اپنے علمی اور روحانی فضل و کمال کے باعث مشائخ قادریہ میں بڑے عظیم المرتبت شیخ گزرے ہیں۔ صاحبِ خوارق و کرامت تھے۔ مکارمِ اخلاق میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔
نقل ہے ایک دفعہ کسی حادثہ کے باعث آپ کے ساتھی سواروں میں سے ایک سوار کے گھوڑے کی آنکھ کا ڈھیلا نکل گیا۔ فرمایا: ابھی یہ ڈھیلا گھوڑے کی آنکھ میں رک ۔۔۔۔
اپنے علمی اور روحانی فضل و کمال کے باعث مشائخ قادریہ میں بڑے عظیم المرتبت شیخ گزرے ہیں۔ صاحبِ خوارق و کرامت تھے۔ مکارمِ اخلاق میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔
نقل ہے ایک دفعہ کسی حادثہ کے باعث آپ کے ساتھی سواروں میں سے ایک سوار کے گھوڑے کی آنکھ کا ڈھیلا نکل گیا۔ فرمایا: ابھی یہ ڈھیلا گھوڑے کی آنکھ میں رکھ کر پٹّی باندھ دو۔ تھوڑی دیر کے بعد فرمایا: گھوڑے کی آنکھ سے پٹّی کھول دو۔ چنانچہ پٹّی کھول کر گھوڑے کی آنکھ کو دیکھا گیا تو درست اور صحیح و سلامت تھی اور اسے نظر آرہا تھا۔
نقل ہے ایک دفعہ آپ سفر میں تھے۔ رات کو ایک جگہ پر قیام فرمایا۔ آپ آرام فرمارہے تھے کہ چند قزاقوں نے آکر سامان لُوٹنا شروع کردیا۔ اتنے میں خادم کی آنکھ کُھل گئی۔ اس نے آپ کو پکارا کہ تشریف لایئے، مدد کیجئے۔ قزاق سامان لُوٹ رہے ہیں۔ فرمایا: کچھ غم نہ کرو، لُوٹنے دو واپس لے آئیں گے۔ قزاق سامان لُوٹ کر ابھی تھوڑی دُور ہی گئے تھے کہ دیوانے ہوگئے اور کُتّوں کی طرح آواز نکالنے لگے۔ اُلٹے پاؤں حاضرِ خدمت ہو کر معذرت چاہی۔ آپ نے اپنے لوٹے سے پانی لے کر ان کے منہ پر چھڑکا۔ اسی وقت اپنی اصلی حالت میں آگئے اور حلقۂ ارادت میں داخل ہوئے۔ بقول صاحب سراج الاولیاء ۱۱۶۲ھ میں وفات پائی۔ مزار حجرہ میں ہے۔
بعد حسن چوں ازجہاں رفت بست بگو ’’مجتبیٰ شاہِ عرفاں‘‘ وصال ۶۲ھ۱۱
|
|
شہِ محسن آں پیرِ کامل حسین! وگر ’’سیّد بو فضائل حسین‘‘ ۶۲ھ۱۱
|
|
|