آپ سیّد قادربخش بن سیّد فقیراللہ بن سیّد محمد سعیددُولارحمتہ اللہ علیہ کے فرزند اصغر تھے۔
شجاعت
آپ بڑے جواں مرد۔بہادر۔دلیر۔صاحبِ شجاعت تھے۔مقابلہ میں دشمنوں کوہزیمت دکھاتے۔اُس وقت سکّھوں کی حکومت تھی۔جابجاڈاکے پڑتے تھے ۔آپ بھی مسلح رہتے اورڈاکؤں سے مقابلہ کیاکرتے۔
خانہ جنگی
آپ کے زمانہ میں ساداتِ ہاشمیہ کے درمیان جاگیر درگاہ کے متعلق تنازعہ شروع ہوگیا۔اسی کش مکش میں لڑائی ہوگئی۔اثنائے جنگ میں آپ کے پاس بندوق تھی۔آپ نے سیّد نظام الدین بن سیّد سبحان علی ہاشمی رحمتہ اللہ علیہ کو گولی کانشانہ کیا۔امراالٰہی سے وہ بچ گئے اور ان کا ایک درویش ماراگیا۔
گرفتاری اور ضمانت
اس قتل کےمقدمہ میں آپ گرفتارہوگئے۔چوہدری الٰہ داد بن غازی نمبردار ساہنپالیہ اورچوہدری دائم بن قطب نمبردار ساہنپالیہ نے ایک ہزار روپیہ کی ضمانت دے کر آپ کو چُھڑایا۔
مفرورہونا
آپ ضمانتی ہوتے ہی بھاگ کر ریاست جمّوں وکشمیرچلے گئے۔بعد میں سکّھوں کی عدالت کی طرف سے نمبردار کو گرفتارکرلیاگیااورایک ہزار روپیہ اُن سے وصول کرلیا گیا۔ اُس وقت ساہنپال شریف میں چالیس گھرکی آبادی تھی۔پچیس روپیہ فی گھر چندہ لگاکرایک ہزار روپیہ جمع کرکے اداکیاگیا۔
راجہ کا صحت پانا
جموں کے راجہ کووجع المفاصل کی بیماری تھی۔ہرچندعلاج کروائے مگرفائدہ نہ ہوا۔صحت سے مایوس
ہوچکاتھا۔اتفاقاً آپ کا گذر پہاڑوں میں ہوا۔کئی لوگوں کوآپ کے دم درود سے شفاہوئی۔راجہ نے بھی سنا کہ حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد میں سے ایک صاحبزادہ آئے ہیں اوراُن کے مسیحا دم سے لوگ صحتیاب ہوتے ہیں۔راجہ مذکور خدمت میں حاضر ہوا۔آپ نے دم کیا۔تو حق تعالےٰ نے اس کو شفادی۔وہ آپ کا مخلص معتقد بن گیااورآپ کو ایک اعلیٰ نسل کی گھوڑی بمعہ زین نذرانہ میں دی۔
زرضمانت اداکرنا
اس گھوڑی کی جو کاٹھی تھی ۔اُس پر قیمتی جواہرات جَڑے ہوئے تھے آپ وہ کاٹھی لے کر ساہنپال شریف میں واپس آئے اورچوہدری الٰہ داد اورچوہدری دائم کو پیش کی اورکہا تم نے میرے لیے جو تکلیفیں اٹھائی ہیں۔میں تمہاراممنونِ احسان ہوں اور یہ مرصع کاٹھی ہے۔ یہ لے لو اورجس قدر روپےاس سے مِل سکتے ہوں وہ لے کر اپنازرضمانت وصول کرلو۔چنانچہ و ہ کاٹھی موضع رنمل کے ایک کھتری قوم بھاٹیہ نے ایک ہزار روپیہ دے کر خریدلی۔وہ روپیہ زمیندارانِ ساہنپالیہ نے لے لیا۔
کہاجاتاہے کہ اُس کاٹھی پر لاکھوں کے جواہرات جڑے ہوئے تھے۔وہ کھتری اُس کاٹھی سے ساہوکار بن گیااوراُس کی اولاد بھی بعد میں لکھ پَتی ہوگئی۔
سہرسلام آباد میں ورود
اس کے بعدآپ موضع سہرسلام آباد میں ریاست جمّوں میں تشریف لے گئے اور اس علاقہ کو اپنے رہائش سے نوازا۔بہت لوگ آپ سے فیضیاب ہوئے۔
اولاد
آپ کے تین بیٹے تھے۔
۱۔سیّد حیات بخش المعروف حیات محمد رحمتہ اللہ علیہ۔
۲۔سیّد حسیب اللہ عرف عزیزاللہ لاولد۔
۳۔سیّد رحیم اللہ۔یہ شیخ غلام حسن بن شیخ بڈھاسلیمانی رحمتہ اللہ علیہ کے مریدتھے لاولد فوت ہوئے۔
؎ سیّد حیات محمد رحمتہ اللہ علیہ کے ایک فرزند سیّد امیرحسین رحمتہ اللہ علیہ تھے۔
؎ سیّد امیرحسین رحمتہ اللہ علیہ کے چار بیٹے تھے۔سیّد باغ حسنؒ۔سیّدگل حسنؒ۔
سیّد ملک شاہ۔سیّد سلطان مست ؒ لاولد۔
؎ سیّد باغ حسن رحمتہ اللہ علیہ کے دوبیٹے تھے۔سیّد آفتاب حسین ؒ۔سیّد سلطان ہادیؒ۔
دونوں لاولد فوت ہوئے۔
؎ سیّد گل حسین ؒ کے دوبیٹے تھے۔سیّد چن پیرؒ۔سیّد محبوب عالمؒ لاولد۔
؎ سیّد چن پیرؒ کے دو لڑکے ہیں۔صاحبزادہ فضل حسین ۔صاحبزادہ محمود غزنی۔
دونوں اس وقت موجود ہیں۔
؎ سیّد ملک شاہ بن سیدامیر حسین کے ایک فرزند سید مزمّل حسین تھے۔
؎ سیّد مزمّل حسین کا ایک لڑکاصاحبزادہ صابرحسین موجودہے۔سلمہ اللہ۔
مدفن
سیّد نورحسن رحمتہ اللہ علیہ کی قبرسہرسلام آباد۔ضلع میرپورمیں ہے۔
وفات ۱۲۴۷ھ
(شریف التواریخ جلد نمبر ۲)