آپ سیّد فیض اللہ بن سیّد صالح محمد چک سادہ والہ رحمتہ اللہ علیہ کے بڑے بیٹے اورمریدو خلیفہ و سجادہ نشین تھے۔
فضائل
آپ صاحب علم و فضل مقتدائے روزگار،اہل شریعت و طریقت تھے۔ ہزاروں مخلوق آپ کے فیض سے سیراب ہوئی۔خوارق و کرامات آپ سے ظاہر ہوتی تھیں۔ مستجاب الدعوات تھے۔حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی پیشگوئی کے مطابق ولی کامل ہوئے۔
بھائی پرجان فداکرنا
منقول ہے کہ آپ کے چھوٹے بھائی سیّد عبدالواسع ایک مرتبہ اس قدر بیمار ہوئےکہ زندگی کی اُمید منقطع ہوگئی۔والدہ ماجدہ رونے لگیں۔آپ نے ان کا اضطراب دیکھ کرکہا۔ مائی صاحبہ۔آپ کو عبدالواسع کی محبت کافی ہے۔اوراس کی جدائی آپ کو سخت ہے۔اس لیے اُس پر میں اپنی جان فداکرتاہوں۔یہ کہہ کرآپ چارپائی پر لیٹ گئےاورجان بحق تسلیم کی اور سیّد عبدالواسع اُسی وقت اٹھ بیٹھےاورعرصہ دراز تک زندہ رہے۔
وفات کے بعد زندہ ملنا
آپ نے اپنی وفات کے وقت اپنی اہلیہ کوفرمایاکہ تم ہماراسوگ نہ کرنا۔ہم تم کو زندہ ملتے رہیں گے۔چنانچہ وہ ہمیشہ لباس اچھا رکھتیں اور جمعرات کو آپ بجسدہٖ زندہ آکر اُن کی ملاقات کیاکرتے۔آخر اُن سے راز فاش ہوگیا۔تو پھرگاہ بگاہ آتے۔
نور کامشاہدہ
حاجی پیر معصوم شاہ سجادہ نشین دَورِ حاضرہ بیان کرتے ہیں کہ کئی مرتبہ اب بھی اُس کمرہ میں جہاں آپ کا انتقال ہواتھانورکے شعلےنمودار ہوتے ہیں۔چنانچہ ایک مرتبہ ہم ۲۶ رمضان کوسحری کے بعد مصلّا پر بیٹھے تھےکہ ایک نور کاشعلہ سبزرنگ دروازہ سے داخل ہوا۔پھر بلند ہوتاہوااُس کمرہ میں چلاگیا۔صبح صادق تک رہاپھر غائب ہوگیا۔
قبر کا فیض
پیر صاحب موصوف بیان کرتے ہیں کہ اب تک آپ کی یہ کرامت ظاہر ہے۔کہ اگرکوئی گائے بھینس دودھ نہ دے۔ضد کرے۔تولوگ آپ کی قبر پر دودھ چاول کی نذر مانتے ہیں تووہ ٹھیک ہوجاتی ہے۔
آپ دنیاسے لاولد فوت ہوئے۔
تاریخ وفات
سیّد محمد ظریف کی وفات ۱۱۲۳ھ میں ہوئی۔قبر روضہ شریف سیّد صالح محمد کے اندرہے۔
قطعہ تاریخ
حضرتِ فخرالزماں محمد ظریف
|
سرورِ دیں پیر ماشاہِ جہاں
|
چوں بجنت رفت شاہ معصوم گفت
|
وصلِ ایشاں۔پیرافضل ۔شدعیاں
|
مادہ ہائے تاریخ ۱۔آیت شریف رضوان اللّٰہ ۲۔بحر فیض پاک
(سریف التوایخ جلد نمبر ۲)