حضرت سید صالح محمد چک سادہ والہ رحمتہ اللہ علیہ
حضرت سید صالح محمد چک سادہ والہ رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
درمناقب سیّد صالح محمد پاک ذات |
آنکہ نسبت پاکِ اوازحیدرِ کرارداں |
اوصاف ِجمیلہ
آپ عارف ربانی ۔تارک لاثانی۔منبع اسراریزدان۔مخزنِ انوارِ رحمان ۔ صاحبِ کرامات عالیہ ومقاماتِ رضیہ ۔صاحب ذوق وشوق و عشق و محبت تھے۔سیّد العارفین حضرت سید حافظ حاجی محمد نوشہ گنج بخش قادری قدس سرہ العزیزکے بزرگ خلیفوں اور ناموریاروں میں سے تھے۔
نام و لقب
آپ کانام نامی صالح محمد ۔لقب مقرب حق تھا۔
نسب نامہ
آپ کے خاندان کی قلمی تحریرات آپ کانسب نامہ اس طرح پرتحریر ہے۔
سیّدصالح محمد بن سید بن عبد الوہاب ثانی سید شاہ روح اللہ عرف شہراللہ بن سیّد جمال بن سیّد محمود عرف محمد کلان بن سیّد عمربن سیّد حامد گنج بخش کلان بن سیّد عبدالرزاق بن سیّد عبدالقادرثانی بن مخدوم سیّد محمد غوث الحسنی اوچی رحمہم اللہ۔۱؎
۱؎سوانحعمری سید جلال ص۴۔سیّد شرافت
تحقیق ِنسب
یہ سلسلہ نسب علم لاانساب اورعلم تاریخ کی رُو سے پایہ ثبوت کونہیں پہنچتا۔
۱۔مولاناعبدالقادری بدایونی نے منتخب التواریخ اور شیخ عبدالباقی جمجی قادری نے مقاماتِ داؤدی میں
اور مولاناسیّد سعداللہ موسوی رضوی نے بحرالسرائر میں اورمولاناشیخ محمدادریس اوچی نے نتائج الاخبارمیں اور مولوی قاضی برخوردارملتانی نے کتاب غوث اعظم میں اور مولوی غلام احمد اختراوچی نے تاریخ اوچ میں اور مولوی محمدحفیظ الرحمٰن بہاول پوری رحمتہ اللہ علیہ نےتاریخ اوچ میں ۔سیّد حامد گنج بخش کلان کے دوبیٹے لکھے ہیں۔سیّد نظام الدین عبدالقادر ثالث اور سیّد جمال الدین موسےٰ پاک شہید۔ان کا کوئی بیٹاسیّد عمر نام نہیں لکھاتوچونکہ یہ شجرہ نسب سیّد عمرکی وساطت سے سیّد حامد گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کوملایاگیاہے۔لہذا یہ غلط ہےاور سیّد حامد گنج بخش گیلانی کی اولاد سے ہونا غیر صحیح ۔
۲۔تاریخ کے لحاظ سے بھی یہ شجرہ مشکوک ہے۔کیونکہ سیّد حامد گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کی وفات بقول اخبارالاخیار اور خزینتہ الاصفیأ۹۷۸ھ میں ہوئی۔یعنی اُن سے تینتالیس سال بعد فوت ہوئے حالانکہ ۴۳سال میں چھ پشتیں گذرنہیں سکتیں ۔سیّدحامد گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ سے نیچے ساداتِ ملتان کی چھ پشتیں ایک سو ساٹھ سال میں گذریں اور یہ کب صحیح ہوسکتاہےکہ ان حضرات کی چھ پشتیں ۴۳سال کے اندر پوری عمر یں گذارکرصاحبِ اولادہوکر فوت ہوجاویں۔
بہرکیف آپ کا گیلانی ہونااس سلسلہ نسب مذکورکے استناد سے پایۂ صحت کو نہیں پہنچتا۔مگر چونکہ مثنوی نیرنگ عشق اور ثواقب المناقب اور تذکرہ نوشاہیہ اور کنزالرحمت میں بلاذکر نسبت گیلانی کے آپ کا نام "سیّد صالح محمد" لکھاپایاجات ہے۔لہذا ہم بھی اُن کے اتباع میں آپ کو اور آپ کی اولاد کوسیّد ہی لکھیں گے۔
خاندانی حالات
آپ کے والد سیّد عبدالوہاب ثانی ۔شاہ قمیص قادری سندھوری رحمتہ اللہ علیہ کے مُرید تھے۔اپنے آبائی وطن سے نکل کر سیروسیاحت کرتےہوئے موضع بن باجواہ ضلع سیالکوٹ پہنچ کر ایک نالہ کے کنارہ پر قیام پذیر ہوئے۔اس جگہ انہوں نے شکاریوں کو دعادی تو بے شمار مچھلیاں اُن کے شکارمیں آئیں۔وہ سب مُرید ہوگئے۔وہ جگہ اب تک بنام "پیرپاندی"مشہور ہے۔جب وہاں لوگو ں کاہجوم ہونے لگا۔تو موضع بَنبانوالہ میں چلے آئے۔وہاں آج تک چلہ کی جگہ اور مسجدکنواں موجود ہے۔وہاں ایک ہندوجاٹ کودعادی و ہ دولت مندہوگیا۔پھروہاں سے اُٹھ کر گجرات سے مشرقی تین میل کے فاصلہ پر موضع چک سادہ میں مقام کیا۔بافی دیہ چوہدری سادہ بن ابّو بن بھکھاری بن مانک بن سدی بن شادی بن بَھروبن گنی بن جَیتو وڑائچ ان کا مرید ہوا۔وہیں ۱۰۲۱ھ میں وفات پائی۔دوبیٹے سیّد صالح محمد اور سیّد عاشق محمد یادگاررہے۔
عہد طفولیّت
منقول ہے کہ سیّد صالح محمد کے چہرہ انور پر بچپن سے ہی آثار رشدوہدایت درخشاں تھے اور خوارق کا ظہور بھی بچپن سے ہی ہوتاتھا۔آپ کی بددعاخصوصاً جلدی لگتی تھی۔اس لیے باشندگان چک سادہ نے آپ کے والد کے سامنےعرض کیاکہ ہم کسی گاؤں میں سکونت منتقل کرلیتے ہیں۔اُنہوں نے فرمایاتم گاؤں نہ چھوڑو۔اب میر ی اولاد کی بددعاتم پراثرانداز نہیں ہوگی۔
تحصیل علم
آپ نے علم ظاہری اپنے والد بزرگوار اور دیگر علمائے کرام سے حاصل کیااور فضل وکمال علمی میں ممتاز ہوئے۔
واقعی بیعت
آپ کوراہ حق کاشوق ہوا۔توآپ ساہنپال شریف میں حضرت نوشہ گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیاکہ مجھے اپنےغلاموں میں داخل کیاجاوے۔ حضور نے فرمایاتم میں سیادت کا افتخار باقی ہےاور ہم ان قومی بکھیڑوں سے گذرچکے ہیں اور اب صفائی کے کاروبار میں مشغول ہیں۔آپ نے عرض کیا کہ میرےدل کے صحن میں بے شمارخس و خاشاک پڑاہے۔اس کی صفائی کے لیے حاضر ہواہوں۔آنجناب رحمتہ اللہ علیہ کوآپ کایہ انکسار پسند آیااور آپ کو اپنی بیعت سے نوازااور ایک ہی نگاہ سے منزل مقصود کوپہنچادیا۔۱؎
اخلاق وعادات
آدابِ مرشد
آپ ادب و تعظیم میں کمال درجہ رکھتے تھے۔جب کبھی حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں جاتےتوپردہ میں بیٹھتے۔یابسبب حیاکے چہرہ انور پر نقاب رکھتےاور کبھی آنجناب کے چہر ہ پرنظر نہیں کی ۔آپ فرمایاکرتےتھےکہ میں قیامت کے روز اپنے پیر کو قدموں سے پہچان لوں گا کہ یہ میرے پیر دستگیر کے قدم پاک ہیں۔کیونکہ میں نے ساری عمر،ادب کی وجہ سے آنجناب رحمتہ اللہ علیہ کے چہرہ مبارک کی طرف نظر کرنے کی جرأت نہیں کی۔۲؎
ادب کی غایت
منقول ہے کہ حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ آپ کی علمیت و فضلیت کے لحاظ سے آپ کو کوئی خدمت کا کام سپردنہ فرمایاکرتے۔آپ کے دل میں حسرت رہتی۔کہ حضور انورکسی طرح کی خدمت مجھ سےبھی لیں۔آخر ڈیرہ شریف سےایک گھوڑااور ایک کتّاآپ کو سپردکیاگیا۔آپ چک سادہ میں لے گئے اور ان کی خدمت کرنی شروع کی۔کچھ عرصہ کے بعد ایک دن گھوڑے کے آگے گھاس ڈالا۔کتّے اُٹھ کر اس پر پیشاب کرناچاہا۔آپ نے فوراًاس پر اپنی چادر ڈال دی ۔نہ ہی کتّے کاپیشاب روکااور نہ گھوڑے کاگھاس ہی خراب ہونے دیا۔آنجناب نے بنظر باطن یہ سب واقعہ دیکھ کر گھوڑااورکتّاواپس منگالیااور آپ کااعتقاد اورادب دیکھ کر نظرتوجہ سے آپ کو نورٌ علیٰ نور کردیا۔۳؎
۱؎۔کنزالرحمت۱۲۔۲؎تذکرہ نوشاہیہ ۱۲۔۳؎آب حیاتی ۱۲۔سیّد شرافت
فائدہ
شیخ کامل طبیب روحانی ہوتاہے۔مرید میں جو مرض دیکھتاہے۔اس کا علاج کرتاہے۔حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے دیکھاکہ سیّد صالح محمد میں سیادت اور علمیّت کافخر ہے۔اس کوتوڑنے کے لیے گھوڑااور کتّا کی خدمت میں سپُرد فرمائی۔بزرگانِ دین ایساہی کرتے تھے۔
۱۔حضرت سیّد الطائفہ شیخ جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ جس مرید میں امارت وحکومت کی بوپاتے اس کو گندی نالیاں صاف کرنے کا حکم فرماتے۔۱؎
۲۔شیخ ابوسعید نے اپنے پیر شیخ نظام الدین بلخی کے کتّوں کی خدمت کی اور ان کے پیچھے کیچڑ میں
گرے۔۲؎
خدماتِ مرشد
آپ اپنے پیرروشن ضمیرکی خدمت کوسرمایہ سعادت دوجہاں سمجھتے۔اپنا مال جان۔اولاد۔سامان سب کچھ اپنے پیر کا سمجھاہواتھا۔ایک بار تین عد د کاٹھیاں بہت عمدہ آنجناب کی خدمت میں بطورنذرانہ پیش کیں۔۳؎
جان نثارانہ خدمت
منقول ہےکہ ایک بارچک سادہ کاکوئی آدمی ساہنپال شریف سے ہوکرآیا۔ آپ نے اُس سے پوچھاہمارے حضرت صاحب کاحال بتاؤ۔اُس نے عرض کیاکہ میں رات کو وہیں آنجناب کے ڈیرے پرتھا۔آپ نے پوچھا وہاں رات کو کیاکھایا۔اس نے کہاکچّی گاجریں۔کیونکہ وہاں لنگرمیں بالن ختم ہوچکاتھا۔اس لیے رات کو کھانانہ پکایاگیااور مسافروں میں گاجریں تقسیم کردیں۔آپ نے جب یہ خبرسنی تو فوراً اپنے اپنے رہائشی مکان کا آدھاچَھت اُدھیڑ دیااوراس کی لکڑیاں اپنی گردن پر اُٹھاکر دربارشریف پہنچادیں۔حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے پوچھا یہ کیا؟آپ نے عرض کیا۔معلوم ہواتھاکہ لنگرمیں بالن کی ضرورت ہے۔اس لیے آدھامکان کاچھت بالن کے لیےحاضر ہے اورہم سارااہل وعیال آدھے میں ہی گذارہ کر لیں گے۔آنجناب یہ خدمت و ایثار دیکھ کر ازحد
مہربان ہوئے۔۴؎
اخفائے احوال
آپ کی طبیعت نہایت اخفا پسند تھی۔عام مجلس میں کم بیٹھتے۔علیحٰدہ رہنا پسند فرماتے۔کبھی مسجد کے کسی کونہ میں چھپ کر بیٹھے رہتے۔۵؎
۱؎تذکرۃ الاولیأ۱۲۔۲؎تذکرۃ الاولیائے ہندجلد ۲۔۳؎تذکرۃ نوشاہیہ ۱۲۔۴؎تذکرہ نوشاہیہ ۱۲۔
۵؎ تذکرہ نوشاہیہ ۱۲۔سیّد شرافت۔
فائدہ
خلوت میں یادالٰہی کرنابزرگوں کاشیوہ ہے۔چنانچہ شیخ علاوالدین قرشی (خلیفہ سیّد گیسودراز)گوشہ تنہائی میں یاد معبود کیاکرتے۔۱؎
جذب و استغراق
آپ کی طبیعت پر جذب و استغراق غالب تھا۔اگرکوئی شخص خدمت میں حاضرہوتاتواس سے اس کانام اور اس کے باپ داداکانام دریافت کرتے تب آپ کو پہچان ہوتی۔۲؎
توجہ کا اثر
منقول ہے کہ آپ جس جگہ تشریف لے جاتے ۔آپ کی نظر کےاثراورتوجہ کی تاثیر سے لوگوں کو بے اختیار ذکرالٰہی جاری ہوجاتا۔۳؎
کرامات
شہتیر کا بڑھنا
منقول ہے کہ جب آپ کے فیضان کثیر کا شہرہ دُوردُور تک ہوگیاتوہزار ہامخلوق زیارت کے لیے آنے لگی۔خصوصاً جمعہ کے دن اتناہجوم ہوتاکہ مسجد میں جگہ نہ مل سکتی ۔ اس لیے آپ نے ایک بڑی مسجد کی بنیاد ڈالی۔جس کی عمارت کا اہتمام اپنے مرید مولاناغنیمت کنجاہی رحمتہ اللہ علیہ کوسُپرد کیا۔جب مسجد کی دیواروں پر شہتیر چڑھانے لگے۔توان میں سے ایک شہتیر چھوٹانکلا۔سب لوگ حیران ہوئےکہ اب کیاکیاجائے۔آپ نے فرمایاآج کام بندکردو۔کل دیکھاجاوے گا۔چنانچہ رات کوآپ مسجد میں گئےاورشہتیر کو مخاطب ہوکرفرمایا۔تجھے مسجد پر ڈالنا ہے۔کیاہی اچھاہوکہ تو پوراہوجاوے۔اس وقت وہ لمباہوگیا۔صبح دیواروں پر پوراآگیا۔
فائدہ
ابھی تک وہ شہتیر موجود ہےاوربرآمدہ مسجد کی مشرقی دیوار میں اُس کو نصب کیاگیاہے۔لوگ زیارت کرتے ہیں ۔میں بھی زیارت سے مشرف ہواہوں۔لکڑی کا بڑھادینا صاحب کرامت بزرگوں کےآگے کوئی مشکل نہیں۔چنانچہ شیخ عبدالجلیل چوہڑبندگی رحمتہ اللہ علیہ لاہوری رحمتہ اللہ علیہ کی نگاہ سے ایک لکڑی کئی بالشت بڑھ گئی تھی۔۴؎
۱؎تذکرہ اولیائے ہندجلد۲ص۳۲ ۔۲؎تذکرہ نوشاہیہ ۱۲۔۳؎ تذکرہ نوشاہیہ ۱۲۔۴؎تذکرہ اولیائےہند جلد ۲ ص۱۵۶۔سیّد شرافت
ایک مرید کو شیر سے بچانا
منقول ہے کہ ایک دن آپ اپنی مسجد میں وضوکررہے تھےکہ اچانک کوزہ اُٹھاکر پھینک دیا۔وہ اسی وقت نظروں سے غائب ہوگیا۔حاضرین متعجب ہوئے۔لیکن ادب کی وجہ سے نہ پوچھ سکے تھوڑے دنوں کے بعدآپ کاایک مُرید آیا۔اس نےبیان کیاکہ میں ہندوستان میں گیاہواتھا۔ایک روز جنگل میں اکیلاجارہاتھا۔راستہ میں شیرنے مجھ پر حملہ کیا۔میں نے اس وقت آپ کویادکیااورامداد کے لیے پکارا۔اُسی وقت دیکھاکہ ایک کوزہ شیرکےسَر پرآلگا۔وہ فوراً مرگیا۔کوزہ کی ٹھیکریاں میں نےاپنےپاس محفوظ کرلیں۔چنانچہ اُس نے وہ ٹھیکریاں نکال کر اہل مجلس کو دکھائیں۔تب سب یاروں کوکوزہ پھینکنے کےراز سےآگاہی ہوئی۔۱؎
فائدہ
مشکل کے وقت مریدوں کی امداد کو پہنچنامتواتر طورپر بزرگوں سے ثابت ہے۔چنانچہ شیخ غلام محمد سہارنپوری نے سفرقندھارمیں ڈاکوؤں کے گھیرے میں اپنےپیر سیّد آدم کو یاد کیاتووہ فوراً امداد کو پہنچے۔۲؎
سادات خوارزمی کے متعلق پیشگوئی
منقول ہے کہ آپ نے اپنی ہمشیرہ کی شادی معین الدین پورکےخوارزمی سادات میں کی۔پھرہمشیرہ کو بمعہ بہنوئی یہیں چک سادہ میں لے آئے۔اپنے والدین کی وراثت سے حسب قانون شریعت ان کو پوراحِصّہ دیا۔آپ کے فرزندوں نے عرض کیا۔یاقبلہ ۔آپ نے ان کو ہمارے ساتھ حِصّہ دار کردیاہے۔یہ بوجہ شرکت کے ہم کو تنگ کیاکریں گے۔آپ نے فرمایا۔کوئی فکر نہ کرو۔یہ زیادہ نہیں بڑھیں گے۔چنانچہ آج تک وہ اکیلا گھرہی چلاآتاہے۔
۱؎تذکرہ نوشاہیہ ۱۲۔۲؎تذکرہ اولیائے ہندجلد ۳ص۱۰۴سیّد شرافت
غزل گوئی
کتاب لطائف گل شاہی میں ایک غزل صالح کی پائی جاتی ہے۔چونکہ نوشاہی خاندان میں متقدمین میں سے اس نام کااور کوئی بزرگ نہیں ہوا۔لہذایہ غالباً آپ کی زبان سے ہوگی
تاکے بداغِ ہجراں ازشوقِ آں غزالہ |
پیراہنِ صبوری درخوں کشم چولالہ |
خوشوقتِ صبحگاہی کائید نسیم لطفے |
بوئے بمن رساندزاں بوئے نوغزالہ |
نہ نشست آتشِ دل بیرون زآبِ دیدہ |
تسکیں نیافت شوقم درہجرآں زنالہ |
بے غم چوگونہ باشم کزخاطرِ اسیراں |
آساں بروں نیائید غمہائے دیرسالہ |
صالح خوشم بہجراں گرنیست وصل جاناں |
گرقسمت الٰہی ایں شدمراحوالہ |
معترفین کمالات
آپ کی تعریف میں کئی بزرگوں نے کلام فرمایاہے۔
۱۔حضرت نوشہ گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ فرمایاکرتےکہ طلب حق کے واسطے ہمارے پاس صرف دو شخص آئے ہیں۔ایک سیّد صالح محمد۔دوسرامحمد صادق چٹھہ ۔ورنہ دوسرےاشخاص کسی دوسری غرض سے آئے اور ہم نے خودبخود اُن کو فیض دے دیا۔۱؎
۲۔مولاناعبدالحکیم سیالکوٹی رحمتہ اللہ علیہ نے حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے حضور میں التماس کی۔کہ مجھ پر وہ نظر توجہ فرماویں جو آپ نے سیّد محمد صالح پر مبذول فرمائی ہے۔آنجناب نے فرمایا۔مولوی صاحب جو نظر ہم نے اس سیّد پر کی ہے۔اگر پہاڑ پر کرتاتو وہ سُرمہ ہوجاتا۔یہ اسی کا حوصلہ تھاکہ برداشت کرگیاہے۔تمہاری اس قدراستعداد نہیں۔تم کو تمہارے حوصلہ کے مطابق فیض دیاجائے گا۔۲؎
۱؎،۲؎ تذکرہ نوشاہیہ ۱۲سیّد شرافت
۳۔منقول ہےکہ ایک بار حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ سیالکوٹ میں تشریف لے گئے۔وہاں مولاناعبدالحکیم سیالکوٹی رحمتہ اللہ علیہ نے عرض کیا۔یاحضرت میں آپ کے سب یاروں کے صحبت سے مستفید ہواہوں۔لیکن آج تک سید صالح محمد کی زیارت نہیں ہوئی۔سناہے کہ وہ بھی آپ کے خواص یاروں سے ہیں۔آنجناب نے فرمایاوہ ہمارے ساتھ سیالکوٹ آئے ہوئے ہیں۔چونکہ اخفاپسند ہیں ۔اس لیے وہ مجلس میں نہیں بیٹھتے۔مولوی صاحب نے تلاش کیا۔توآپ کو ایک کونہ میں چُھپ کربیٹھے ہوئےپایا۔ملازمت کی اور استفادہ کیااورکہاہم نے جیساسُناتھا۔ویساہی آپ کو دیکھا ہے اور بے شک آپ نے ادب سے وہ مرتبہ حاصل کیا ہے۔جواورکسی نے نہیں کیا۔۱؎
۴۔علّامہ شیخ محمد ماہ صداقت کنجاہی رحمتہ اللہ علیہ نے ثواقب المناقب میں لکھاہے۔
"ازانجاکہ شرافتِ ذات بکسب ِ کمالات دوبالامیگردوآں مصرعۂ برجستہ قصیدۂ سیادت کہ صاحبِ
لولاک مطلع اوست ،وآں مضمونِ شستۂ غزلِ اہلِ بیت کہ مہدی خاتم ولایت مقطع اوست،ہرگاہ بنظرِ عنایتِ حاجی کعبہ صدق وصفا مانندابراہیم سعد علوی قران السعدین سیادت و سعادت دریافت عالمے درملازمتِ آں نائبِ سیّدکونین بمصداق یاایھاالذین اٰمنوااٰمِنوا۔ایمان تازہ کروسبق عرفانِ گرفت
سبکروحےکہ داغِ عشق شمعِ محفلش گردد |
چوفانوسِ خیالی عالمے گردِ دلش گردد" |
۱۔تذکرہ نوشاہیہ ۱۲سیّد شرافت
اولاد
آپ کے تین بیٹے تھے۔
۱۔سیّد فیض اللہ۔
۲۔سیّد ضیأاللہ لاولدفوت ہوئے۔
۳۔سیّد شیرمحمد۔
یاران طریقت
آپ سے کافی مخلوق فیض یاب ہوئی۔آپ کے اکابر احباب یہ تھے۔
۱۔سیّد فیض اللہ فرزندآنجناب چک ساوہ ضلع گجرات
۲۔سیّد ضیأاللہ فرزندآنجناب چک ساوہ ضلع گجرات
۳۔سیّدشیرمحمد فرزندآنجناب چک ساوہ ضلع گجرات
۴۔سیّد عبدالرسول خوارزمی ہمشیرہ زادہ چک ساوہ ضلع گجرات
۵۔سیّد محمد سعید ہمشیرہ زادہ چک ساوہ ضلع گجرات
۶۔سیّد کرم اللہ ہمشیرہ زادہ چک ساوہ ضلع گجرات
۷۔شیخ ابدال شاہ چک ساوہ ضلع گجرات
۸۔مولانافخرالدین المعروف شیخ پکھو کالیکے ضلع گجرات
۹۔شاہ جمال نواں لوک ضلع گجرات
۱۰۔شیخ وساون بگھولہ ضلع گجرات
۱۱۔قاضی محمداکرم المعروف مولاناغنیمت شاعر کنجاہ ضلع گجرات
۱۲۔خواجہ محمد یونس لوہارالمعروف یوسف سائیں سوئیانوالہ گوجرانوالہ
۱۳۔مولانانورالدین بادرہ کوٹلی باوریاں گوجرانوالہ
۱۴۔شیخ محرَم شاہ چکیاں راداں سیالکوٹ
۱۵۔شیخ محمد فتوحی ٹاہلیانوالہ جہلم
۱۶۔شیخ احمد صدیق المعروف ملّاجیون حنفی رحمتہ اللہ علیہ انبیٹھ ملک ہندوستان
مدحیات
آپ کی تعریف میں مولاناغنیمت کنجاہی رحمتہ اللہ علیہ نے مثنوی نیرنگِ عشق میں لکھاہے۔
داستان درمنقبت امام الاولیأ حضرت شاہ صالح محمد قدس سرہٗ
الااےسربہ پیش افگندۂ خویش |
اسیرِ نفس خویش وبندۂ خویش |
ہوس رامرشدِ خودکردۂ حیف |
بلائے دربغل پروردۂ حیف |
مریدنفسِ دوں گردیدن از چیست |
ندانم سگ پرستی مذہبِ کیست |
چراگردیدۂ از سعی بے جا |
غلامِ زرخریدازحرصِ دنیا |
تواے بے پیر تا پیرت نباشد |
ہوائے معصیت دل میخراشد |
بسے گُم میردی خودراادب کن |
رہے گم کردۂ خضرے طلب کن |
اگرخواہی ہوائے جلوۂ دوست |
برنگِ خوں برآاززیرِ ایں پوست |
شوازفیضِ محبت ہائے کامل |
سوارِتوسنِ بے تابیِ دل! |
درے بنگر کہ چوں فیض ِ الٰہی |
درویابی مہیاہرچہ خواہی |
حریم ِکعبۂ جاں آرزوکن! |
بسوئے قبلۂ حاجات رُوکن |
رہ آدردازدلِ آگاہِ خودساز |
غنیمت رارفیقِ راہِ خود ساز |
بیابنگردرِ شاہے کہ آنجا |
تجلیہاست مشتاقِ تماشا |
نظر گرسُرمہ ساگردوزتوفیق |
بدیں درحلقہ بینی چشمِ تحقیق |
درِ کشورکشائے فیضِ سرمد |
امامِ عاشقاں صالح محمد |
تجلی شعلہ شمعِ خانۂ عشق |
دلِ پروانہ اش کاشانۂ عشق |
بہیں نوباوۂ گلزارِ وحدت |
گزیں گلدستۂ باغِ سیادت |
سروسرحلقۂ صاحبدلان ست |
جنیدِ وقت وشبلی ِ زمان ست |
خیال از جلوۂ اورُوح دربر |
وہن ازنامِ اولبریزِ کوثر |
کمانِ خود گرش حلّاج دادہ |
بوددردست پرزورش کبادہ |
سرم درپیشِ اوگرویدنے داشت |
جبیں چوں ماہِ نوبالیدنے داشت |
وفاجستم بعہدش دل گروشد |
حیاگفتم نگاہش روبروشد |
بیابگذارپیشِ شاہِ مادست |
کہ از بوئے کبابِ دل شوی مست |
کندازیک نگاہِ مہرپرور |
کفِ خاکِ تراخورشیدِ انور |
مئے شوقت اگردرجام ریزد! |
اناالمقصوداز گردِ توخیزد |
دگرخود راکنی گُم بردرِ شاہ |
بہ بینی خویش رادربزمِ دلخواہ |
ہماں بزمے کہ نامِ اوست عرفاں |
ہماں بزمے کہ جامِ اوست ایماں |
چولعلِ اودرِ معنی کشائید |
شنیدن مایۂ دریاربائید |
بیاتا بردرِ سیّد نشنیم |
نزولِ رحمتِ حق را بہ بینیم |
بہشتِ کامرانی جلوہ فرماست |
طوافِ کعبۂ ہستی مہیاست |
بیاساقی بیااے من مریدت |
بدہ جامے کہ خواہد شد شہیدت |
ابیات
ازشیخ محمد فتوجی صاحب جہلمی رحمتہ اللہ علیہ
شاہ حاجی دالاڈلابَنراصالحِ باہیجھ وکیلاں |
نظر کرے وَل دانشمنداں دُورکرے تحصیلاں |
واصل حق کرے چاجھیدے دل دیاں بال قندیلاں |
کہے فتوحی نام الٰہی داخل کریں خلیلاں |
شاہ عبدالوہاب سر تے والد مرشد ہے تُدھ حاجی! |
لہنداچڑھداکُل نِوائیوکیامفتی کیاقاضی |
جوتُدھ زہد کیتانال نفسے کیاکہاں میں پازی |
کہے فتوحی صورت تیری جو دیکھےسوراضی |
عاشق تیرانوشہ حاجی توں محبوب ضمیری |
سبھناں یاراں وچوں کیتواوّل آخرمیری |
ہشت دھات داپِنڈاتیرالگدی ناہیں تیری |
کہے فتوحی نوشہ صالح قائم تیری پیری |
تاریخ وفات
سیّد صالح محمد کی وفات۱؎کتاب مثنوی مولاناغنیمت ۲؎میں ۱۱۱۸ھ لکھی ہے۔ جومناقبات نوشاہیہ میں ۲۰۷۴ھ تحریرہے۔ وہ صحیح نہیں۔
مدفن
آپ کا مزاراظہرموضع چک سادہ میں گاؤں سے مغربی جانب ہے۔یہ گاؤں شہرگجرات سے تین میل مشرق کی طرف سیالکوٹ والی کچی سڑک کے جنوبی کنارہ پرہے۔دریائے چناب گاؤں سے جنوب کی طرف سے گذرتاہے۔
۱؎حضرت سیدصالح محمد کا مزید ذکر شریف التواریخ کی تیسری جلد کے پہلے حِصّہ میں لکھاجائےگا۱۲۔
۲؎اس مثنوی کا نام گلزار محبت ہے جو خطی نسخہ ہے۱۲۔
تعمیرروضہ
آپ کے مزارشریف کے گرد پختہ چاردیواری تھی۔۱۳۵۲ھ میں میاں غلام جیلانی بن شیخ محمد امین لاہوری اور میاں غلام صمدانی بن شیخ محمدصدیق لاہوری نے مبلغ چھ ہزار روپیہ کی لاگت سے قبرپر عالی شان گنبدتعمیرکرایاہے۔روضہ قدس میں چھ قبریں ہیں۔سب سنگ مرمر کی۔فرش منقش سنگ مرمراور سنگ سیاہ سے۔روضہ عالی کے دو دروازے ہیں۔ایک جنوب کی طرف۔دوسرامشرقی طرف۔جنوبی دروازہ کی چوکھٹ بھی سنگ مرمرکی ہے۔
یہ چوکھٹ کسی بادشاہ نے حضرت داتاگنج بخش لاہوری رحمتہ اللہ علیہ کے روضہ شریف کے دروازہ پر لگوائی تھی۔جو عرصہ چھ سو سال تک وہاں نصب رہی۔جب وہ روضہ نیاتعمیرہوا۔تومہاراجانِ درگاہِ داتاصاحب یہ چوکھٹ شیخ فضل نورافغان قادری نوشاہی کوبطور تبرک عطافرمائی۔جو کہ وہاں مسجد داتا صاحب میں پچاس سال تک موذن رہے تھے۔چونکہ وہ سلسلہ عالیہ حضرت سیّد صالح محمد رحمتہ اللہ علیہ کے مرید تھے۔اس لیے انہوں نے اس روضہ شریف کے دروازہ میں لگوادی۔
قطعہ تاریخ
ازمثنوی گلزارِ محبّت غنیمت کُنجاہی رحمتہ اللہ علیہ
چوشداس حق خلیلے عشق ملّت |
بخواب راحتے درمہدِ تُربت |
ہدایت کعبۂ اوباد معمور |
باولادِ گرامی چَشم بَددُور |
خرد تاریخ سالش از رہِ صدق |
بگفتاہے فتاد آں کعبۂ عشق۱۱۱۸ھ |
دیگر
سیّدصالح محمد متقی وپارسا |
آنکہ بوداومرغنیمت راامام و پیشوا |
سالِ ہجری یکہزارویکصد دہم ہشت ودہ |
رفت ازدنیائے فانی جانبِ دارالبقا |
نقشہ روضہ شریف
سیدعلیم اللہ سید جلال شاہ سید عبدالواسع
مشرقی دروازہ مغرب
سید محمد ظریف سیدعبدالوہاب ثانی سید صالح محمد
(خلیفہ حضرت نوشہ صاحبؒ)
دروازہ
سیدفیض اللہ
مادہ ہائے تاریخ
۱۔دخل الجنت۔
۲۔سخاوت مزاج۔
(سریف التوایخ جلد نمبر ۲)