مفکر اسلا م علامہ سید دمنتخب الحق قادری
مفکر اسلا م علامہ سید دمنتخب الحق قادری (تذکرہ / سوانح)
مفکر اسلام ، استاد العلماء والفضلاء ، حضرت علامہ سید منتخب الحق قادری بن سید نور الحق ۱۰، جون ۱۹۱۴ء کو گورکھ پور (یو۔ پی ) ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔ والدین کم سنی میں ہی داغ مفارقت د ے گئے ۔ محترم چچا نے تربیت و تعلیم کی ذمہ داری نبہائی یہی چچا بعد میں آپ کے سسر بھی بنے ۔
تعلیم و تربیت :
تعلیم کا آغاز اپنے علاقہ سے کیا۔ مختلف علماء و مدارس سے تعلیم حاصل کی۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے اجمیر شریف ( انڈیا ) کی نامور دینی درسگاہ ’’دارالعلوم عثمانیہ معینیہ ‘‘ سے رجوع کیا۔ جہاں علامۃ الہند مولانا الحاج معین الدین اجمیر ی کی خدمت میں رہ کر علوم عقلیہ و نقلیہ میں سیراب ہوئے۔ آپ کا شمارہ علامہ اجمیری کے نامور و قابل فخر تلامذہ میں ہوتا ہے۔ علامہ اجمیری نے اپنے ہونہار شاگرد مولانا قادری کی استدعا پر ذبیحہ سے متعلق ایک فتویٰ جاری فرمایا جو کہ عرصہ دراز کے بعد ‘‘ اولیاء اللہ کے ایصال ثواب کے لئے مقرر کر دہ ذبیحہ حلال ہے‘‘ کے نام سے بصورت رسالہ رضا اکیڈمی لاہور نے ۱۹۹۱ء میں شائع کیاہے۔
خدمات:
۲۸ جولائی ۱۹۴۷ء کو پاکستان آئے اور وفاقی گورنمنٹ اردو کالج میں لیکچرار کی حیثیت سے منسلک ہوگئے۔ بعد ازاں ملک کی سب سے بڑی یونیورسٹی ’’جامعہ کراچی‘‘ میں پروفیسر کے عہدے پر فائز ہوئے پہلے عربک ڈیپارٹمنٹ سے متعلق تھے پھر شعبہ اسلامیات میں تدریس اور تعلیمی خدمات انجام دیں۔
جولائی ۱۹۶۳ء میں کراچی یونیورسٹی کے اس وقت کے عظیم شیخ الجامعہ ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کی مساعی جمیلہ سے جامعہ میں ایک مستقل فیکلٹی ’’کلیہ معار ف اسلامیہ‘ ‘ کے نام سے وجو دمیں آئی اور اس کے سب سے پہلے ڈین (سربراہ) حضرت مولانا سید منتخب الحق صٓحب قادری ہی مقرر ہوئے آپ تقریباً دس سال تک اس شعبے کے رئیس رہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن دارلعلوم قادریہ (المرکز القادری) کے پرنسپل اور تا دم زیست دارالعلوم قمر الاسلام سلیمانیہ (پنجاب کالونی) کراچی کے شیخ الحدیث کے منصب پر فائز رہے۔ اس طویل عرصے میں سینکڑوں طلباء نے اکتساب فیض کیا اج بھی کراچی کے اکثر کالجوں میں اسلامیات کے لیکچرار آپ ہی کے تلامذہ ہیں۔ آپ نے درالعلوم امجدیہ ، دارالعلوم قادریہ اور تادم آخر دار العلوم قمر الاسلام سلیمانیہ میں دینی علوم پڑھائے۔
علامہ سید منتخب الحق صاحب قادری علمی اور ادبی حلقوں میں بے حد مقبول اور معروف تھے۔ جن لوگوں نے ان سے استفادہ کیا ہے وہ دل و جان سے ان کی تمام بیکراں عظمتوں کے قائل ہیں۔ وہ بیک وقت ایک مستند عالم دین، بے بدل مدرس ، اصول فقہ کے بے مثل معلم، منطق و فلسفہ کے ماہر، تفسیر و حدیث کے عارف، منفرد اسلوم کے حامل ادیب، شیریں بیاں خطیب ِ خوش کلام شاعر ، وسیع المطالعہ زبردست نقاد، مشہور مذہبی اسکالر اور بہت کچھ تھے یعنی کسی نے انہیں کیلئے کہا تھا :
تیرا وجود فخر نظام حیات ہے
تو محض ایک ذات نہیں کائنات ہے
بیعت و خلافت:
آپ سلسلہ عالیہ قادریہ میں حضرت سید عبدالقادر گیلانی بانی المرکز القادریہ کراچی سے دست بیعت تھے (بروایت جناب شہر یار قدوسی صاحب )
شاعری:
شاید بہم کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہو کہ تفسیر ، حدیث ، فقہ ، منطق، فلفسہ، علم جعفر، رمل اور ادب کا یہ جلیل القدر عالم نہایت سادہ اور پاکیزہ شاعرانہ ذوق بھی رکھتا تھا ۔ گو ان کا کوئی مجموعہ کلام بھپا تو نہیں تاہم دوران تدریس موقع محل کی مناسبت سے جہاں وہ با کمال شعراء کے خوبصورت شعروں سے اہل مجلس کو محظوظ کرتے وہاںکبھی کبھی اور کہیں کہیں اپنے عام فہم اور دلنواز اشعار سے بھی نوازتے ۔ یہ بات ان کے تلامذہ خوب جانتے ہیں اور بہت کم شاگردوں کے پاس ان کے متفرق اشعار نوٹ ہیں۔
تصنیف و تالیف:
مجھے انتہائی افسوس ہے کہ انہیں تادم آخر حالات نے اجازت نہ دی کہ وہ عظیم اور ضخیم علمی و تحقیقی تصنیف یادگار چھوڑتے ۔ ان کے وصال سے علم کا گنج گرانمایہ منوں مٹی تلے دفن ہوگیا۔ ان کے مضامین میں کتابچے، تقریظات اور حج پر لکھی ہوئی پی آئی اے کے زیر اہتمام چھپی ہوئی کتاب پڑھ کر آپ ان کے طرز تحریر کی خوبویوں کو خود بخود تسلیم کریں گے ۔
آپ نے زندگی کے آخری سالوں میں محترم حکمت اللہ صدیقی پیامی مراد آبادی کی تصنیف ’’سعی اتحاد‘‘ پر تقریظ رقم فرمائی اس کتاب میں نبی اکرم ﷺ کا علم غیب حاضر و ناظر ، میلاد النبی ، وسیلہ ، جسمانی معراج، تعظیم و عظمت رسول ﷺ کو ٹھوس دلائل سے ثابت کیا ہے۔
آپ لکھتے ہیں ’’محترم پیامی صاحب کی نوازش سے مجھے ان کی تصنیف کردہ کتابچے ’’سعی اتحاد‘‘ کے مطالعے کی سعادت حاصل ہوئی اور اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ اس کی دلچسپی کی وجہ سے ایک ہی نشست میں اس کے متعدد ابواب انہماک کے ساتھ پڑھتا چلا گیا۔ اختلافی مسائل کو اس حسن و خوبی سے بیان کرنا بہت بڑی توفیق الٰہی ہے۔ پیامی صاحب نے اپنی کتاب میں اس امر کی پوری پوری کوشش کی ہے کہ دلیل و برھان کو قائم کرنے میں قرآن کریم کا دامن ہاتھ سینہ چھوٹنے پائے اور اس سلسلے میں انہوں نے ہمارے زمانے کے مشہور متکلم مولانا حافظ محمد ایوب علیہ الرحمۃ کے طرز استدلال سے بھر پور کام لیا ہے۔ (سعی، اتحاد مطبوعہ کراچی ۱۹۸۷ئ)
اولاد:
آپ کو ۷ صاحبزادیاں اور دو صاحبزادے تولد ہوئے۔ چھوٹے صاحبزادے کا نام سید نعمان الحق اور بڑے صاحبزادے کا نام سید حسان الحق ہے یہ شادی شدہ ہیں اور امریکہ میں ملازمت کرتے ہیں۔ پروفیسر صبیحہ قادری گورنمنٹ کالج برائے خواتین میں شعبہ اسلامیات میں تدریسی فرائض انجام دیتی ہیں اور پی ٹی وی پر بھی کئی بار دینی پروگرام میں تشریف لا چکی ہیں۔ آپ کی صاحبزادی ہیں۔
تلامذہ:
چند معروف تلامذہ کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں:
٭ پروفیسر علامہ حافظ محمود حسین صاحب صدیقی چیر مین سیر ت چیئر جامعہ کراچی
٭ پروفیسر ڈٓکٹر عبدالرشید
٭ جسٹ س ڈاکٹر تنزیل الرحمن (کراچی) چیرء مین اسلامی نظریاتی کونسل آف پاکستان)
٭ علامہ مختار احمد قادری صدر مدرس دارالعلوم امجدیہ کراچی
٭ مولانا محمد صحبت خان کوہاٹی مدرس دارالعلوم قمر الاسلام سلیمانیہ کراچی
٭ صاحبزادہ امین الحسنات بھیروی مہتمم دارالعلوم محمدیہ غوثیہ بھیرہ ضلع سرگودھا
٭ مولانا غلام مصطفی ہزاروی خطیب جامع مسجد مینارہ ، صدر کراچی
٭ حاجی دوست محمد فیضی صاحب سابق صوبائی وزیر سندھ و مشیر گورنر سندھ
٭ حافظ محمد تقی صاحب سابق رکن قومی و صوبائی اسمبلی سندھ
٭ مولانا حافظ احمد بخش صاحب ایم ۔ اے
٭ مولانا محمد طاہر کلہوڑو بخشی غفاری سجادہ نشین الہ آباد کنڈیارو
٭ مفتی ولی حسن ٹونکی دیوبندی دارالعلوم بنوری ٹائون کراچی
٭ مولانا سعید الرحمن لیکچرار اسلامیہ کالج کراچی
وصال:
شیخ الحدیث حضرت علامہ محمد منتخب الحق قادری کا ۲۹ مئی ۱۹۸۸ء بمطابق ۱۳ شوال ۱۴۰۸ھ بروز اتوار ۷۵ سال کی عمر میں سہ پہر ۴ بجے امراض قلب کے قومی ادارے میں انتقال ہوگیا۔ دھڑکتے دل، کانپتے ہاتھوں اور چھلکتی آنکھوں سے ہم نے جنازہ اٹھایا دارالعلوم قادریہ (گلشن اقبال حسن اسکوائر) آئے۔ استاد العلماء مفتی ٖطر علی نعمانی صاحب مہتمم دارالعلوم امجدیہ کراچی نے نماز جنازہ پڑھائی۔ پھر سفر آخرت عقیدتوں اور محبتوں، آہوں اور آنسوئوں، حسرتوں اور نا امیدیوں کے ساتھ کراچی یونیورسٹی کے قبرستان کی جانب شروع ہوا۔ شہر خاموشاں پہنے تو تدفین سے قبل آخری دیدار کیلئے آپ کے صاحبزادے سید حان الحق نے چہرہ انور سے کفن کا کپڑا اٹھایا، وہ بالکل تر و تازہ تھے، پیشانی اقدس پر یوں محسوس ہورہا تھا، شبنم کے قطرے ہیں، چہرہ مبارک بہت صاف صاف ، خوبصورت اور حسین لگ رہا تھا لبوں پر مسکراہٹ کھیل رہی تھی۔
علم کی شمع کو روشن جو کیا کرتے ہیں
زندہ رہتے ہیں ہمیشہ وہ کہاں مرتے ہیں
(ماخوذ شعلۂ آواز)
جناب صابر براری (کراچی) نے قطعہ تاریخ کہا
منتخب صاحب بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئے
تھے وہ عالم اور فاضل خوش بیاں و خوش کلام
ان کے سب شاگرد ہیں خدمات دیں میں منہمک
اسی طرح جاری رہے گا ان کا یہ فیض دوام
پائیں وہ تبلیغ دین حق کا یہ اجر جزیل
ان کی تربت پہ ہو یارب نور کی بارش مدام
سال رحلت ان کا اے صابرؔ ملا ہے غیب سے
اب ہیں جنت میں جناب منتخب والا مقام ۱۹۸۸
(انوار علماءِ اہلسنتِ سندھ)