مولانا پیر سید نجی اللہ شاہ راشدی
مولانا پیر سید نجی اللہ شاہ راشدی (تذکرہ / سوانح)
پیر طریقت حضرت مولانا سید نجی اللہ شاہ بن حضرت مولانا پیر سید نور الحق شاہ راشدی ۲۶ ، جون ۱۸۹۳ئ؍ ۱۴، صفر ۱۳۱۳ھ درگاہ پیر جو کوٹ ( نور آباد) نزد و گن ( تحصیل وارہ ضلع لاڑکانہ سندھ ) میں تولد ہوئے۔ مولانا پیر سید نور الحق شاہ کے روحانی فیض کی چمک سندھ کے علاوہ بلوچستا ن تک پھیلی ہوئی ہے خود خان آف قلات بھی ان کے خاص معتقد تھے۔
تعلیم و تربیت:
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد ماجد سے حاصل کی اس کے بعد علاقہ کے مختلف علماء کی خدمات حاصل کی۔ مولانا کریم داد چانڈیو، مولانا غلام عمر چانڈیو(گوٹھ قائم خان تحصیل قمبر) اور گڑھی محمد حسن کرٹیہ کے مدرسہ میں بھی تعلیم حاصل کی۔ مولانا غلام رسول عباسی (مہتمم مدرسہ دارالفیوض متصل اللہ والی مسجد لاڑکانہ شہر) سے بیڑو چانڈیو میںمولانا سید محمد حسن شاہ عودی (سکھر) سے اور آخر میں مولانا میر محمد جاگیرانی (نورنگ واہ تحصیل قمبر) سے بقیہ کتب پڑھ کر فارغ التحصیل ہوئے۔ بعد فراغت مدرسہ دار الرشاد درگاہ شریف یر صاحب جھنڈہ دھنی سے دورہ حدیث کیا۔
بیعت:
اپنے والد ماجد سے سلسلہ عالیہ قادریہ میں بیعت ہوئے ان کے انتقال کے بعد شیخ طریقت حضرت مولانا سید احمد خالد شامی علیہ الرحمۃ (مدفون بمبئی) کے ہاتھ پر سلسلہ شاذلیہ میں بیعت ہوئے۔
تصنیف و تالیف:
پیر نجی اللہ شاہ نے ۱۴ گھنٹے روزانہ کے حساب سے تقریباً ساٹھ برس تک مطالعہ کیا آپ نے وسیع کتب خانہ جمع کیا تھا۔ کتب بینی اور تصنیف و تالیف ان کا محبوب مشغلہ تھا ۔ ان کی چند قلمی تالیفات کے نام درج ذیل ہیں۔
٭ عدیم المثل سندھی شعراء کا کلام جمع کیا گیا
٭ عدیم النظیر مختلف فارسی شعراء کا کلام جمع کیا گیا
٭ تہذیب الرجال فی خیر الخصال، چار جلدیں ، چار ہزار صفحات پر مشتمل
٭ ایھا العلماء الخیر ۔ ایھا العلماء السوئ۔ ایھا الامرائ۔ ایھا الغربائ۔ ایھا المساکین
ان کتابوں میں قرآن و احادیث اور اقوال سلف صالحین کے موضوع کے مطابق ماد جمع کیا گیا ہے ترتیب و تسہیل کا کام باقی تھا کہ پیر صاحب کا انتقال ہو گیا۔
شادی و اولاد:
آپ نے تین شادیاں اپنے ہی خاندان میں کیں ان میں سے چھ بیٹے تولد ہوئے۔
سید صفی اللہ مرحوم۔ سید محمد راشد شاہ۔ سید اقبال احمد شاہ۔ سید عصمت اللہ شاہ۔ سید والی اللہ شاہ۔ سید کلیم اللہ شاہ
عقیدت:
سالانہ رجبی شریف کے موقع پر درگاہ عالیہ راشدیہ پیران پاگارہ حاضری دیتے تھے۔ حضرت شاہ مردان شا اول پیر صاحب کوٹ دھنی، حضرت سید صبغت اللہ شاہ شہید اور موجودہ پیر صاحب پگارو تینوں کے دور دیکھے اور برابر ہر سال معراج النبی ﷺ کے اجتماع میں شرکت فرماتے تھے اور درگاہ عالیہ مشوری شریف بھی کئی بار شرکت فرمائی حضرت فقیہ اعظم خواجہ محمد قاسم مشوری قدس سرہ سے نہایت عقیدت رکھتے تھے اور ان سے شرعی فتویٰ حاصل کرتے رہتے تھے۔
عادات و خصائل:
پیر صٓحب کم بولنا کم کھانا اور کم سونا کے اصول پر عمل پیرا تھے۔ مستجاب الدعوات تھے۔ محترم امام راشدی رقمطراز ہیں: پیر صاحب مجلس کے دلدادہ تھے ان کی محفل میں قرآن و سنت تصوف اخلاقیات و مسائل فقہ کی باتیں ہوتی تھیں۔ آپ کی محبت سے لبریز باتیں سن کر حاضرین بہت لطف اندوز ہوتے اور روحانی سرور پاتے۔ مریدین و معتقدین آپ کے صحبت با فیض سے دلوں کو منور کرتے۔ آپ کی تمام عمر یاد الٰہی اور عشق رسول ﷺ میں بسر ہوئی۔ وہ فرماتے تھے کہ قرب و محبت غریب و امیر سے ہے لیکن دوستی زندگی بھر علماء سے کی ہے ۔ جن کی نہ صرف قدر کرتا ہوں لیکن ان کی خدمت بھی کی ہے۔ وہ زندگی پر کبھی بھی افسردہ نہیں رہے وہ فرماتے تھے کہ جس انسان نے اپنی زندگی دنیا داری اور نفس پرستی میں بسر کی وہ مرتے دم تک اپنے کھوئے ہوئے وقت پر افسوس کرتا ہے (روزنامہ جنگ کراچی) جسم ضعیف نحیف ، داڑھی شریف سفید، سر پر عمامہ، کرتہ پر واسکوٹ پہنتے تھے جس کی جیب میں گھڑی رکھتے تھے گھڑی کلائی پر نہیں باندھتے تھے۔
تلامذہ:
آپ نے نامور شاگرد دج ذیل ہیں:
٭ مولوی جان محمد عباسی وہابی( نائب امیر جماعت اسلامی)
٭ سید صفی اللہ شاہ راشدی
٭ سید محمد راشد شاہ
٭ سید اقبال احمد شاہ
٭ سید عصمت اللہ شاہ اور آپ کے پوتے
٭ سید نور الحق شاہ بن سید محمد راشد شاہ
٭ مولوی محمد خان بن مولانا محمد قاسم کلہوڑو (تحصیل قمبر) وغیرہ
وصال:
مولانا پیر سید نجی اللہ شاہ راشدی نے ۳۱ جنوری ۱۹۸۴ئ/ ۱۴۰۴ھ بوقت نماز فجر تسبیح درود پڑھتے ہوئے انتقال کیا۔ اسی روز بعد نماز طہر نماز جناز ہ ادا کی گئی۔ فقیہ اعظم شیخ المشائخ غوث الزمان تاج العافرین حضرت علامہ مفتی خواجہ محمد قاسم مشوری قدس سرہ نے امامت کے فرائض انجام دیے۔
آپ کی آخری آرامگاہ درگاہ پیر جو کوٹ (متصل وگن ضلع لاڑکانہ) میں مرجع خلائق ہے۔ جہاں ہر سال عرس مبارک کی محفل منعقد ہوتی ہے۔ جس میں مریدین معتقدین و احباب کی کثیر تعداد شرکت کرتی ہے۔ چہلم کے موقع پر علماء و مشائخ و سادات نے آپ کے تیسرے صاحبزادے محترم سید اقبال احمد شاہ راشدی صاحب کو سجادہ نشین مقرر کیا جس کی رسم دستار فضیلت ہوئی۔
[آپ کے پوتے نور الحق شاہ راشدی صاحب نے مواد مہیا کیا۔]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)