ماہتاب ولایت پیر سید صبغت اللہ شاہ راشدی
ماہتاب ولایت پیر سید صبغت اللہ شاہ راشدی (تذکرہ / سوانح)
امام العارفین حضرت پیر سید محمد راشد شاہ پیر صاحب روضے دھنی رضی اللہ عنہٗ (۱۲۳۴ھ) کے وصال کے بعد ان کے صاحبزادے پیر سید صبغت اللہ شاہ راشدی اول پچاس سال کی عمر میں مسند آرائے رشد و ہدایت ہوئے اور دستار سجادگی ان کے سر پر باندھی گئی۔ ا سخاندان میں یہ پہلے پیر ہیں جو پیر پگارہ (صاحب دستار) کے لقب سے مشہور ہوئے۔ سید صبغت اللہ شاہ اول ۱۱۸۳ھ/۱۷۷۹ء کو بمقام گوٹھ رحیم ڈنہ کلہوڑ عرف پرانی درگاہ شریف تحصیل پیر جو گوٹھ ضلع خیر پور میر س (سندھ) میں تولد ہوئے۔
(الرحیم مشاہیر نمبر ۱۹۶۷ئ)
تعلیم و تربیت:
حضور امام العارفین کی زیر سرپرسی درگاہ شریف پر مورجہ نصاب کی تعلیم حاصل کی اور حضرت سے مثنوی شریف ودیگر تصوف کی کتب کا درس لیا۔ ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ لکھتے ہیں: آپ قرآن شریف ، حدیث شریف اور فقہی احکام پر دسترس رکھتے تھے۔ حدیث شریف کا خاص مطالعہ کیا تھا اور روزانہ بعد نماز فجر درس حدیث دینا آپ کا معمول تھا۔ حدیث شریف میںمعلومات شارح جتنی تھی لیکن آپ محض لفظی شارح نہیں بلکہ عارف شارح تھے۔
(مقدمہ خزانۃ المعروفۃ ص۱۷)
بیعت:
اپنے والد ماجد حضور امام العارفین کے دست اقدس پر سلسلہ عالیہ قادریہ راشدیہ میں بیعت ہوئے اور انہی کی خدمت عالیہ مین رہ کر منازل سلوک طے کی۔
کتب خانہ:
آپ کو دینی علوم اور صوفیانہ کتب سے خاص دلچسپی تھی۔ اہم و مفید کتابوں کو جمع کرنا تا حیات دستور رہا۔ اس لئے آپ کے کتب خانہ مین نادر و نایاب کتب کا ذخیرہ جمع ہوگیا تھا۔
صحیح بخاری کا استقبال:
عارف باللہ علامہ خواجہ فقیر اللہ علوی قدس سرہ (متوفی ۱۱۹۵ھ مدفون خانقاہ علویہ شکار پور سندھ) کے وصال مبارک کے بعد ان کی کتب خانہ سے صحیح البخاری کا ایک قلمی نسخہ آپ نے تبرکا منگوایا جب لوگ اس نسخے کو لے کر آئے تو پیر صاحب نے ہزاروں آدمیوں کے ساتھ اپنے والد ماجد کے استاد محترم کے نسخے کا استقبال کیا اور اس نسخے کے حصول کو اپنی بڑی خوش قسمتی سمجھا۔
اولاد:
آپ کو سات بیٹے تولد ہوئے
۱۔ سید عبدالقادر شاہ
۲۔ سید غلام مصطفی شاہ
۳۔ سید علی گوہر شاہ اول
۴۔ سید علی محمد شاہ
۵۔ سید علی حیدر شاہ
۶۔ سید علی ذوالفقار شاہ
۷۔ سید شاہ مراد شاہ علیہم الرحمۃ
(مخزن فیضن ص۴۰۹)
آپ کے بعد آپ کے تیسرے صاحبزادے حضرت سید علی گوہر شاہ اصغر راشدی المعروف پیر صاحب بنگلہ دھنی سجادہ نشین ہوئے۔
مقام و مرتبہ:
سید صبغت اللہ شاہ اول کی سندھ میں مقبولیت اور ان کے علمی و روحانی مراتب کا اندازہ سید حمید الدین کے اس بیان سے ہوتا ہے جو انہوں نے سید صبغت اللہ شاہ کے متعلق تحریر کیا ہے۔
’’باشندگان سندھ کے نزدیک سارے ملک (متحدہ ہندوستان) میں ان (پیر صبغت اللہ) جیسا کوئی شیخ و مرشد نہیں۔ تقریباً تین لاکھ بلوچ ان کے مرید ہیں۔ مرجع خلق عام ہیں۔ جاہ و جلال سے زندگی گزاررہے ہیں۔ جودوکرم، اخلاص و مروت میں بھی شہرہ آفاق ہیں۔ ان کا کتب خانہ بڑا عجیب و غریب کتب خانہ ہے۔ بادشاہوں اور امراء کے پا س بھی ایسا کتب خانہ نہ ہوگا۔ پندرہ ہزار (۱۵۰۰۰) معتبر کتابیں اس میں موجود ہیں ۔
(بحوالہ تذکرہ صوفیائے سندھ ص۲۷۳)
عادات و خصائل:
آپ اپنے والد ماجد کی صحیح پیروی کرنے والے تھے، سنت مبارکہ کے پابند پرہیزگار، شیب بیدار، سخی، مہمان نواز ، خلق عظیم سے آراستہ، سادگی پسند، تکلف سے زندگی آزاد، اہل دنیا زمینداروں اور حکمرانوں سے بے نیاز، غریبوں کسانوں کے ہمدرد، متوکل ایسے کہ جو موجود ہوتا راہ خدا میں خرچ فرمادیتے اور کل کیلئے بچا کر نہیں رکھتے تھے۔ ہمہ وقت مالک کی یاد میں مشغول رہے، عشق مصطفی ﷺ میں سرشار ، حضور امام العافرین کی طرح آپ بھی ہر سال نہایت عقیدت و احترام سے جشن میلاد النبی ﷺ کا انعقاد فرماتے تھے۔ حضور پر نور ﷺ کی تعریف و توصیف مقام و عظمت پر مشتمل نعت شریف اور صوفیانہ کلام بغیر ساز کے سماعت فرماتے بلکہ اپنی روحانی خوراک بتاتے تھے۔
رشد و ہدایت و تبلیغ و تلقین کیلئے دور دراز علاقوں تک سفر کیا اور معرفت کا پیغام گھر گھر پہنچایا۔ جہاں بھی گئے وہاں ذکر شریف و نعت شریف کی محافل ضرور قائم کیں اس طرح خشک دلوں کو معرفت کی چاشنی نصیب ہوئی۔ آپ کے روحانی بلند مقام و مرتبہ اور زبردست تصرف کے سبب سال منٹوں میں روحانی مقامات طے کر جاتے تھے۔
کھسیانی بلی کھمبا نوچے:
نامور مورخ و مصنف مولانا حکیم رمضان علی قادری صاحب (سنجھورو ضلع سانگھڑ) رقمطراز ہیں: ’’ابن الوقت وہابی جب اپنے پیشوائوں کو ملکی و ملی خدمات سے تہی دامن پاتے ہیں تو اپنی خفت مٹانے کو مشاہیر مشائخ و علمائے اہل سنت میں سے کسی کے ساتھ ان کا کوئی نہ کوئی تعلق جوڑنے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ طرح طرح کے افسانے تراش کر مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنا چاہتے ہیں کہ چونکہ ہمارے فلاں پیشوا کا رابطہ فلاں بزرگ سے تھا لہٰذا ہمیں بھی لہو لگا کر شہیدوں میں مل جانے کا حق حاصل ہے پھر خواہ تاریخی واقعات ان کے دعوئوں کی صریحاً تکذیب کرتے ہوں یا واقفان ھال ناقابل تردید دلائل سے ان کے افسانوں کو جھوٹا بھی ثابت کردیں یہ لوگ اپنی رٹ لگاتے چلے جائیں گے۔
وہابی صاحبان سید احمد رائے بریلوی اور مولوی اسماعیل دہلوی (مصنف تقویۃ الایمان) کی نام نہاد تحریک جہاد کو صحیح و درست ثابت کرنے کی ناکام کوشش مین ان کی درگاہ شریف پیر جو گوٹھ میں آمد اور حضرت پیر سید صبغت اللہ شاہ صاحب اوسل سے ان کی ملاقات کا بڑا دھنڈورہ پیٹتے ہیں اور اس سے یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارے پیشوائوں کی یہ شان ہے کہ حضر ت پیر صٓحب پگارہ جیسی عظیم شخصیت نے بھی ان کی خاطر مدارات کی اور کئی روز تک ان کی مہمان نوازی فرمائی۔ اتنی سی بات کا بتنگڑ بنا کر اب یہاں تک کہنے لگے ہیں کہ حضر ت پیر صاحب موصوف (معاذ اللہ) ان کی تحریک وہابیت کے حامی و مددگار تھے۔
حالانکہ حقیقت صرف اس قدر ہے کہ سید احمد رائے بریلوی اپنے چند ساتھیوں کے ہمراہ مسافروں کی حیثیت میں آئے اور حضرت پیر صاحب موصوف نے اپنی اعلیٰ خاندانی روایات کے تحت ان کی مسافر نوازی فرمائی۔ ان کی مومنانہ صورتیں دیکھ کر انہیں دیندار سمجھتے ہوئے اعلیٰ اخلاق سے پیش آئے تو یہ صرف قبلہ پیر صاحب موصوف کی بلند ہمتی اعلیٰ ظرفی اور آپ کے اخلاق کریمانہ کا اظہار تھا مگر اس سے یہ کیوں کر ثابت ہوا کہ پیر صاحب موصوف ان کی نام نہاد تحریک جہاد کے حامی و موید تھے؟ آیا کوئی بھی وہابی یہ ثابت کر سکتا ہے کہ سید احمد نے حضرت پیر صاحب علیہ الرحمۃ کو اپنے اور اپنی تحریک کے متعلق صاف صاف مندرجہ ذیل باتوں سے مطلع کیا تھا؟
۱۔ میں اپنی محسن و مربی حکومت برطانیہ کا حقیقی خیر خواہ اور وفادار ایجنٹ ہوں۔
۲۔ میں انگریزوں کی مخالفت اور حصول آزادی کیلئے ان سے لڑنا مذہباً حرام سمجھتا ہوں۔
۳۔ میں انگریز کے اقتدار کے استحکام کی کاطر بری خدمات سر انجام دے چکا ہوں۔
۴۔ میں ابن عبدالوہاب نجدی کے نقش قدم پر چل کر مشرک مسلمانوں کے خلاف جہاد کی تیاری کر رہا ہوں۔
۵۔ ہم کسی کا ملک چھین کر حکومت کرنا نہیں چاہتے ، نہ انگریز کا نہ سکھوں کا۔
۶۔ ہم سکھوں کے خلاف جہاد کا نعرہ صرف اس لیئے لگاتے ہیں کہ مسلمان ہمیں چندہ دیں اور نعرہ جہاد کی کشش سے ہماری لڑاکا جماعت میں شامل ہوں۔
۷۔ ہم سرحدی علاقہ میں افغانوں کے تعاون سے یا انہیں کچل کر انگریزوں کے زیر سایہ ’’ریاست وہابیہ قائم کرنا چاہتے ہیں۔
۸۔ میرے دست راست مولوی اسماعیل دہلوی نے ابو الوہایہ نجدی کی کتاب ’’التوحید‘‘ کا خلاصہ ’’تقویۃ الایمان‘‘ کے نام سے لکھا ہے۔
۹۔ اس کی وہابیانہ حرکات سے ’’دہلی‘‘ اور دیگر شہروں میں شورش بپا ہے مسلمانوں میں فتتہ و فساد کی آگ بھڑک رہی ہے۔
۱۰۔ اب ہم برٹش گورنمنٹ کی اجازت و تائید اور حمایت سے مسلمانان ہند کا شرک،ایران کا رفض، چین کا کفر اور افغانستان کا نفاق مٹادینے ی خاطر سرحد علاقہ میں افغانوں سے جہاد کرنے جارہے ہیں۔
۱۱۔ ہم آپ کی خدمت مں اس لئے حاضر ہوئے ہیں کہ آپ ان مقاصد کی تکمیل میں ہماری امداد فرمائیں، کیا کوئی وہابی یہ ثابت کر سکتا ہے کہ سید احمد نے حضرت پیر صاحب پگارہ کی خدمت میں یہ تمام باتیں عرض کردی تھیں اور پیر صاحب پگارہ نے ان کی یہ رام کہانی سن کر ان کی تائید و حمایت اور امداد فرمائی تھی؟ نہیں اور ہر گز نہیں۔ واضح رہے کہ حضرت پیر صاحب موصوف بفضلہ تعالیٰ اہل سنت و جماعت کے سردار اور ایک عظیم روحانی پیشوا تھے ، سلسلہ رشد و ہدایت اور حلقہ ذکر و فکر قائم کئے تھے ، ہزاروں لاکھوں مسلمانان اہل سنت آپ سے فیوض و برکات حاصل کر رہے تھے، ان کے متعلق کوئی صحیح الدماغ شخص سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ ان حیفۂ دنیا کے طلبگار ابن الوقت وہابیوں کی گندی سیاست اور گھنائونی سازش میں ملوث ہو سکتے ہیں، اس قدر جلیل القدر پاکباز بزرگ کے سامنے روباہ صفت وہابیوں کی کیا مجال تھی کہ وہ اپنی مذموم سرگرمیوں اور ناپاک عزائم کا اظہار بھی کر سکیں بلکہ اگر یہ لوگ شامت اعمال سے اس قسم کا کچھ اظہار کر بیٹھتے تو یقیناً دکھے دے کر نکال دیئے جاتے اور صاف سنا دیا جاتا کہ
برو ایں دام بر شاخ دگر نہ
کہ عنقارا بلند است آشیانہ
بات صرف اتنی سی ہے کہ سید احمد اور ان کے ساتھی بگلے بھگت بن کر چند روز عالی مقام پیر صاحب کے ہاں مسافرانہ حیثیت سے قیام پذیر رہے ، پیر صاحب موصوف نے ازراہ احسان نا کی کاطر مدارت کی اور ممکن ہے ہ ان کی کچھ مالی مدد بھی کردی ہو ارو اس طرح مزید لطف و کرم کا مظاہرہ فرمادیا ہو تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قبلہ پیر صاحب پگارہ علیہ الرحمۃ (معاذاللہ) ان کی وہابیت کو قبول کر لیا تھا اور ان کی ناپاک تحریک میں شامل ہوگئے تھے۔ لیکن وہابی صاحبان ہیں کہ اتنی سی بات کو اتنا اچھال رہے ہیں اور اپنی حکمت عملی کے تحت جھوٹے افسانے تراش کر قبلہ پیر صاحب موصوف پر بہتان لگا رہے ہیں۔
(تاریخ وہابیہ ص۲۶۹)
امعیہ راشدیہ کے فاضل، مناظر اہل سنت مولانا مفتی عبدالرحیم صاحب سکندری مخالفین کی جانب سے بہتان تراشی کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
موجودہ ابن الوقت وہابی یہ پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ جب سید صبغ اللہ شاہ اول یر صاحب پگارا نے سید احمد رائے بریلوی اور مولوی سماعیل دہلوی کے نام نہاد جہاد سے متفق ہو کر اپنے پانچ سو (۵۰۰) مرید ان کی تحویل میں دے دیئے تو سید احمد نے خوش ہو کر انہیں ’’حر‘‘ کے خطاب سے نوازا تھا۔ حالانکہ سید حزب اللہ شاہ پیر صاحب پگارہ سوئم کے عہدے سے قبل خاندان راشدیہ کے مریدوں کو حر کہنے یا کہلانے کا سراغ تک نہیں ملتا۔ پس وہابیوں کا یہ دعویٰ بھی سراسر غلط اور خلاف واقع اور نری بکواس ہے۔
میں پورے وثوق کے ساتھ اعلان کرتا ہوں کہ یہ سب جھوٹ ہے اور پیران پگارہ پر الزام تراشی ہے وہابیہ کی اس من گھڑت کہانی میں اگر کچھ بھی صداقت ہوتی تو آستانہ عالیہ راشدیہ (پیر جو گوٹھ) کے تحریری ریکارڈ میں کچھ تو ذکر موجود ہوتا۔ حالانکہ درگاہ شریف راشدیہ پیران پگارہ کے کسی مکتوب یا ملفوظ میں ان کی اس کہانی کے بارے میں ایک حرف تک موجود نہیں ہے۔
(مخزن فیضان ص۴۰۰/۴۰۵، مطبوعہ درگاہ شریف پیر جو گوٹھ ۱۴۰۸ھ)
ملفوظات شریف:
آپ کی ملفوظات شریف ’’خزانۃ المعرفۃ‘‘ کے نام سے آپ کے صاحبزادے و جانشین حضرت پیر سید علی گوہر شاہ راشدی یر پاگارہ دوئم (صاحب دیوان کلام اصغڑ) نے فارسی میں مرتب فرمائی تھی جس کا سندھی ترجمہ مفتی محمد رحیم سکندری نے کیا ہے اور جامعہ راشدیہ سے ۱۴۱۱ھ کو شائع ہوئی۔ خزانۃ المعرفۃ آپ کے حالات واقعات مسلک و مشرف پر مستند مجموعہ ہے۔ اس کے مطالعہ سے الزامات اتہامات کا رد بلیغ ہوتا ہے اور حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔
آپ ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں: نبی کریم ﷺ نے اس بشری وجود سے معراج کی دولت حاصل کی اور سر کی آنکھوں سے مشاہدے کی نعمت نصیب ہوئی۔ (ص۳۵۰)
٭ آپ نے جماعت کو اولیاء اللہ کی امداد نصرت حاصل کرنے کیلئے اعیونی یا عباداللہ کی تعلیم دی۔
٭ آپ نے تصور شیخ کی تعلیم فرمائی ۔ (ص۲۲۳)
٭ پیران پیر دستگیر رضی اللہ عنہ کو غوث الثلقین اور غوث الاعظم کہتے تھے۔ (ص ۳۸۹)
٭ آپ روزانہ ختم قادریہ میں المدد یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئا للہ ایک سو گیارہ (۱۱۱) بار پڑھتے تھے۔ (ص ۴۳۱)
٭ آپ جب تہجد کے وقت اور وظائف سے فارغ ہوتے تو یہ دعائیہ نظم پڑھتے تھے:
یا حبیبی سیدی درماندہ ام مرکب اندر حرص و عصیان راندہ ام
رحمۃ للعالمین یار سول ﷺ ہم شفیع المذنبی یا رسول ﷺ
مشکلم پیش است من در بیکسی یا رسول اللہ ﷺ مارا تو بسی
یا محمد ﷺ لطف آمد عام تو بس بود ما را محمد نام تو
احمد اجز تو شفیعم نیس کس یا رسول اللہ ﷺ فریادم برس
عاجزم در ماندہ ام دستم بگیر غیر تو دیگر ندارم دستگیر
الصلوٰۃ والسلام تا قیام بر محمد و آل واصحابش کرام
٭ آپ اور آپ کے مریدین پیران پیر دستگیر کی گیارہویں کی نیاز دلاتے تھے۔ (ص ۵۳۵)
خلفاء کرام:
جس قدر مریدین کی کثرت ہوگی اس قدر خلفاء کی بھی کثرت ہوگی لیکن ہماری ناقص معلومات کے مطابق بعض خلفاء کے نا م معلوم ہو سکتے جو کہ درج ذیل ہیں:
٭ خلیفہ میاں خان محمد مدفون مکران دیکھئے انوار علماء اہلسنّت
٭ خلیفہ سید میاں محمد شاہ خزانۃ المعرفۃ ص ۴۷۴
٭ خلیفہ محمد صدیق بن خلیفہ محمد ناھیو ص ۳۷۲
٭ خلیفہ غوث محمد ص:۴۲۶
وصال:
خلیفۃ اللہ حضرت پیر سید صبغت اللہ شاہ راشدی اول سجادہ نشینی کے بعد تیرہ (۱۳) برس تک دینی روحانی خدمات جلیلہ سر انجام دینے کے بعد ۶ رمضان المبارک ۱۲۴۶ھ/۱۸۳۱ء کو ۶۳ سال کی عمر میں انتقال کیا۔ (خزانۃ المعرفہ ص ۳۲ مقدمہ) آپ کے وصال پر کئی شعراء نے مناقب اور قطعات تاریخ وصال کہے ان میں سے صاحب دیوان شاعر خلیفہ گل محمد ہالا والے کا ایک قطعہ نقل کرتے ہیں:
غوث عالم مرش فیاض ماکان کرم
کامل و اکمل مربی و مہدی و اعلیٰ مھم
صبغت اللہ پیر ما آن محی دین احمدی
محی دلہا ماصی عصیاں و آثار امم
چوں بہ امر ارجعی نقل مکان زین دار کرد
وائی واویلا زعالم کواست تا لوح و قلم
دربیان سال وصال از اسم پاک آں شفیع
صبغت اللہ زیب دلھا گفتہ ام بیش و کم
۱۲۴۶ھ
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ)