سیّد محمد سعیددُولا رحمتہ اللہ علیہ
سیّد محمد سعیددُولا رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
زہے ہادی دل محمد سعید |
کہ از لطفِ شاں خلق باحق رسید |
اوصافِ جمیلہ
آپ شہریارِ خطۂ ولایت ۔قافلہ سالارِ جادۂ ہدایت۔ناطق دقائق۔واقفِ حقائق،بزرگِ عہد۔محتشم روزگار۔صاحبِ سخاوت و شجاعت و علم ووجدوسماع وعشق و محبّت تھے۔ آپ حضرت سیّد محمد ہاشم دریادل ابن حضرت نوشہ گنج بخش علوی قدس سرہٗ کے تیسرے فرزنداور مریدو خلیفہ تھے۔
آپ کی والدہ ماجدہ خاندان علمائے ہیلاں قوم منہاس سے تھیں۔
تاریخ ولادت
آپ کی ولادت ۱۰۸۷ھ میں بمقام ساہنپال شریف ہوئی۔
مادہ ہائے تاریخ
۱۔فراخ رُو
۲۔لعل بدخشاں
۳۔خوش فعال
تعلیم
آپ نے ظاہری علم کی تحصیل اپنے والد بزرگوار اور دوسرے علمائے زمانہ سے کی۔
جدبزرگوار
قاضی رضی الدین کنجاہی رحمتہ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ جب حضرت سیّد محمد ہاشم دریادل رحمتہ اللہ علیہ کی وفات ہوئی۔تومیں اُن کے صاحبزادوں کی خوردسالی اوریتیمی سے نہایت فکرمند تھا۔ایک رات خواب میں حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی ملاقات ہوئی۔ اُنہوں نےارشاد فرمایا۔اے رضی ! کچھ غم نہ کرو۔میں خود اِن کے گھرکی محافظت اورنگہبانی کروں گا۔یہاں تک کہ محمد سعید جوان ہوکرکاروبار کو سنبھال لے گا اوربرکت وتصرّف آگے سے بھی زیادہ ہوجاوے گا۱؎۔
بیعت طریقت
آپ کی بیعت میں اختلاف ہے۔اس کے متعلق مختلف اقوال پائے جاتے ہیں۔
۱۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ آپ اپنے والدبزرگوارحضرت سیّد محمد ہاشم دریادل رحمتہ اللہ علیہ کے مرید تھے۔مگرچونکہ اُس وقت آپ پانچ سالہ بچّے تھے۔اس لیے یہ قول قرین قیاس نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ بچپن میں خلافت و اجازت کاملناصوفیائے کرام میں متعارف نہیں۔بلکہ سیّد محمد غوث گیلانی لاہوری رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب اسرارالطریقت میں نابالغ کی بیعت کو ہی سرے سے ناجائزقراردیا ہے اورمُرید کابالغ ہونابیعت کے شرائط سے قراردیاہے۔چہ جائیکہ خلافت ملنا۔
بعض افراد آپ کی بیعت آبائی کے اثبات میں یہ دلیل بیان کرتے ہیں کہ چونکہ آپ بزرگوں کی
اولاد سے تھے۔اس لیے آبائی نسبت سےفیض ہونا یا آگے اُسی نسبت سے مُرید کرنااورسلسلہ چلانا جائز ہے۔حالانکہ یہ کوئی دلیل نہیں۔محض قیاس فاسد ہے۔بلکہ صوفیائے کرام نے اِس طرح تقلیدی طورپرسلسلہ جاری کرنے سے منع کیاہے اور اس کو ناجائز قراردیاہے۔چنانچہ
حضرت مولاناشاہ فقیراللہ علوی شکارپوری رحمتہ اللہ اپنے مکتوبات شریف۔مکتوب نمبر۳۹ ص ۱۲۴ میں لکھتے ہیں۔
"جائزنیست گرفتن مریدمرمقلدرابہ آبائے خود کہ در طریقہ آبائے خود سلوک ننمودہ باشد ونشیب و فرازراہ ندیدہ باشد وفناوبقا حاصل ننمودہ باشد چہ نسبت ارادت بتعلیم و تعلم صحت مے یابدوہرگاہ تعلیم و تعلم نباشد وبمجرد پیرزادگی و صاحبزادگی تقلید آبااختیار کنندو چنانچہ رسم اہل زمانہ است سجادہ نشینی باتفاق اقربأ وعزیزاں اختیارکنندنزدِ اکابربجوے نمے خرند وازدرجہ اعتبارساقط ست ومواخذہ قیامت۔ایں امرِ خلافت مربوط بوراثت نیست منوط بکسبِ کمال ست"۔
ترجمہ:۔جس شخص نے اپنے آباؤ اجدادکے طریقہ میں سلوک طے نہ کیا ہے اوراس راستہ کے نشیب و فراز کو نہ دیکھاہو اورفناوبقا حاصل نہ کیاہو۔اس کو اپنے باپ داد کی تقلید میں لوگوں کو مرید بناناجائز نہیں۔کیونکہ مریدی کی نسبت سِکھلانے اورسیکھنےسے صحیح ہوتی ہے اورجہاں سیکھنااورسکھلاناواقع نہ ہواہو اورمحض پیرزادہ ہونے اورصاحبزادہ ہونے کی وجہ سے اپنے باپ داد کی تقلید اختیارکریں۔ جیساکہ ہمارے زمانے کی رسم ہے کہ اپنے خویش اوراقربااوردستوں کے اتفاق سے سجادہ نشین بَن جاتے ہیں۔ایسی سجادہ نشینی کی اکابر اولیأاللہ کے نزدیک ایک جَوبھربھی وقعت نہیں اور ایسی خلافت درجہ اعتبارسےساقط ہے اورقیامت کا مواخذہ باقی۔کیونکہ خلافت کا امروراثت پر موقوف نہیں بلکہ کمال حاصل کرنے پر وابستہ ہے۔
سیّد پیرکمال لاہوری رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب تحائف قدسیہ میں سیّد محمد سعیدرحمتہ اللہ علیہ کو
حضرت شیخ پیرمحمد سچیاری نوشروی رحمتہ اللہ علیہ کا مرید لکھاہےاورکہاہے کہ آپ کو ظاہری اقبال و
عروج اور باطنی مدارج و مقامات جو کچھ حاصل ہو ا۔سب حضرت سچیارکی طفیل حاصل ہوا۔ انہوں نے اپنی توجّہ سے آپ کے باطن کو آراستہ کیا
توجہ کرددرباطن بیاراست |
بظاہر شد عروج ازمہردے راست |
۳۔سیّد عمربخش بن سیّد محمد بخش رسول نگری رحمتہ اللہ علیہ نے کتاب مناقبات نوشاہیہ میں آپ کو حضرت شیخ عبدالرحمٰن پاک صاحب رحمتہ اللہ علیہ بھڑیوالہ کا مرید لکھاہے اورآپ کو ان کے خلفائے اکبریعنی بائیس صوبوں کی فہرست میں درج فرمایاہے۔
۴۔مولوی حکیم کرم الٰہی بن مولوی غلام نبی فاروقی رحمتہ اللہ علیہ ساکن بیگووالہ نے بھی گلزارفقرا میں آپ کو حضرت پاک صاحب بھڑیوالہ رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفوں میں تحریرکیاہے۔
۵۔میاں محمد بخش قادری رحمتہ اللہ علیہ ساکن کَھڑی نے کتاب تذکرہ مقیمی میں آپ کا حضرت پیراشاہ غازی قلندردمڑیوالہ قادری رحمتہ اللہ علیہ سے فیضیاب ہوناثابت کیاہے۔
بہرکیف ثابت ہوتاہے کہ آپ اکثر بزرگانِ طریقت سے مستفیض ہوئے۔
عروج واقبال
حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے ارشاد کے مطابق آپ کاعروج واقبال بڑابلندہوا۔آپ جہاں کہیں تشریف لے جاتے تو خلائق کابہت بڑاہجوم آپ کے ہمراہ ہوتا۔
پالکی نشینی
منقول ہے کہ آپ سفرپالکی میں بیٹھ کرکرتے تھے۔درویش شوق سے پالکی اُٹھاتے اورڈھول ونقارہ بھی ساتھ ہوتا۔جس طرف تشریف لے جاتے غلغلہ پڑجاتا اورزائرین و حاجت مندوں کاکوئی شمار نہ رہتا۔
فائدہ
اکثراولیأاللہ پالکی پر سوارہوتے رہے ہیں۔
۱۔خواجہ نصیرالدین محمود چراغ دہلی چوڈول پرسوارہوتے تھے۱؎۔
۲۔قاضی صاحب شاہ میانجیوکی تنبیہ کے لیے چوڈول پرسوارہوتے تھے۲؎۔
۱؎تذکرہ اولیائےہندجلدا ص۵۷۔۱۳۷ ۲؎ تذکرہ جلد ۲ ص ۳۹ شرافت
۳۔ایک مرتبہ شیخ جلال الدین تھانیسری محافہ میں سوار ہوکر جارہے تھے۔علّامہ فیضی نے دیکھ کر سوال کیا کہ خدانے حیوانوں کو سواری کے لیے پیداکیاہے۔تم انسانوں پر سوار ہوتے ہو۔انہوں نے فرمایا۔اولٰئک کالانعام بل ھم اضل سبیلاً علامہ فیضی خاموش ہوگیا۱؎۔
۴۔سیّد غریب اللہ چشتی کیرانوی ڈولی میں بیٹھ کر چلے گئے۲؎۔
۵۔حضرت مجدّد الف ثانی کو سفرمیں دیکھاگیا کہ ڈولی میں بیٹھے ہوتے تھے۳؎۔
۶۔خواجہ محمدفیض اللہ تیراہی پالکی میں سوارہوکرجہاں کہیں ضرورت ہوتی تھی۔جایاکرتے تھے۴؎۔
نشستگاہیں
منقول ہے کہ آپ جس جگہ چندروز قیام کرتے ۔وہاں معتقدین تکیہ بنالیتے اور اس جگہ پر لوگ زیارت کرتے رہتے۔چنانچہ ڈھوک نگیال۔ڈھوک جڑول کی مسجد یں آپ کے ڈیرہ کی بدولت مشہورہیں۔
دہلی کی سیر
منقول ہے کہ ایک مرتبہ آپ سیروسیاحت کرتے ہوئے شہردہلی میں تشریف لے گئے۔سلطان بہادر شاہ بن اورنگ زیب عالمگیر کاعہد حکومت تھابادشاہ نے نہایت عزت واحترام کیا اور ایک عالی شان محل کے اُوپر ڈیرہ کروادیا اورخدمات و تواضع و مہمان داری میں دقیقہ باقی نہ رکھا۔
سماع اوروجد
ایک رات عشأ کے بعد محفل سماع منعقد ہوئی آپ کی توجہ سے اکثر حاضرین کو وجدہوا۔بعض درویش غلبہ شوق سے ہُؤ کانعرہ لگاکربالاخانہ سے نیچے گرپڑے۔مگرضرب وغیرہ لگنے سے محفوظ
رہے۔یہ کرامت ملاحظہ کرنے سے بادشاہ آپ کا معتقد ہوگیا۔
۱۔تذکرہ اولیأ ہندجلد ۲ص۶۰۔ ۲؎تذکرہ اولیأہندجلد ۲ ص۱۰۷۔۳؎ زبدۃ المقامات فارسی ص ۲۰۷ ۔۴؎برکاتِ نقشبندیہ ص۶۳۔ سیدشرافت
جاگیرمتعلقہ درگاہِ نوشاہیہ کواپنے نام مقررکروانا
جوجاگیرفتح قندھار کے نذرانہ میں حضرت شاہجہاں بادشاہ رحمتہ اللہ علیہ نے مصارفِ درگاہ کے واسطے حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے حضورپیش کی تھی۔وہ نیابت و خلافت کے استحقاق میں حضورکے بڑے صاحبزادہ حضرت سیّد حافظ محمد برخورداربحرالعشق رحمتہ اللہ علیہ کو ملی اوروہ اُس پر قابض و متصرف رہے۔انہوں نے بعض وجوہات کی بناپراپنے چھوٹے بھائی سیّد محمد ہاشم دریادل رحمتہ اللہ علیہ کے سُپردکردی۔جیساکہ یہ واقعہ اُن کے حالات میں گذرچکاہے۔اُن کی وفات کے بعد سیّد محمد سعیددولا رحمتہ اللہ علیہ اس کے متولی ومختارکارہوئےاوراُس کی آمدن فریقین میں باقاعدہ تقسیم کرتے رہے۔۱۱۲۰ھ میں آپ کو دہلی جانے کا اتفاق ہوا۔بادشاہ آپ کا معتقد ہوگیا۔اُس دَوران میں آپ نے جاگیردرگاہ کو اپنے نام مقرر کروالیا اور تمام اُمرأووزرأ کے دستخطوں اورمُہروں سے تصدیق کرواکرفرمانِ شاہی اپنے نام لکھوالیا۔چنانچہ اُس فرمان کی لفظ بلفظ جقل یہ ہے۔
فرمانِ اوّل
"شرح یادداشت واقعہ بتاریخ روزدوشنبہ بیست و چہارم جمادی الآخر ۲ ۱؎دوجلوس مبارک موافق ۱۱۲۰ھ مطابق ۱۸ شبرثورماہ برسالہ اعتضاد خلافت وفرمانروائی۔اعتمادِ سلطنت و کشورکشائی۔ممہدِ قواعدِ معدلت۔منظمِ امورِ خلافت۔عقدہ کشائےمعاقدِ دین و دولت سپہ آرائے معارکِ فتح و نصرت۔ گنجورِ اسرارِ بادشاہی۔دانائے ضمیرِ ظلِّ الٰہی۔انجمن پیرائے محفلِ خلیفہ۔منتخب نسخۂ دانش و بینائی۔صاحبِ رائے عالم آرائی۔دستورِ وزرائے ممالکِ نامدار برہان وکلائے ذوی الاقتدار۔صاحب الشوکتہ والعظمتہ والاحتشام۔واجب العزوالشرف والاحترام۔قدوۂ خوانینِ بلندمکان۔عمدۂ امرائے عظیم الشان۔رکن سلطنت العلیہ۔نظام الملک آصف الدولہ۔
۱؎مطابق ۳۰ اگست ۱۷۰۸ء۔شرافت
وبمعرفت مؤتمن الدولتہ العلیہ۔معتمدالسلطنتہ البہیہ۔عمدۂ امرائے رفیع الشان۔زبدۂ خوانین بلند مکان۔ناظمِ مناظِم ملک ومال۔ناہِجِ مناہجِ دولت واقبال ۔صاحب السیف والقلم رافع اللوأ ۔وزیرِ صائبِ تدبیریکرنگ۔جملتہ الملک مدارالمہام خانخاناں ظفرجنگ وفادار۔
ونوبت واقعہ نگاری فدوی درگاہِ آسمان جاہ میرمحمد قلی خاں میکرد وحکم والاصادرشدکہ موضع ٹھٹہ
عثمان وبادشاہ پورفتاعملہ پرگنہ ہرات ازتپہ رسول پورہیلاں صوبہ پنجاب دروجہ انعام التمغامہ
فرزنداں جہت خرچ درگاہ حضرت شیخ حاجی محمد وفضلا بشیخ محمد سعید نبیرہ حضرت مذکورمرحمت
فرمودیم واقعہ ۱۹ جمادی الآخرۃ ۲ جلوس مبارک۱؎ بموجب تصدیق یادداشت قلمی شد۔
شرح دستخط امارت وامانت پناہ۔بسالت وشہامت دستگاہ۔عمدۂ فدویانِ عقیدت نہاد۔زبدۂ مخلصانِ با اعتقاد۔منظورِ نظرِ بادشاہی۔موردِ الطاف نامتناہی۔مبطِ اعطافِ بیکرانِ۔خانہ زادِ شجاعت۔ صمصام الدولہ بافرہنگ۔بخشی الملک امیرالامرأ بہادرنصرت جنگ۔نائبِ اعتضادِ خلافت وفرماں روائی۔ اعتمادِ سلطنت و کشورکشائی۔ممہدِ قواعدِ معدلت۔منظمِ امور ِخلافت۔عقدہ کشائےمعاقدِدین و دولت۔سپہ آرائے معارکِ فتح ونصرت۔گنجورِاسرارِ بادشاہی۔دانائے ضمیرِ ظلِ الٰہی۔ انجمن پیرائے خلیفہ۔منتخب نسخئہ دانش و بینائی۔صاحب رائے عالم آرائی۔دستورِ وزرائے ممالکِ نامدار۔ عمدہ وکلائے ذوی الاقتدار۔صاحب الشوکتہ والعظمتہ والاحتشام۔واجب العزوالشرف والاحترام۔ قدوۂ خوانین بلندمکان۔عمدۂ امرائے عظیم الشان۔رکن السلطنتہ العلیہ۔نظام الملک آصف الدولہ۔ آنکہ داخل واقعۂ نمائید۔
شرح دستخط مؤتمن الدولتہ العلیہ ۔معتمد السلطنتہ البہیہ۔عمدہ امرائے رفیع الشان۔زبدۂ خوانینِ بلند
مکان۔ناظمِ مناظِم ملک ومال۔ناہجِ مناہجِ دولت واقبال۔صاحب السیف والقلم۔رافع اللوأ والعَلَم۔ وزیرِ صائب تدبیریکرنگ۔جملتہ الملک مدارالمہام خانخاناں بہادرظفر جنگ وفادار۔آنکہ داخلِ واقعہ نماید۔
شرح دستخط واقع نویس آنکہ مطابق واقعہ است۔
شرح دستخط صمصام الدولہ بافرہنگ۔بخشی الملک امیرالامرأ بہادرنصرت جنگ نائب رکن السلطنتہ العلیہ نظام الملک آصف الدولہ آنکہ صادست۔
شرح دستخط عمدہ امرائے رفیع الشان وزیرصائب تدبیر یکرنگ جملتہ الملک مدارالمہام خانخاناں بہادر ظفرجنگ وفادارآنکہ بعرض مکرررساند۔
شرح دستخط قابل التربیت۔لائق الاحسان اخلاص خاں آنکہ غرہ رجب ۲ دوجلوس ۲؎والامکرر بعرضِ
مقدس رسید۔
شرح دستخط صمصام الدولہ بافرہنگ۔بخشی الملک امیرالامرأبہادرنصرت جنگ نائب رکن السلطنتہ العلیہ نظام الملک آصف الدولہ آنکہ فرمانِ عالی شان قلمی نمایند۔
اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ |
المتوکل علی اللہ البارمحمد |
مُہر یاقاضی الحجات مُہر قاضی معزالدین انصار
افضل الذکرلاالٰہ الا قاضی رئیس بن سنہ احد
۱؎مطابق بدھوار۔۲۵اگست ۱۷۰۸ء۔شرافت
۲؎مطابق اتوار۔۵ستمبر۱۷۰۸ء یہ فرمان اصل۔صاحبزادہ الطاف حسین بن سید فضل حسین برخورداری ساکن ساہنپال شریف کے گھرمیں موجودہے۱۲۔سیّد شرافت
فرمانِ دوم
"دریں وقت میمنت اقتران فرمانِ والاشان واجب الاذعان صادرشدکہ موضع ٹھٹہ عثمان وغیرہ در
بست متعلق پرگنہ ہرات صوبہ پنجاب بجمع یک لک وسیزدہ ہزارویک صدوشست دام کہ دوہزار وہفتا دویک روپیہ حاصل آنست دروجہ انعام بطریق التمغا جہت صرف درگاہ حضرت شیخ حاجی محمد و فضلا بشیخ محمد سعید نبیرہ شیخ حاجی محمد مذکورمعہ فرزندان ازخریف سچقان ئیل حسب الضمن مقرر باش۔ بائیدکہ فرزندانِ کامگاروالاتبار و امرائے عالی مقدارومتصدیان مہمات وجاگیرداران و کروڑیانِ حال و استقبال مواضع مسطور جہتِ صرف درگاہ وغیرہ مرقوم بتصرف شیخ محمد سعید نسلاً بعد نسل و بطناً بعد بطنِ بازگذارندوازجمیع وجوہ و عوارض معاف و مرفوع القلم شمارندواندریں باب ہرساں سندِ مجدد نطلبند بیست و دوم شہررجب المرجب سالِ دوم از جلوس نوشتہ شد۱؎ (۱۱۲۰ھ۔اتوار۲۶ ستمبر ۱۷۰۸ء)
۱؎یہ فرمان اصل صاحبزادہ الطاف حسین بن سید فضل حسین برخورداری ڈھلوالہ کے گھرمیں موجود
ہے۔
جاگیرپر قبضہ
جب آپ نے ۱۱۲۰ھ مطابق ۱۷۰۸ء میں بعہدسلطان بہادرشاہ بادشاہ جاگیر کو اپنےنام کروالیا۔تواس پرخود قابض ہوگئے اوراپنے برادرانِ عم زاد یعنی اولادِ حضرت سیّد حافظ محمد برخوردار رحمتہ اللہ علیہ کو اس کے حصّہ سے جواب دے دیا۔اورعرصہ دس سال تک اُن کو کچھ نہ دیا۔ حتیٰ کہ حضرت سیّد شاہ عصمت اللہ حمزہ پہلوان فرزندِ حافظ محمد برخورداررحمتہ اللہ علیہ نے بعہد سلطان فرخ سیربادشاہ ۱۱۳۰ھ مطابق ۱۷۱۸ء میں عدالت عالیہ میں دعویٰ دائرکردیا۔چنانچہ نواب قطب الملک کے حکم سے سیدمیرمنصبدار نراول تقسیم بمعہ نائب ناظم صوبہ کے چک ساہنپال میں آئے اورفریقین کو نصفانصف حِصّےمقررکردئیے۔اس وقت سیّد محمد سعیددُولارحمتہ اللہ علیہ نے مندرجہ ذیل اقرارنامہ لکھ کراپنے خود متصرف ہونے اوربرادرانِ عم زاد کو حِصّہ سے محروم کردینے کا اعتراف کیااورآیندہ کے لیے صلح کرلی اوراقرارکیاکہ اس سے پہلے جو کچھ میں جاگیرمیں سے کھا چکا ہوں ۔وہ برادرانِ عم زادکوعندالطلب اداکردوں گا۔کوئی عذروحیلہ نہ کروں گا۔اگرچہ یہ اقرار نامہ طبقہ دوم میں حضرت سیّد شاہ عصمت اللہ رحمتہ اللہ علیہ کے ذکر میں درج ہوچکاہے۔ لیکن تسلسل مضمون کے لحاظ سے یہاں بھی اس کا تحریرکرناموزون ہے۔لہٰذا تحریرکیاجاتاہے۔
(شریف التواریخ جلد نمبر ۲)