیر ہے۔ لوگ اُس کے پاس نذرانے لاتے ہیں ۔وہ ضائع کردیتاہے۔اگروہ ہمارے پاس آجاوے۔تواُس سے ہم کو فائدہ پہنچے۔آپ نے فرمایاجاؤآجاوے گا۔چنانچہ آپ کے تصرّف سے وہ خود بخود چل کر نوشہرہ مغلاں میں آگئےاورپھرتمام عمروہیں رہے۲؎۔
۱؎،۲؎ تذکرنوشاہیہ ۱۲ شرافت
ایک ظالم کاسزاپانا
منقول ہے کہ جب چوہدری ساہنپال تارڑ نے وفات پائی تو مبارک نمبردار جو کالی نے عداوت کی بناپر
حاکم وقت کے سامنے رپورٹ کی کہ چوہدری عبدالوہاب نمبردار مگھووال جو سرکارکا باغی اورمفرور ہے۔اُ س کا مال مویشی موضع چک ساہنپال ہے۔وہاں چھاپہ مارناچاہئیے۔ اس بہانہ سے اُس نے گاؤں پر چڑھائی کروادی اورچوہدری کے بیٹوں رحمان قلی وغیرہ کو گرفتارکروادیا۔ اُس وقت حضوردریاکی سیرکوگئے ہوئے تھے۔شوروغوغا سن کر واپس آئے اورفرمایایہ تمام شرارت میرک کی ہے ۔چوہدری کے لڑکوں کوچھوٹاجان کر تنگ کررہاہے۔آپ نے نظر غضب سے اُس کی طرف دیکھااورفرمایا"جوکرے گاسوبھرے گا"۔اسی وقت میرک کی پشت پر پھوڑانکل پڑا اورچند روز تکلیف پاکر مَرگیا۱؎۔
ایک مغرور کو سرزنش کرنا
مرزااحمد بیگ لاہوری رحمتہ اللہ علیہ اپنے رسالہ میں لکھتے ہیں کہ میں دہلی میں تھا۔خواب دیکھاکہ آپ نہایت غضبناک صورت میں دریاکی طرف جارہے ہیں۔ سامنے سے ایک فقیر آپ کے مقابلہ کو کھڑاہوگیا۔آپ نے غصّہ سے اُس کا ہاتھ پکڑکرزمین پچھاڑ دیا۔ اورفرمایا"یہ لوگ بھی حضرت نوشہ صاحب کے یار کہلاتے ہیں"۔آخر بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ فی الواقعہ حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے مریدوں میں سے ایک درویش اپنے حال پر مغرور تھا اورصاحبزادگان کی اطاعت سے انحراف پذیر تھا۔آپ کی غیرت سے وہ اُسی روز مرگیا۔
ایک مفلوج کا تندرست ہونا
آپ کے خواہر زادہ شیخ تاجدین بن حافظ معموری ہیلانی رحمتہ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ ایک مرتبہ ایک مفلوج کو چارپائی پر اُٹھاکراُس کے رشتہ دارآپ کے پاس لائے اوردعاکےلیے التجاکی۔وہ بیمار حافظِ قرآن تھا۔آپ نے فرمایاکہ اس کو درگاہِ نوشاہیہ کے اندر لے جاؤ۔شفاپاجاوے گا۔چنانچہ اندرجاکر اُس نے سورۂ مُلک تلاوت کی۔جب ختم کرچکاتوبیماری دفع ہوگئی۔اپنے پاؤں سے چل کر واپس آگیا۲؎۔
۱؎،۲؎ تذکرہ نوشاہیہ ۱۲ شرافت
مکتوبات
آپ کے چار مکاتیب دستیاب ہوئے ہیں۔وہ یہاں درج کئے جاتے ہیں۔
مکتوب اول
یہ مکتوب آپ نے زمانہ طالب علمی میں سیالکوٹ سے اپنے والد بزرگوار کے نام لکھاتھاکہ مولوی عبدالحکیم رحمتہ اللہ علیہ آپ کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت چاہتے ہیں۔ وہو ہذا۔
"قبلہ حاجات حقیقی وکعبہ مرادات تحقیقی حضرت ولینعمی جیو۔دام اقبالہٗ ۔ازفقیر محمد ہاشم بعد تسلیمات مؤدبانہ معروض رائے عالی آنکہ بدعائے آنحضرت بابرکت از علوم عقلی و نقلی تحصیل کردہ فراغت یافتہ ام داخوند جیومُلّا عبدالحکیم بکثرت اوصافِ ذاتِ والا سماع کردہ اشتیاقِ دیدارِ پرانوار حضرت ایشاں دراند۔ایں فقیر گفت کہ پیش از رفتن اجازت از حضور فیض گنجور طلبیدن ناگزیرست ہر چہ امرشود بسروچشم تعمیل کردہ آید ؎
عزمِ دیدارِ تودراوجان برلب آمدہ |
بازگرددیابرآیدچیست فرمانِ شما |
مکتوب دوم
یہ مکتوب آپ نے اپنے استاد علام شیخ محمد تقی ساکن کیلیانوالہ کے نام اُن کی گایوں کے تلاش کرنے کے متعلق لکھاتھا۔
"زبدۃ العلمأوعمدۃ الفضلأ مولانامحمد تقی سلمہ اللہ تعالےٰ"۔
بعدتسلیماتِ مؤدبانہ ازفقیر محمد ہاشِم معروضی آنکہ صحیفہ لطیفہ آنجناب موصول شد۔ازاحوالِ پُر ملال آگاہی گشت بدیدن مکتوبِ گرامی فی الفور بہمراہی عبداللہ فقیر درموضع اگرویہ رفتہ باشندگانِ دیہ را حاضر ساختہ ازگاوانِ مسروقہ آنجناب تفتیش کردہ شد۔چوہدری جودھ مقدم اگرویہ گفت کہ ایشاں
ہیچ فکرنکنند من گاوان تلاش کردہ نزدِ مولوی صاحب خواہم رسانید ؎
آنچہ او گفت آں کنیم ہمہ |
طاعتِ اوبجاں کنیم ہمہ |
وارجرامن اللّٰہ فیل المواھب |
وربی لمایبتغی العبدواھب |
مکتوب سوم
یہ مکتوب آپ نے مرزااحمد بیگ لاہوری رحمتہ اللہ علیہ کے نام لکھاتھاکہ تم اپنی نسبتِ باطنی شیخ نورمحمد سیالکوٹی رحمتہ اللہ علیہ سے درست کرو۔
"محب خاص میاں احمد بیگرزقہ اللّٰہ العشق ۔ازفقیرمحمد ہاشم بعد دعاواضح باد کہ مکتوب عزیزِ شمار سید۔بائید کہ شماارادت بجناب میاں نورمحمد جیو بیارید۔چراکہ آں نسبت ہم عائیدبہ ایں جانب میشود۔دم دم سیالکوٹ راحکمِ حضرت شاہ آنست کہ میاں نورمحمد تربیت نمایند۔واسرارے کہ میاں ما وشماہست ہست۔دماہم ازتربیتِ شماغافل نیستیم۔لیکن پیشِ مردم نسبت ایشاں ظاہر بکنید"۔
مکتوب چہارم
یہ مکتوب آپ نے کسی دوست کو لکھااورساتھ ایک معجون بھی ارسال کی۔
"اوسبحانہٗ عزّ شانہٗ ہموارہ وجودذی الجودِ آں مجموعئہ انواراہلیتِ مخزنِ اسرارِ قابلیت مجمع اخلاق یگانہ
آفاق۔برگزیدہ درگاہِ سبحانی راپیوستہ برمکانِ شادمانی متمکن داشتہ کامیابِ مطالب دارین داراد۔ از مہجورِ صوری وموصول معنوی مودت ومحبّت آئین محمد ہاشم بعد تحائف تحفہ سلام سنبِ سیّد الانام کہ بہترازیں تحفہ درگلشنِ اسلام موجودنیست مشہودِ ضمیرِ منیر میگرد اند کہ مجاری اموربحمدِ نامحصور مستوجبِ حمد ست۔وصحتِ اعتدالِ مزاجِ وہاجِ آں مجمعِ کمالات ازدگاہ قاضی الحاجات لیل و نہاربالعشی والابکار مستدعی ست۔ازاں حینِ رخصتانہ کہ از ملازمتِ فیض درجت سکونت پذیرخانہ گردیدہ حقا کہ آتشِ شوق و آرزومندی بدرجہ کمال افروختہ بل لحظہ بلحظہ ترقی مے پذیردرمعلوم کہ بے مواصلتِ گرامی آں اخترِ منیرِ بُرجِ مروّت۔گوہربے نظیرِ دُرجِ فتوّت ۔معدنِ دانش وبینش انتطفانمےپذیرد۔عنقریب حصولِ ایں مقصود خواست تقدیراً بموجبِ عوارضِ لاحقہ دنیوی کہ آدم زادہ رازمان بزمان درپیش ست موقوفِ دقت داشتہ کہ اظہارآں ممتنعات ملاقات باعثِ ازدیادو تطویل ست۔امیدوارست کہ دریں معدود الایّام شرافت اندوزِ خدمتِ گرامی گردد۔التماس کہ بنا برفرمائش زبدۃ الاماثل والاقران وقدوہٗ خوانینِ بلندمکان میاں جلال خاں معجونِ لائقہ و شائقہ مرضِ مفہومہ بمصحوبِ آدمِ معتمدِ خویش بخدمت فیض موہبت ابلاغ داشتہ۔اغلب کہ بنظر مبارک رسیدہ باشد۔رجأ کہ بہ انام شفابخش جمیع اسقام بقدرسہ ماشہ ماؤف معلوم رامیخورایندہ باشند۔دازاجتناب مُضِرّات وممدداتِ مرض خودارسطوفطرت اندحاجت بترقیم نیست۔ایں کمترین احقرالعباد را عنقریب متعاقبِ ایں قدم ازسَرساختہ بحضورموفورالسرور شتافتہ دانند۔واززبانی بندہ بخدمت میاں جلال خاں جیوبموجب بعضے امورِ ضروریہ کہ بے انصرامِ آں امورات سرانجام مقاصدات صورت
نے پذیردمشرف نشدہ۔انشأ اللہ تعالےٰ عنقریب معدود ایّام بندہ بخدمت مستفیدو بہرورخواہد شد۔ وازشرب دواخاطر من کلّ الوجوہجمع داشتہ صبح و شام بقدر یک درم میخوردہ باشند کہ انشأ اللہ شفأ کلی حاصل خواہد شد۔والسلام والاکرام۔بجمیع ہم نشیناں چنانچہ بندہ خاں وحیدرشاہ و فتح شاہ و سیّد بہارشاہ و جمیع خاندان از فقیر سلام قبول باد۔وبر خوردار عزّت آثار تہوّرہ شجاعت دِثار فیض خاں
رازیادہ از السلام علیکم چہ رسد"۔
سجع مُہر
آپ کی مُہر کا سجع یہ تھا۔
"کندہ برخاتِم دل نقشِ محمد ہاشم"
بیویاں
آپ کی دو اہلیہ تھیں۔
۱۔صاحب تحائفِ اصفیا نے لکھاہے کہ آپ کی شادی مَلک وال ضلع گجرات میں ہوئی اوربزرگوں سے منقول ہے کہ آپ کے خُسر کا نام مولوی عبدالقادر بن شیخ حامد تھااورساداتِ مَلکوال کا شجرہ دیکھنے سےثابت ہواہے ۔کہ ان کانام سیّد عبدالقادر بن سیّد تاج محمودبن حاجی شیخ حامد الحسنی رحمتہ اللہ علیہ تھا۔
اِس بی بی کے بطن سے کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
۲۔دوسری بی بی خاندانِ منہاس راجپوت علمائے قصبہ ہیلاں سے تھیں۔ان کے بطن سے اولاد ہوئی۔
اولاد
آپ کے تین بیٹے تھے۔
۱۔سیّد فضل اللہ معصوم رحمتہ اللہ علیہ ۔
۲۔سیّد عظمت اللہ اکمل رحمتہ اللہ علیہ ۔
۳۔سیّد محمد سعیددُولا رحمتہ اللہ علیہ ۔
یارانِ طریقت
آپ کے خواص مُرید یہ تھے۔
۱۔سیّدفضل اللہ معصوم رحمتہ اللہ علیہ فرزند اکبر۔
۲۔سیّد عظمت اللہ اکمل رحمتہ اللہ علیہ فرزند ثانی۔
۳۔سیّد محمدسعیددُولارحمتہ اللہ علیہ فرزنداصغر۔
۴۔شیخ نجم الدین خُسرپورہ رحمتہ اللہ علیہ۔
۵۔شیخ عبداللہ خادم رحمتہ اللہ علیہ۔
۶۔شیخ رحیم الدین خادم رحمتہ اللہ علیہ۔
۷۔مرزاسہراب بیگ لاہوری رحمتہ اللہ علیہ۔
۸۔میاں تاجاسیالکوٹی رحمتہ اللہ علیہ۔
مدحیات
آپ کی تعریف میں چند نظمیں کلامِ شعراسے یہاں درج کی جاتی ہیں۔
(۱)
ازمرزااحمد بیگ لاہوری صاحبِ رسالہ
شاہِ ہاشِم کہ بود دریادل |
حاتم ازجودِ اوشدست خجل |
زیں سبب شد خطابِ اودریا |
کہ نشددرسخاکسے ہمتا |
عالمِ باعمل ہمیں اوبود |
کہ بقول و بفعل یکرو بود |
باطنش با خدامدام حضور |
کردہ باعلمِ ظاہر ش مستور |
حلم وعلم وعمل بہم بستہ |
گشتہ آزاد ازہمہ رَستہ |
نظرش کیمیااثر نظرے |
روشنی بخشِ قلبِ فیض اثرے |
ازکرم یک نگاہ بکس میکرد |
یافتے صد شفازرنج وزدَرد |
طالبانِ خدابہ پیشِ درش |
ہمہ امیدوارِ یک نظرش |
روشنی بخشِ قلب دیدارش |
گشتہ ریحانِ رُوح گفتارش |
شاہبازے بلند پروازے |
شدبمیدانِ عشق جانبازے |
دارد امید یک نظر احمد |
تاشفایابداوزنفسِ بَد |
(۲)
ازعلامہ شیخ محمد ماہ صداقت کنجاہی صاحبِ ثواقب المناقب
طراوت بسکہ ارزاں گشتہ امروز |
قلمداں نرگسستاں گشتہ امروز |
بیااے خامۂ توفیقِ دمسازا |
رقم زن مدحِ شاہِ نکتہ پرداز |
شہِ دریادلِ اعجاز پَرور |
برنگِ ابرِ رحمت سایہ گستر |
(۳)
ملاحت بسکہ واردحُسن پرکار |
نمکسارست شمس آبادِ رُخسار |
زمژ گاں بستہ ترکش چشمِ مخمور |
زِرَہ پوشیدہ از خط رُوئے پُرنور |
نہ ابرو صَیقلِ آئینۂِ حُسن |
طلسمِ شوخیِ گنجینۂ حُسن |
دراز یہائے آں زلفِ سیہ پوش |
گذشتہ اززمیں ہمچوں شبِ دوش |
زنخدانِ طراوت جوش آں ماہ |
نکوئیِ بُتاں انداخت درچاہ |
زداغِ رشکِ اوسیبِ جگرخوار |
درونِ پنبہ پنہاں گشتہ صدبار |
دہانش خاتمے ازبہرنام ست |
ہمانامیمِ مدغم درکلام ست |
بلاسرمشقِ حُسن سادۂ او |
قیامت پیشِ پاافتادۂ او |
(۴)
دامِ دلہاکمندِ وحدتِ او |
بال پرواز ہوشِ صحبتِ او |
آیۂ مصحفِ خدادانی |
رِشتۂ سُبحۂ سلیمانی |
تاریخ وفات
سیّد محمد ہاشم دریادل کی وفات۱؎ بروزجمعہ ۔بائیسویں ماہ ذی الحجہ ۱۰۹۲ھ میں ہوئی۔اس کے مطابق ۳ جنوری ۱۶۸۳ء تھا۔آپ کی مرقد منورگورستان نوشاہیہ میں روضہ عالی حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے مشرقی جانب چبوترہ پر پختہ بنی ہوئی ہے۔
مادہ ہائے تاریخ
۱۔منتخب
۲۔پُرفیض
۳۔فخرِادوار
۴۔فیاضِ عالمین
۵۔پرتوآفتاب۔
۱؎حضرت شاہ ہاشم دریادل رحمتہ اللہ علیہ کے مزید حالات شریف التواریخ کی تیسری جلد موسوم بہ تذکرۃ النوشاہیہ کے پہلے حِصّہ تحائف الاطہارنام میں لکھے جائیں گے۔ شرافت
(شریف التواریخ جلد نمبر ۲)