سیّد نظام الدین رحمتہ اللہ علیہ
سیّد نظام الدین رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
آپ سیّد سبحان علی بن سیّد خان عالم ہاشمی رحمتہ اللہ علیہ کے دوسرے بیٹے تھے۔خلافت و اجازت سیّد قدم الدین بن سیّد عزیزاللہ ہاشمی رحمتہ اللہ علیہ سے حاصل تھی۔
صفات ِحمیدہ
آپ علم ظاہری و باطنی میں یکتاتھے۔آپ متبرک وجود،اوصافِ حمیدہ رکھنے والے تھے۔اگرآپ کو "ہاشم دریادِل ثانی"کہاجاوے تو غلط نہ ہوگا۔آپ اپنے پیرِ روشن ضمیر کے شیدااورفرمانبردارتھے۔برگزیدہ درگاہِ سبحان صاحب علم و زہدو تقدس تھے۔
اورادوظائف
آپ تلاوت قرآن مجید فرماتے۔اعلیٰ درجہ کے قاری تھے۔تہجّد اور نماز پنجگانہ کے پورے پابندشریعت و طریقت کا اتباع لازم سمجھتے تھے۔
غیبی علاج
منقول ہے کہ ایک دفعہ آپ تہجد کے بعد مصلّےٰ پربیٹھ کر یادِ الٰہی کررہے تھے۔ کہ زمین کو سخت زلزلہ آیا۔آپ ایک پہلوکے بل گرپڑے۔دردپہلو شروع ہوگیا۔بڑے علاج کئے ۔مگرکچھ فائدہ نہ ہوا۔اِ سی طرح تکلیف میں پوراسال گذرگیا۔اتفاق ایساہواکہ پھراسیطرح ایک دن آپ تہجّد کے وظائف کررہے تھے کہ بھونچال آیا آپ دوسرے پہلو پر گرپڑے۔اسی وقت آپ کا درد جاتارہا۔
رعب وجلالیت
آپ کا چہرہ مبارک بارعب تھا۔صاحب جلالیّت تھے۔کوئی شخص نظر اٹھا کر آپ کی طرف دیکھ نہ سکتاتھا۔ایک مرتبہ ریاست جمّوں کے راجہ کی سواری آرہی تھی۔جب آپ کے پاس سے گذراتوچہرہ انورکو دیکھ کر سوارنہ رہ سکا۔بے ساختہ گھوڑے سے اترکرپیادہ ہوگیا۔
امربالمعروف
منقول ہے کہ ایک بار آپ بیلہ شاہ نواز ریاست جمّوں میں تشریف لے گئے۔ مسجد میں نماز پڑھ کر بیٹھے ہوئے تھے۔کہ اسکندرال کا رئیس فوجی لباس سےملبوس اور مسلح بمعہ اپنے نوکروں کے آیااوروضوکرکے ہتھیاروں سمیت نماز پڑھنی شروع کی۔جب سجدہ کرنے لگا۔ تو آپ نے سَر سے پکڑکر اُوپراُٹھالیااورفرمایا۔بھائی تم ہتھیار لے کر خداتعالےٰ سے جنگ کرنی چاہتے ہو۔یا نماز پڑھنے کا خیال ہے۔اُس کے ملازم خوف کے مارے کانپنے لگے کہ یہ رئیس بڑا سخت مزاج اورمتکبرہے۔شایئد حضورکوکوئی ایذانہ دے۔آپ نے ایسی توجہ فرمائی کہ اس کاتمام غصّہ جاتا رہااورآپ کے فرمان کے مطابق ہتھیاراتارکرنماز پڑھی۔اورآپ کا کمال معتقد ہوگیا۔
درگاہِ غوثیہ میں منظوری
منقول ہے کہ ایک دفعہ آپ پَبّی میں گئے۔وہاں ایک ٹاہلی کا درخت تھا۔آپ نے مکانات کے لیے ساکنانِ دیہہ سے پوچھا۔انہوں نے کہاکہ یہ ٹاہلی حضرت غوث الاعظم رحمتہ اللہ علیہ کی نذرکردی گئی ہے۔اُن سے پوچھ لو۔آپ نے بغداد شریف کی طر ف متوجّہ ہوکرعرض کیا۔تورات کو حضرت غوث پاک رحمتہ اللہ علیہ گاؤں کے تمام معزّز ممبروں کو خواب میں ملے۔کہ یہ ٹاہلی شاہ نظام الدین کودے دو۔چنانچہ انہوں نے وہ ٹاہلی آپ کو دے دی۔
حلیہ ولباس
آپ کارنگ گندم گون ۔قددرمیانہ۔جسم بھارا۔چہرہ بارُعب۔ریش مخضّب۔ سرپردستارسبزرنگ رکھتےاورکمر میں شلوار۔اُوپ سیاہ کمبل اوڑھتے۔
کرامات
تصرف قوی
منقول ہے کہ آپ چکڑی کی تختی پر تعویذ لکھاکرتے تھے اور خود فرمایاکرتے کہ خداتعالےٰ نےمجھے اس قد ر تصرّ ف کی حالت عطافرمائی ہے ۔کہ اگرعورت کے پیٹ میں ابھی بچّہ کا جسم پورانہ تیارہواہواورمیں تعویذکرکے دے دوں۔توخداکے امر سےوہ لڑکا بَن جاتاہے۔
فائدہ
بزرگوں کے تصرّف سے ایساعمل ممکن ہے۔حضرت میاں میر قادری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے ایک مرید محمد فاضل کے گھرمیں حمل میں لڑکی سے لڑکاتبدیل کردیا۔جس کا نام محمد افضل رکھا گیا۱؎۔
ا؎تذکرہ اولیائے ہندجلد۳ ص ۴۵۔سیّد شرافت۔
ایک مخالف کا مطیع ہونا
منقول ہے کہ موضع ڈھوک کا ایک زمیندار مولونام آپ کے مخالف تھا۔ایک دفعہ اس نے سخت کلمات آپ کے حق میں بولے۔آپ بمعہ قوالاں اس جگہ تشریف لے گئے۔مہراقوال کو فرمایاکہ فلاں شعرپڑھو۔جب اُس نے شروع کیا۔تومولومذکور کوٹھے پر بیٹھاہواتھا۔فی الفور نعرہ مارکرنیچے گرپڑااوروجد کی حالت میں تڑپنے لگا۔چندگھنٹوں کےبعد ہوش میں آیااورآپ کا مریدہوگیا۔
ایک منکرکاجذامی ہونا
منقول ہے کہ ایک شخص کو آپ نے کچھ نصیحت فرمائی۔وہ لاٹھی لے کر آپ کو مارنے آیا۔آپ نے غصّہ میں فرمایا"پچھاجاہ کوڑھیا"چنانچہ اس کو جذام ہوگیا۔بلکہ تا حال اس کی اولاد میں اس بیماری کا اثرچلاآتاہے۔
اولاد
آپ کے دوبیٹے تھے۔
۱۔سیّدسلطان عالم رحمتہ اللہ علیہ ۔
۲۔سیدفضل عالم المعروف شاہ جی۔
یارانِ طریقت
آپ کے خواص مرید یہ تھے۔
۱۔سیّدسلطان عالم فرزندآنجناب رحمتہ اللہ علیہ رَن مل ضلع گجرات
۲۔سیّد فضل عالم فرزند آنجناب رحمتہ اللہ علیہ رَن مل ضلع گجرات
۳۔سیّد غلام محمد المعروف گامےشاہ بن سیّد ناصرالدین ہاشمی رن مل ضلع گجرات
۴۔میاں اکبرعلی بن میاں سلطان حاجی سچیاری ؒ وَڑوہ شریف ضلع گجرات
تبرکات
آپ کی نعلین مبارک اولاد کے پاس موجودہے۔
تاریخ وفات
سیّد نظام الدین کی وفات ماہ ذیقعد ۱۲۹۲ھ میں ہوئی۔مزارگورستان نوشاہیہ میں ہے۔
مادۂ تاریخ ہے "افروختہ"۔
(سریف التواریخ جلد نمبر ۲)