آپ حضرت حاجی محمد نوشاہ قادری کے خاص مریدوں میں سے تھے مقبولان حق سے شمار ہوتے تھے ہمیشہ بے خود رہتے صاحب تذکرہ نوشاہی لکھتے ہیں کہ آپ نواب میر مرتضیٰ خان کے بیٹے تھے جو عالمگیری سلطنت کا ایک امیر کبیر تھا، آپ ہفت ہزاری منصب پر فائز تھے ایک بار حضرت نوشہ قادری کی خدمت میں حاضر ہوئے، تو ایک نگاہِ التفات سے تارک الدنیا ہوگئے، کثرت فرائض سے دست بردار ہوگئے، جذبہ و مستی نے مناصب اور علائق دنیا سے محفوظ کردیا، ان دنوں حضرت نوشہ گنج بخش مرضِ موت میں صاحب فراش تھے حضرت شاہ عبداللہ آپ کے پاس حاضر ہوئے، خدمت میں رہے، مگر حضرت نوشہ کے رعب و جلال کے پیش نظر اظہار مدعا کرنے سے قاصر تھے آخر باہر آئے تو ایک رقعہ لکھا کہ اگرآپ کی توجۂ خاص سے مجذوب ہوجاؤں تو دنیا کے مصائب اور علائق سے چھوٹ جاؤں۔‘‘ حضرت نوشہ نے فرمایا کہ شاہ عبداللہ کو کہہ دو کہ اس حالت میں مخلوق خدا کا زیادہ فائدہ ہے، فرائض سر انجام دو مگر علم باطنی سے سرشار ہوکر یاد خداوندی میں مشغول رہو، لیکن عبداللہ شاہ نے پھر التماس کی کہ مجھے مجذوب بنا دیا جائے حضرت نوشہ نے اپنا ایک کھیس اپنے خلیفہ شیخ صدرالدین کے ہاتھ بھیجا اور فرمایا: شاہ عبداللہ کے ساتھ دریا تک جانا، جب دونوں دریائے چناب کے کنارے پہنچے تو شاہ عبداللہ کی حالت تبدیل ہونے لگے، مست و مجذوب ہوگئے، حالت استغراق کا غلبہ ہوگیا، یہ غلبہ ایسا ہوا کہ کسی سے کوئی تعلق نہ رہا، تن تنہا دریاؤں کے کنارے اور بیابانوں میں گھومنے لگے بادشاہ عالمگیر کو آپ کی حالت کی خبر ملی، تو ان کے مناصب موقوف کردیے، اور ان کے بھائی کو سہ (۳) ہزاری کا عہدہ دے دیا، اور ان کے اہل و عیال کے لیے نقد وظیفہ اور جاگیر مقرر کردی آپ کی وفات ۱۱۳۱ھ میں ہوئی۔
چو از دنیا بفردوس بریں رفت بتاریخ وصالِ آں شہِ دین
|
|
جناب شیخ عبداللہ مجذوب بخود فرمود سید شاہ مجذوب ۱۱۳۱ھ
|
(حدائق الاصفیاء)