آپ سادات گیلانیہ میں سے تھے، مظہر خوارق و کرامات تھے، زاہد، متقی، عالم، عامل اور پیر کامل تھے، آپ دعا فرماتے تو قبولیت دوڑ کر آئی دنیا و عقبیٰ کے حاجت مند حاضر خدمت ہوتے اور مستفیض ہوتے۔
بادشاۂِ شاہ زمان کے لشکر کے حملے کے وقت حضرت نے اعلان کیا کہ ہمارا محلہ لشکر کی لوٹ مار سے محفوظ رہے گا اس لیے ہمارے محلہ کا ایک فرد بھی کسی قسم کا خوف و ہراس نہ کرے امر واقعہ یہ ہے کہ شاہ زمان کے لشکر نے سارے علاقے کو لوٹ مار کا نشانہ بنایا مگر حضرت کے محلہ کی طرف ایک سپاہی بھی نہیں آیا، اگر کوئی محلے میں داخل ہوا بھی اخلاص و عقیدت کے ساتھ حاضر ہوا اور گردن جھکاکر واپس چلا گیا۔
حضرت کا معمول تھا کہ آپ نے اپنے دروازے کے باہر لکڑی کا اک تختہ نصب کردیا تھا لوگ علی الصباح آتے اور پانی کے پیالے اس تختے پر رکھ دیتے آپ نماز سے فارغ ہو کر اپنے وظائف اور دیگر معمولات سے اٹھ کر باہر نکلتے اور پانی دم کرتے جاتے لوگ اپنا اپنا پیالہ اٹھالے جاتے یہ پانی بیماریوں کے لیے آب شفا ہوتا جو پیتا شفایاب ہوتا محلے میں ایک رنگریز فاضل نامی شخص رہتا تھا وہ آپ سے حسد کرتا عداوت رکھتا اور اپنے بغض کا اظہار کرتا رہتا ایک دن اس کی بدبختی یہاں تک پہنچی کہ جس تختے پر لوگ پیالے رکھتے تھے ہر رات اندھیرے میں گندگی پھینک دیتا لوگ اپنے طور پر اس تختے کو صاف کردیتے آہستہ آہستہ یہ خبر حضرت تک پہنچائی گئی کہ کوئی گمنام شخص یہ حرکت کرتا ہے آپ نے فرمایا تم لوگ صبر کرو ایسا کرنے والا اللہ کے غضب سے بچ نہیں سکتا خود پھنس جائے گا چند دن گزرے تھے کہ فاضل و رنگریز کا دماغی توازن خراب ہوگیا، وہ گلیوں میں پھرتا اور گندگی اٹھا اٹھاکر کھاتا آخر اسی حالت میں مرگیا نَعوذ باللہ من غضب الاولیاء
ایک دن آپ کی ایک خادمہ بی بی نامی نے آپ کی خدمت میں حاضر ہوکر گزارش کی حضور میرے ہاں اولاد نہیں ہوتی، دعا فرمائیں اللہ تعالیٰ کرم فرمائے، آپ نے دعا کی اور فرمایا تقدیر میں لکھا ہے کہ تمہیں اللہ تعالیٰ چار بیٹے دے گا ایک توبچپن میں ہی فوت ہوجائے گا دوسرا دور دراز ممالک کے سفر میں نکل جائے گا اور واپس نہیں آئے گا تیسرا فقیر ہوجائے گا البتہ چوتھا تمہارے پاس رہے گا اور دنیا داری میں ترقی کرے گا ایسا ہی ہوا۔
حضرت شاہ حسین قدس سرہ گیارہ ربیع الثانی ۱۲۰۵ھ میں فوت ہوئے، وفات کے وقت آپ کی عمر ۶۹ سال تھی، آپ کا مزار گوہر بار سید مٹھ لاہوری میں واقع ہے۔
چوشد پر تو افگن بخلد بریں بتاریخ ترحیل آن شاہ دین
|
|
حسین آن بچشم جہاں نور عین بگو شاہ عاشق مکرم حسین ۱۲۰۵ھ
|
(خذینۃ الاصفیاء)