اقرارنامہ سیّد محمد سعید رحمتہ اللہ علیہ
اقرارنامہ سیّد محمد سعید رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
محمدفرخ سیر
بادشاہ غاز
سیدمیروفدو
۱۱۲۸
بحضور بندۂ درگاہ انفصال یافت
"عرض ازیں بعد آنکہ منکہ شیخ محمد سعید ولد شیخ محمد ہاشم ابن قدوۃ الواصلین حضرت شیخ حاجی محمد
مرحوم ام اقرارمے نمایم کہ چوں موضع ٹھٹہ عثمان و بادشاہ پور فتاعملہ رسولپور ہیلاں پرگنہ ہرات، دوابہ چہنب مضاف صوبہ پنجاب بجمع یک لک وسیزدہ ہزاریکصدوشست دام ازعہدحضرت(شاہجہاں بادشاہ) بعدمعروض استحقاق بہ اولاد حضرت مرحوم مرحمت شدہ بودو من مقرمذکورخود متصرف شدہ بااولادِ حضرت دخل ندادہ بودم چنانچہ وکیل اخوت پناہ شیخ عصمت اللہ وغیرہ پسرانِ شیخ برخوردار ولد حضرت مرحوم بحضور پرنور رسیدہ ایں معنے بعرض اقدس ر سانیدہ سنددرگاہ ناطق بمہر موان قطب الملک آوردہ مطابق دیوان صوبہ حاصل ساختہ سیادت و رفعت مآب سید میرمنصبدار کہ نراول تقسیم از حضورفیض گنجور بموجب دستک بمہر نواب الملک تعین شدہ بودونیزپروانہ بنام نائب ناظم دریں مادہ صداریافتہ بودخود معہ سوارناظم صوبہ آمدہ بموجب حکم محکم بقرار نیک اندربد بالمناصفہ قسمت جہتے علیٰحدہ بہریک کردہ دادہ ومایاں برضائے ورغبتِ خود برتقسیم مذکورصلح درمیان آوردیم و من مقر مذکور نوشتہ میدہم کہ آنچہ سابق ازیں قسمت بطورخود متصرف شدہ ام برطبق واصلات زمینداران مواضعات مذکور بلاعذروحیلہ عندالطلب نصف محصول متفرقہ اداکنم۔بنا براں ایں چند کلمات بطریق تمسک نوشتہ وادم کہ ثانی الحال سندباشد۔تحریرفی التاریخ یاز دہم رجب
۶ جلوس والا"۱؎۔ (مطابق جمعہ ۳۰ مئی ۱۷۱۸ء)
۱؎یہ اقرارنامہ اصل صاحبزادہ الطاف حسین بن سیّد فضل حسین برخورداری ساہنپالی رحمتہ اللہ علیہ کے گھر میں موجودہے ۱۲۔سیّد شرافت
جاگیرکا نصفانصف ہونا
جب ۱۱رجب ۱۱۳۰ھ کایہ تحریرشدہ راضی نامہ دفترمیں پہنچا تو نوماہ بعدعدالت عالیہ سے حکم نامہ صادرہوا۔کہ آیندہ جاگیردونوں فریقوں میں نصفانصف ہوگی اورعلاقہ کے چوہدریوں اورقانونگویوں اورنمبردار وں اوررعایااورمزارعوں کو بھی حکم پہنچادیاگیا کہ اس فیصلہ سے انحراف نہ کریں۔حکم نامہ یہ ہے۔
حُکم نامہ
مُہر
رسول الرحمٰن
مصاحب قاضی
شریعت خاں
"پروانہ بمہرقطب الملک یمین الدولہ سیّد عبداللہ خاں بہادرظفرجنگ سپہ سالاریارباوفارفعت پناہ وزارت وکفالت دستگاہ ضیأالدین محمد خاں محفوظ باشند۔پیش ازیں موضع ٹھٹہ عثمان وغیرہ دربست عملہ پرگنہ ہرات من اعمال دوابہ چونہب مضاف صوبہ پنجاب بجمع مبلغ یک لک وسیزدہ ہزارویکصد و شست دام جہت صرف درگاہ حضرت شیخ حاجی محمد و فضلابموجب فرمان عالی شان عہدبادشاہ غفران پناہ بہشت آرامگاہ مشمول تفضل دادار مفضل قدس منزلت حضرت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دروجہ انعام المتمغابشیخ محمد سعیدنبیرہ حاجی مذکورمقررشدہ بودفی الحال برطبق التماس شیخ عصمت اللہ وغیرہ فرزندان شیخ برخورداربن شیخ حاجی فربورحکم جہان مطاع آفتاب شعاع لازم الانقیادواجب الاتباع شرف نفاذیافتہ کہ اولادِ ہردوپسرمیگرفتہ باشند۔دریں ولابروفق راضی نامہ طرفین کہ بمہرمحمد رستم علی محتسب ومحمد خوشحال قاضی پرگنہ گجرات و محمد سعید قاضی پرگنہ مربورودستخط و گواہی اہالی و موالی و جمہورسکنہ پرگنات مذکورمسطوریازدہم رجب ۶ جلوس مبارک بدفتررسیدہ و شرح آں مفصل در ضمن ایں پروانہ بقلم آوردہ دام مرقومہ از موضع مزبورنصفانصف بحصہ مومی ا لیہم مقررگردیدہ لہذا نوشتہ میشود کہ بچو ہدریاں وقانونگویاں ومقدماں ورعایاومزارعاں پرگنہ مذکور مقررسازندکہ بالواجب وحقوق دیوانی از قرارواقع وراستی موافق ضابطہ و معمول مشارالیہم جواب مے گفتہ باشند واز
سخن حالی و صلاح و صواب دیدمومےٰ الیہم بیرون نروند۔بتاریخ ۱۵ ربیع الآخر ۷ قلمی شد۱؎۔
(۱۱۳۱ھمطابق منگلوار۲۴فروری ۱۷۱۹ء بعہدفرخ سیربادشاہ رحمتہ اللہ علیہ )
اس فیصلہ شاہی کے بعد دونوں فریقوں میں جاگیر کے متعلق صلح رہی اورکوئی مناقشہ پیدانہ ہوا۔
انتباہ۔جن بعض مؤلفوں نے حضرت سیّد محمد سعید دُولارحمتہ اللہ علیہ کوسجادہ نشین لکھاہے۔وہ آپ کے اُسی زمانہ تسلّط سے مرادہے۔جب آپ نے جاگیرپر خودمختارانہ قبضہ کرلیاتھااوراپنے برادرانِ عم زاد کے حقوق کو مٹاکرخود متصرف ہوچکے تھے اوراپنے سجادہ نشین ۲؎ہونے کا پروپیگنڈاکررکھاتھا۔
۱؎یہ حکمنامہ اصل صاحبزادہ الطاف حسین بن سید فضل حسین برخورداری کے گھرمیں بمقام ساہنپال شریف موجودہے۱۲۔۲؎سیّدغلام رسول برق نے سید حافظ محمد حیات برخورداری رحمتہ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھاہے کہ انہوں نے آپ کے سجادہ نشین ہونے کااعتراف کیاہے حالانکہ یہ بات غلط ہے۔حافظ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے تذکرہ نوشاہیہ میں میاں عبدالرحیم فقیررحمتہ اللہ علیہ کا قول نقل کیاہے کہ اس نے کہامیں سید محمد سعید سجادہ نشین کے پاس آیااوران سے میراکوئی مقصد حاصل نہ ہوا۔پھرمیں سید شیرمحمد بن شاہ عصمت اللہ برخورداری رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوکر مریدومستفیض ہوا۔تواس واقعہ سے ثابت ہوتاہے کہ اگرآپ حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے صحیح و جائزسجادہ نشین ہوتے تو ممکن نہ تھا کہ ایک طالب حق کوکوئی فیض نہ دے سکتے۔بلکہ اس واقعہ سے برخورداریوں کی سجادگی ثابت ہوئی۔کیونکہ وہ شخص برخورداری صاحبزادہ سے فائز المرام ہوا۔سیّد شرافت
اخلاق وعادات
آپ مہمان نوازغریب پرورتھے۔اخلاق حسنہ رکھتے تھے۔
لنگرشریف
آپ نے حضرت سچیارصاحب رحمتہ اللہ علیہ کے حکم سے درگاہ عالیہ پر لنگرجاری کیاتھا۔انہوں نے
فرمایاتھا کہ مسافروں کو روٹی کھلاکررخصت کردیاکرنا۔اپنے ڈیرہ پر رات نہ رکھنا۔چنانچہ آپ کا اس طرح معمول تھا۔تحائف قدسیہ میں ہے
چنیں کردش نصیحت پیرہُشیار |
کہ کس رادہِ نہ منزل اندرازدار |
بہ بخشی درجہاں ازجملہ اسباب |
طعام وقوتِ روحِ نوراحباب |
دورخصت کنی ذاں بعدجائے |
نخواہی داداے خانہ خدائے |
سخاوت
آپ بڑے فیاض اہل سخاوت تھے۔آپ کا شہرہ دُوردُور تک تھا۔ملتان شریف تک سے لوگ آپ کی خدمت میں آتے اورکاسہ گدائی پُرکرکے جاتے۔تحائف قدسیہ میں ہے
چناں میکردآں صاحب ہمیشہ |
کہ بودازاہل کرم و رحم پیشہ! |
فقیروں سے ملاقات
آپ کو درویشوں سے بہت محبت تھی۔جہاں تشریف لے جاتے اُس علاقہ کے فقیروں سے ملاقات کرتے۔میاں میہوں شیخوپوری رحمتہ اللہ علیہ سے کئی مرتبہ آپ کی ملاقات ہواکرتی۱؎۔
۱؎کنزالرحمت۱۲۔سیّد شرافت
غازی قلندردمڑیوالہ رحمتہ اللہ علیہ سے ملاقات
حضرت میاں محمد بخش قادری رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب تذکرہ مقیمی میں لکھاہےکہ:
"ایک مرتبہ حضرت صاحبزادہ محمدسعید نبیرنوشاہ حاجی گنج بخش بقصدِ سیر اس طرف تشریف لائے۔ بہت سواراورپیادہ آپ کے ہمراہ تھے۔غرض بڑی شان و شوکت سے اُن کی آمد تھی۔ جب اِ س نواح میں واردہوئے۔لوگوں سے دریافت کیا۔یہاں کو ئی صاحب کمال اہل باطن مرد بھی ہے۔ سب نے حضرت غازی قلندرکانشان بتلایا۔صاحبزادہ حضرت کے اوصاف سُن کر باادب خلوصِ دل سے پیادہ چل کرنہایت تعظیم سے روبروآکردست بدستہ کھڑے ہوگئے۔حضرت کو صاحبزادہ کا انکسار پسند آیا۔جوش سے فرمایا۔اے سعید!کیاچاہتاہے؟عرض کیا شوق۔اس مختصر عرض پر خوشنود ہوکر فرمایا۔شوق کا لفظ تیری زبان پر آیا اورتیری زبان کیوں نہ جل گئی۔فرمایا دیکھ ہم نے دریائے شوق میں غوطہ زنی کی اوراس کا سیلا ب سَر سے گذرگیا۔اس کلام کی تاثیر سے آتشِ شوق سے صاحبزادہ کی حالت میں تغیّرآگیا۔ماسوی اللہ کانقش دل سے محوہوگیا۔وہ سامانِ عیش تمام۔ وہ سواری عماری یک لخت چھوڑ کرلباس فاخرہ اتارکرصرف ایک چادربدن پر لے کر واپس چلے گئے۔ گوشہ تنہائی میں یادِ حق میں مشغول ہوکر شب وروز عبادت اورریاضت شاقہ میں بسرکرتے۔قائم الّیل صائم الدہر بن گئے۔زردرنگ ۔ضعیف البدن۔سراسر دَرداورشوق کی تصویرغازی قلندر کی ایک نگاہ سے واصل ہوگئے
زہے رہبرِ رہبراں خوش خرام |
کہ شاہانِ عالم بہ پیشش غلام۱؎"بلفظہٰ |
غلبہ وجد
آپ سماع سنتے تھےاورآپ کی مجلس میں اکثرحاضرین کو وجدہوتاتھا۔آپ کو بھی وجدکی حالت طاری ہوتی تھی۔وجد کے وقت آپ پر اس قدر محویت و بیہوشی غالب ہوجاتی۔ کہ مرنے تک نوبت پہنچ
جاتی دیرکے بعدہوش آیاکرتی۔استغراق آپ پر غالب ہوتاتھا۲؎۔
عملیات
تسخیرمحبوب کے واسطے
آپ سے منقول ہے کہ مجھے شیخ یحیےٰ لاہوری رحمتہ اللہ علیہ سے اس عمل کی سند حاصل ہوئی ہے کہ اگرکوئی شخص اپنے مطلوب کومسخرکرناچاہے تو چاہیئے کہ آیتِ کریمہلاالہ الاانت سبحانک انی کنت من الظّٰلمین کاایک لاکھ مرتبہ وظیفہ کرے۔ جس کا طریقہ یہ ہے۔
شب چہارشنبہ کوشروع کرے اوراپنے مطلوب کا تصوّر نظرکے سامنے رکھ کردوہزارتین سو چوہتر مرتبہ روزانہ پڑھاکرے اوراگراس قدرنہ پڑھ سکے تو ایک ہزارایک مرتبہ پڑھ لیاکرے۔ناخوردنی چیزوں سے پرہیزرکھے۔انشأ اللہ تعالےٰ چندروزمیں اُس کا مطلوب حاصل ہوجاوے گا۔
ملفوظ
تصوّف اورطریقت میں آپ کا کلام اچھاتھا۔آپ کا ارشادہے۔خداکاراستہ جلدی طے نہیں ہوسکتا۔بلکہ آہستگی اورتحمل سے کشائش احوال ہواکردتی ہے۲؎۔
۱؎بوستانِ قلندری اُردوترجمہ تذکرہ مقیمی س ۳۸۔۲؎ثواقب المناقب ۱۲۔۳؎ تذکرہ نوشاہیہ ۔
۱۲ سیّد شرافت
اولاد
آپ کے پانچ بیٹے تھے۔
۱۔سیدہیبت شاہ شہید رحمتہ اللہ علیہ
۲۔سیّد ابراہیم شاہ المعروف براہم شاہ رحمتہ اللہ علیہ
۳۔سیّد عبدالرسول رحمتہ اللہ علیہ
۴۔سیّد فقیراللہ رحمتہ اللہ علیہ
۵۔سیّد سلطان محمد رحمتہ اللہ علیہ
یاران طریقت
آپ کے خواص احباب یہ تھے۔
۱۔سیّد ہیبت شاہ شہید رحمتہ اللہ علیہ ساہنپال شریف
۲۔سیّد عبدالواسع بن سیّد فیض اللہ رحمتہ اللہ علیہ چک سادہ
۳۔چوہدری محمد خوشحال تارڑرحمتہ اللہ علیہ ٹھٹہ عثمان
مدحیات
آپ کے اوصاف میں چند نظمیں لکھی جاتی ہیں۔
(۱)
ازمرزا احمد بیگ لاہوری رحمتہ اللہ علیہ صاحبِ رسالہ الاعجاز
اے بخت سعید نیک اقبال |
وے قُرعۂ طالعت نکو فال! |
اے ہادی ِبے ریاؤ بے عیب |
اے مسندِ فقرراتوئی زیب |
حق داد چوباتوسرفرازی |
شہبازِ حقیقت و مجازی |
اے دیگِ محبّتِ تودرجوش |
وے شاہدِ مطلبت درآغوش |
دولت دادت خداؤ ہمّت |
تاباکہِ ومہِ کنی تو قسمت |
برجادۂ اب وجد نشستی |
حق دادتراچوچیرہ دستی |
احمد کہ غلام عذرخواہ است |
افتادہ بدرچوخاکِ راہ است |
(۲)
ازعلامہ شیخ محمد صداقت کنجاہی صاحب ثواقب
سعیدِ دین ودنیاقطبِ آفاق |
زیارت گاہِ جانبازانِ مشتاق |
برنگِ صبح صادق پاک دامن |
بیمنِ نان وے گرویدہ روشن |
تنورِ مطبخ آں صاحبِ ذوق |
ہمیشہ گرم چوں ہنگامۂ شوق! |
اگرقیمت بوداندرجہاں زیست |
بذوق وشوق آنجامیتواں زیست |
زبس سیلِ کرم آوردہ درجوش |
ندارد حرفِ خواہش راہ درگوش |
چوگرددبحرِ جودِ اوگُہربار |
شود کشتیِ سائل غرقِ اَوراد |
محیطِ فیض باش لنگرِ او |
کلیدِ قفلِ دل تنگی درِ او |
غلامِ طالعش اقبال گردد |
سرِ دشمن برہ پامال گردد |
فلک بردرگہش رُوبرزمیں باد |
زکشتِ بختِ سبزش خوشہ چیں باد |
(۳)
ازسیّدپیرکمال لاہوری رحمتہ اللہ علیہ صاحبِ تحائفِ قدسیہ
شدہ نورگلانِ باغِ عشاق |
بُدہ چوں مردمک باچشم مشتاق |
چناں درفقرآمدنوردیدہ |
کہ گاہے چشم کس مثلش ندیدہ |
شدہ چوں نوشۂ ثانی دریں دار |
بُد از پیرِ محمدجملہ اطوار |
نوازش کردبسیارعالمے را |
برہ آورد کافرظالمے را |
محمد آں سعیدِسعد انوار |
کہ بُد فرزندہاشم شاہ بیدار |
طفیلِ حضرتِ من گشت روشن |
کہ مے بخشید نقدو جنس و توسن |
توجہ کردد درباطن بیاراست |
بظاہر شدعروج ازمہروے راست |
چناں صیتش جہاں اندرجہاں شد |
کہ جملہ پیرزادہ مدح خواں شد |
(۴)
ازمریدنامعلوم الاسم
مرشدحقیقی ست محمد سعید نام |
درآخریں زمانہ رسیدہ بخاص وعام |
اولادِ شیخ حاجی فرزندِ ہاشمے |
درہردیارنام بلندش چوبانگِ بام |
حاتم صفت بہمت درتنگی و فراخ |
گرآں زدیں مقصّرمذہب برایں تمام |
ہرکس باعتقاد ازاں مرشدِ جہاں! |
داردامیدیابددرکارانصرام |
تاریخ وفات
سیّد محمدسعید ۱؎کی وفات بعمراکاون سال بروزسوموار انتیسویں ذیقعدہ ۱۱۳۸ھ مطابق انتیسویں جولائی ۱۷۲۶ء میں ہوئی۔
آپ کا مزارشریف گورستانِ نوشاہیہ میں اپنے والد بزرگوار کے متصل مشرقی جانب ہے۔
قطعہ تاریخ
ازحضرت سیّد حافظ محمد حیات ربّانی خلف الرشید
سیّدحافظ جمال اللہ فقیہِ اعظم برخورداری رحمتہ اللہ علیہ
بیادِ خدابوددرظَلّ بات |
دعائش مُحلِّ ازپئے مشکلات |
زجودو کرم چشمۂ فیض بُود |
بکون ومکاں برسرِ شش جہات |
مدقّق محقّق معرّف متین |
معظّم مکرّم مزید الصفات |
مؤیّد موحّد محمّد سعید |
مروّج مروّت بدارالنجات |
بدل گفتم ازسالِ وصلش بگفت |
زحاتم سخی بود۔درممکنات |
حیات ایں سخن گفت ودُر ہابُسفت |
زامدارِ ہادی خودست ایں نکات |
مادہ ہائے تاریخ
۱۔ آیت شریف اولئک لہم عقبی الدارجنّات عدن
۲۔ چشمہ معرفت
۱؎حضرت سید محمد سعید دُولارحمتہ اللہ علیہ کا مزید ذکرشریف التواریخ کی تیسری جلد موسوم بہ تذکرۃ النوشاہیہ کے دوسرے حِصّہ لطائف الاخیارنام میں بھی لکھا جائے گا۔ شرافت
(شریف التواریخ جلد نمبر ۲)