قطب الانام غوث الاسلام حضرت سیّدشاہ حاجی محمد نوشہ گنج بخش قدس سرہٗ
قطب الانام غوث الاسلام حضرت سیّدشاہ حاجی محمد نوشہ گنج بخش قدس سرہٗ (تذکرہ / سوانح)
پیشوا ماہِ لقا حاجی نوشہ گنج بخشؒ |
پیرِکامل باخداحاجی نوشہ گنج بخش |
پیرنوشہ رازدانِ انبیاؤ مرسلین! |
رنج وغم کی ہے دواحاجی نوشہ گنج بخش |
شاہ رحماں کو کیابھرپورنوشہ پیرنے |
چشمہ ہے عرفان کا حاجی نوشہ گنج بخش |
دست بستہ جو ہواحاضر تیرے دربارپر |
نورسے دامن بھراحاجی نوشہ گنج بخش |
اولیاسب کررہے ہیں نازتیرے نام پر |
شہ سلیماں کی رضاحاجی نوشہ گنج بخش |
باغِ نوشہ کا ظفر۱؎ادنیٰ ساغنچہ ہے حقیر |
درتیرے کاہوں گداحاجی نوشہ گنج بخش |
۱؎یہ غزل میاں رحمت علی ظفرقادری نوشاہی مصطفائی ساکن کڑیال الانوالی چک نمبر۱۹ ضلع شیخوپورہ سے ہے۔ ۱۲ شرافت
اوصافِ جمیلہ
فخرالمشائخ والعلمأ امام الصوفیتہ و الاولیأ مرکزِ دائرہ توحید،چراغِ محفلِ تفرید، آفتابِ ولایت عرفان،ماہتابِ اوجِ ہدایت و احسان،نجمِ سپہرِ ملکوت،غواصِ بحرلاہوت،گوہر لُجّہ احدیت،دُرِّ معدنِ ہُویّت،خلاصہ خاندانِ مصطفویہ،سلالہ اہلِ بیت نیویہ،گلبنِ بوستانِ علویہ،گُلدستہ ریاضِ مرتضویہ،سرحلقہ ارکانِ قادریہ،امامِ خاندانِ نوشاہیہ،قطب المدار،سیّدالابرارحضرت مولانا سیّدشاہ حاجی محمد نوشہ گنج بخش علوی قادری رضی اللہ تعالےٰ عنہ۔
آپ خاندانِ سادات علویہ عباسیہ کے اکابرعمائدین سے تھے۔
تاریخ ولادت
آپ کی ولادت باسعادت بروزدوشنبہ۔یکم رمضان ۹۵۹ھ میں ہوئی۔
مادہ ہائے تاریخ
۱۔یوم ولادت نوشہ صاحب۔
۲۔ولادت بدن نوشہ صاحب۔
۳۔بزرگ ِخلق۔
۴۔عزتِ کائنات۔
آپ کی تعلیم وتربیت ،بیعت و خلافت اورمعمولات اوراخلاق وعادات و مقامات و کرامات وغیرہ حالات اِس سے پہلے شریف التواریخ کی پہلی جلدموسوم بہ تاریخ الاقطاب کے دوسرے باب چھبیسویں فصل میں اوراس کی دوسری جلدموسوم بہ طبقات النوشاہیہ یعنی جلدہذاکےطبقہ اول اور طبقہ دوم میں مفصل طورپر لکھے جاچکے ہیں۔اب اِس طبقہ سوم میں مختصر تذکرہ ہی تبرکاً کیاجاتاہے۔
جاگیردرگاہ شریف
جب سلطان ابوالمظفرشہاب الدین محمد شاہجہاں بادشاہ غازی صاحبقرانِ ثانی رحمتہ اللہ علیہ کو حضرت نوشاہِ عالیجاہ رحمتہ اللہ علیہ کے تصرّف سے قلعہ قندھارفتح ہوا۔تو اس نے مصارف لنگر کے واسطے موضع ٹھٹہ عثمان اوربادشاہ پورفتابطورجاگیرہدیہ کئے۔جن کا خراج ایک لاکھ تیرہ ہزارایک سو ساٹھ دام یعنی دوہزاراکہترروپیہ سالانہ آپ کو ملتاتھا۔اس کے متعلق سارے سندات اور فرامین شاہی جو مزیّن بمواہیرسلاطین مغلیہ ہیں۔اس وقت مؤلف کتاب ہذافقیرسیّد شرافت عافاہ اللہ کے کتب خانہ میں موجود ومحفوظ ہیں۔دوفرمانوں کابلفظہٖ اقتباس یہاں مختصراً درج کیاجاتاہے۔
۱۔"دریں وقت میمنت اَقران فرمانِ والاشان واجب الاذعان صادرشد کہ موضع ٹھٹہ عثمان وغیرہ
دربست متعلق پرگنہ ہرات صوبہ پنجاب۔بجمع یک لک وسیزدہ ہزارویک صد وشست دام کہ دوہزار و
ہفتادویک روپیہ حاصل آنست دروجہ انعام التمغاجہت صرفِ درگاہِ حضرت شیخ حاجی محمد و فضلا" الخ۔
۲۔"موضع ٹھٹہ عثمان و بادشاہ پورفتاعملہ رسول پورہیلاں پرگنہ ہرات دوابہ چُہنب مضاف صوبہ پنجاب بجمع یک لک وسیزدہ ہزارویک صد وشست دام"۔
کرامات
آپ کی کرامات وخوارق عادات بحد تواترپہنچ چکی ہیں۔حضرت غوث الاعظم سید عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کے بعدکوئی ایسابزرگ نہیں گذرا۔جواس قدرکثیرالکرامات ہو۔اسی واسطے آپ کو محی الدین ثانی کہاجاتاتھا۔کماھوفی التذکرہ نوشاھیہ للسید الحافظ محمد حیات الربانی قدس سرہ۔
آج تک آپ کے مزارشریف سے بھی اسی طرح کرامات جاری ہیں اورآپ کاقوی التصرف ہوناظاہر و باہر ہے۔
مردہ جنین کا زندہ ہونا
جمہورخلائق سے منقول ہے کہ رائے وجہ اللہ خاں المعروف ونجہل خاں کھرل داناآبادی کی بیوی مسمات نصیبو کے پیٹ میں بچہ خشک ہو کر کرنگ ہوگیاتھا۔ہر چند علاج کئے اورفقیروں،بزرگوں سے دعائیں کروائیں مگرکوئی فائدہ نہ ہوا۔حتےٰ کہ بارہ سال کا عرصہ گذرگیا۔امرِ الٰہی سے حضرت نوشاہ عالیجاہ رحمتہ اللہ علیہ کو ساندرپارکے سفرکااتفاق ہوا۔شیخ عبدالرحمٰن پاک صاحب بھڑیوالہ رحمتہ اللہ علیہ اورچند دیگر خادم درویش بھی ہمراہ تھے۔آپ سیر کرتے ہوئے موضع واناآباد میں پہنچےاوروہاں کی مسجد میں فروکش ہوئے۔جب لوگوں کو حضور کی تشریف آوری کی اطلاع ہوئی۔
توسلام کے لیے حاضرہونے شروع ہوئے۔چنانچہ رائے ونجہل خاں بھی بمعہ اپنی اہلیہ کے حضورکی خدمت میں آیااورایک پیالہ دودھ کا پیش کیا۔آپ نے دودھ نوش فرماکراپناپسخوردہ ان کو عنایت کیااورفرمایاپی جاؤاوران کی درخواست کے بغیرازراہِ کشف ان کے ارادہ سے آگاہ ہوکران کوبشارت دی کہ خداتعالےٰ تمہارے ہاں لڑکا عطاکرے گا۔جوطبقہ عُشاق میں سے ہوگااورقیامت تک اُس کانام شہرہ آفاق رہے گا۔چنانچہ انہوں نے دُودھ کاوہ تبرّک پی لیا۔ اُسی وقت قدرتِ خداوندی سے وہ خشک بچہ(جنین مردہ)پیٹ میں سبز(زندہ)ہوگیااور اس میں خداتعالےٰ نے رُوح ڈال دی اورمیعاد مقررہ پر وہ لڑکاتولد ہوا۔جس کا نام والدین نے مرزارکھا۔ جو جوان ہوکر مسمات صاحبہ دخترکھیواسیال پر عاشق ہوگیااوراُسی عشق میں شہیدہوگیا۔
۱۔مولوی حکیم محمد اشرف فاروقی منچری رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے رسالہ مناقب نوشاہی میں اس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے ؎
مرزے دے پیودُدھ دیاسی! |
مرزاکُکھ وجہ سُک گیاسی |
چونہہ پہراں وچہ جم پیاسی |
باراں برس گذاری دا |
۳۔مولوی حکیم عبدالحق چشتی نظامی رحمتہ اللہ علیہ ساکن ہرلانوالی ضلع گوجرانوالہ نے کتاب تفنگِ عشق میں مرزاکی ولادت کے حالات میں لکھا ہے ؎
دعائے شاہ رابُدیک نشانی! |
بحمداللہ ازاں رمزِ نہانی |
بہ نوشہ گنج بخش آں پیرمشہور |
کلام ونامِ اونورٌ علےٰ نور |
بمادرپدراودادایں نشانے |
کہ باشد پسرِ تویک شاہ کمانے |
چومشک از عشق خواہد گشت مشہور |
ہمہ دانند اوراقُرب وہم دُور |
ایک مجذوم کا تندرست ہونا
عہدِحکومتِ خالصہ کا واقعہ ہے کہ ایک مولوی صاحب غلامی تخلّص جو عرصہ سے مرضِ جذام میں
مبتلاتھےاورکسی علاج سے فائدہ نظرنہ پایا۔توحضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی درگاہ عالیہ پر حاضرہوکرچندروز معتکف رہے اوریہ مناجات منظوم کرکے مزار شریف کے سامنے کھڑے ہوکر پڑھی۔بلکہ دیوارشریف پر تحریرکردی۔اُسی رات کو حضور کی زیارت ہوئی۔آپ نے اُن کے جسم پرہاتھ پھیرا۔تومولوی صاحب شفایاب ہوگئے اوربالکل تندرست ہوکر واپس رخصت ہوئے۔وہ مناجات یہ ہے۔
غزلِ مناجات
اے شریعت راشعارازخرقۂِ پشمینِ تو |
دے طریقت رامدارازپائے یاتمکینِ تو |
اے حقیقت یافت ازتوزیورِ تحقیق دیں |
ہست عرفاں رمزِ گوشہ دیدۂ حق بینِ تو |
توعجب سردی زِ گلزارِ ولایت دستگیر |
اے کہ ولیانِ جہاں آمد تماشا بینِ تو |
زدعَلَم برچرخِ ہفتم حضرتِ عالی جناب |
گشت روشن شرق و مغرب از تبسّم سینِ تو |
نامِ توچوں اسمِ اعظم داشت تاثیر عجب! |
ہم چوموسےٰقُم بِاذنِی ازلبِ تمکینِ تو |
بلکہ بہترصدمراتب باصد ازدم اوست زانکہ |
روزمردہ زندہ کردے ہردلِ غمگینِ تو |
بہر ِ استقبالِ دیدارت ملائک آسماں |
باقصور و حورآمد چونکہ شدتکفینِ تو |
یامحمدحاجیِ نوشہ خدارادستگیر |
شدغلامی غاشیہ بردوش بہرزینِ تو |
ملفوظات
چونکہ طالبانِ حقیقت کے واسطے اولیأاللہ کے ارشادات مشعل راہ ہوتے ہیں۔اس لیے کتاب چہار بہار سے آپ کا وہ مکالمہ یہاں درج کیاجاتاہے۔جوآپ کے خلیفہ ارجمند اورمسترشدحق پسند، زبدۃ الابرار،امام الخیارحضرت شیخ پیر محمد سچیار نوشہروی رحمتہ اللہ علیہ اورنوشاہ عالیجاہ رحمتہ اللہ علیہ کے درمیان ہواتھا۔حضرت سچیارصاحب رحمتہ اللہ علیہ سوال کرتے ہیں اورحضرت نوشہ گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ جواب دیتے ہیں۔سالکانِ طریقت کے واسطے ایک بہترین دستورالعمل ہے۔وہ یہ ہے۔
۱۔سوال۔درویش کے لیے سب سے پہلاضروری کام کیاہے؟
جواب۔علم حاصل کرنا۔
۲۔سوال۔علم سے کیافائدہ حاصل ہوتاہے؟
جواب۔علم سے بُرے لوگ بَھلے ہوجاتے ہیں اورکہترلوگ بہترہوجاتے ہیں۔
۳۔سوال۔بَھلائی اوربرائی کیاہے؟
جواب۔بھلائی عقلمندی اوربرائی بےوقوفی ہے۔
۴۔عقلمندی اور بے وقوفی کیا ہے؟
جواب۔اپنے نفع و نقصان کو پہچانناعقلمندی ہے اورنہ پہچاننابے وقوفی ہے۔
۵۔سوال۔نفع اورنقصان کیا ہے؟
جواب۔نفع وہ چیزہے جو ہمیشہ ساتھ رہے اورساتھ جائے۔نقصان دہ ہےجوساتھ نہ دے۔
۶۔سوال۔وہ کون سی چیزہے جو ساتھ دیتی ہے اوروہ کون ہے جو ساتھ نہیں دیتی؟
جواب۔دنیاکی محبت ساتھ چھوڑدیتی ہے۔مگرمولاکی محبّت ساتھ رہتی ہے اور ساتھ جاتی ہے۔
۷۔سوال۔خداکی محبّت کس چیزسے پیداہوتی ہے؟
جواب۔علم سے۔
۸۔سوال۔کس علم سے محبّت حاصل ہوتی ہے؟
جواب۔جس علم سے حلم پیداہو۔
۹۔حلم کیسے پیداہوتاہے؟
جواب۔خوش پوشی اورخوش نوشی اور خوش خوابی کوترک کرنے سے۔
۱۰۔سوال۔اِن چیزوں کو ترک کرنے سے کیاملتاہے؟
جواب۔دل کی صفائی۔
۱۱۔سوال۔دل کی صفائی سے کیاحاصل ہوتاہے؟
جواب۔معرفتِ خداوندی۔
۱۲۔سوال۔معرفت سے کیاحاصل ہوتاہے؟
جواب۔جوکہنے،لکھنے اورسمجھنے میں نہیں آتا۔
۱۳۔سوال۔جوکہنے۔لکھنے اورسمجھنے میں نہیں آسکتا۔وہ کیاہے؟
جواب۔جومکان ونشان سے پاک ہے اورذات صفات نہیں رکھتا۔صرف اپنی تسلّی کے لیے مولا نام رکھ دیاہے۔
۱۴۔سوال۔سالک کسے کہتے ہیں؟
جواب۔سلوک والے کو۔
۱۵۔سلوک والاکون ہوتاہے؟
جواب۔جوظاہربین نہ ہو۔
۱۶۔ظاہر بین کسے کہتے ہیں؟
جواب۔جوظاہر کی رنگتوں پر مائل ہوجاوے۔
۱۷۔سوال۔اگرظاہر رنگت نہ دیکھے توکیادیکھے؟
جواب۔ہرصورت اور جگہ میں خداکاجلوہ دیکھے۔
۱۸۔جلوہ خداوندی کب دکھائی دیتاہے؟
جواب۔جب اپنے آپ کو اپنے آپ میں گُم کردے۔
۱۹۔سوال۔اپنے آپ کو کیسے گم کرسکتاہے؟
جواب۔چُپ رہ۔وہی جان سکتاہے جو گم ہُوجاوے۔
۲۰۔سوال۔ہمیشہ کی زندگی کب ہاتھ آتی ہے؟
جواب۔جب نیست ہوجاتاہے۔
۲۱۔سوال ۔جب نیست ہوگیاتوباقی کیارہا؟
جواب۔نیست کامطلب یہ ہے کہ تودنیاکی طرف سے نیست ہوجائے اوردنیاتیرے سامنے نیست ہوجاوے۔
۲۲۔سوال۔نیستی کِس طرح ہوتی ہے؟
جواب۔عشق سے۔
۲۳۔سوال۔عشق کیاہوتاہے؟
جواب۔عشق ایک آگ ہے جو اس میں پڑتاہے وہ آگ ہی ہوجاتاہے۔
۲۴۔سوال۔صوفی کون ہوتاہے؟
جواب۔جوصفائی والاہو۔
۲۵۔سوال۔صفائی کیسے حاصل ہوتی ہے؟
جواب۔شہوتوں کودُورکرنے سے۔
۲۶۔سوال۔شہوتیں کِس طرح دُورہوسکتی ہیں؟
جواب۔جب انسان اپنے نفس پر حکومت حاصل کرلے۔
۲۷۔نفس پر حکومت کیسے حاصل ہوسکتی ہے؟
جواب۔جوکام کرے نفس کے خلاف کرے۔
۲۸۔نفس کے مخالف ہونابہت مشکل ہے۔یہ کیسے ہوسکتاہے؟
جواب۔اپنی زندگی میں عیش وعشرت کو فناکردےاوردنیاکو ہیچ سمجھے۔
۲۹۔سوال۔مَست کِس کو کہتے ہیں؟
جواب۔جوقیدسے آزادہو۔
۳۰۔سوال۔کس قید سے آزادہو؟
جواب۔زندگی اورموت،کفراوراسلام،دوست اوردشمن سب کو برابرسمجھے اور ان قیدوں سے پاک ہوجاوے۔
۳۱۔سوال۔وہ تودیوارکی طرح ہوگیا۔اُس مست کاکیافائدہ؟
جواب۔مست فائدے اورنقصان کاذمّہ دارنہیں۔
۳۲۔سوال۔مسلمان کس کو کہتے ہیں؟
جواب۔اسلام والے کو۔
۳۳۔اسلام کیاہے۔
جواب۔امرونہی کی پیروی کرے۔
۳۴۔پیروی کیسے ہوتی ہے؟
جواب۔سچّے دل سے فرمانِ الٰہی پرعمل کرے۔
۳۵۔اسلام کی حدکیاہے؟
جواب۔بال برابربھی اسلام سے باہرقدم نہ رکھے۔
۳۶۔اسلام کی پختگی کیاہوتی ہے؟
جواب۔فرمان پر عمل کرتارہے اوراپنی دلیل کو چھوڑدے۔
۳۷۔کافرکِس کو کہتے ہیں؟
جواب۔جوراستے سے گُم ہو۔
۳۸۔سوال۔کس راستے سے گُم ہو؟
جواب۔راہِ راست سے۔
۳۹۔سوال۔منافق کسے کہتے ہیں؟
جواب۔جس کا ظاہر ہو اورباطن نہ ہو۔
۴۰۔سوال۔دیوانہ کو ن ہوتاہے؟
جواب۔جواپنے خیال میں محوہواوردوسروں کی قیل وقال سے کچھ غرض نہ رکھتاہو۔
۴۱۔سوال۔ابدی دولت کیاہے؟
جواب۔صبروشکر۔
۴۲۔سوال۔صبرزیادہ اچھاہے یا شکر؟
جواب۔صبرنہ ہو توشکرکیسااورشکرنہ ہو توصبرکیسا۔
۴۳۔سوال۔مسافراورمقیم میں کیا فرق ہے؟
جواب۔اصل چیز نیکی ہے۔اگرمقیم نیک ہوتو مسافرکو بھی نیکی کا حِصّہ ملےگااوراگرمسافر نیک ہو تو
جہاں جائے گا۔نیکی کی تعلیم دے گااورلوگوں کو فائدہ پہنچے گا۔نیکی کے سوادونوں کچھ نہیں۔
۴۴۔سوال۔ایمان کیاہے؟
جواب۔ایمان یہ ہے کہ اللہ تعالےٰ بندے کو قبولیّت عطافرماوے۔یہ اسلام کی پختگی سے حاصل ہوتاہے۔
۴۵۔سوال۔ہرچیزکی ملکیّت کیسےحاصل ہوتی ہے؟
جواب۔جو شخص اپنی ہستی کے دعوٰی کو چھوڑ دیتاہے۔مال ودولت،گھربار،سب جہان اُس کو ہوجاتاہے۔
۴۶۔سوال۔انسان کے لیے سب سے بہتریادگارکیاہے؟
جواب۔بہتریادگارموت ہے۔
۴۷۔سوال۔انسان کیسے بن سکتاہے؟
جواب۔اللہ والوں کی صحبت سے۔
۴۸۔سوال۔انسان کو ن ہوتاہے؟
جواب۔جوخداکو پہچانتاہو۔
۴۹۔سوال۔خداکو پہچاننے کا طریقہ کیاہے؟
جواب۔دوطریقے ہیں۔
ایک یہ جانناکہ سب کچھ اُسی سے ہے یعنی ہمہ از دوست۔
دوسرایہ کہ سب وُہی ہے۔یعنی ہمہ اوست۔
۵۰۔سوال۔دنیاکے اسباب کیاہیں؟
جواب۔گُمراہی۔
۵۱۔سوال۔ عاقبت کسے کہتے ہیں؟
جواب۔دل شکستہ ہونا۔
۵۲۔سوال۔طالب کسے کہتے ہیں؟
جواب۔طلب رکھنے والے کو۔
۵۳۔سوال۔کس کی طلب رکھے؟
جواب۔خودطلب۔خود طالب۔خود مطلوب ہو۔
۵۴۔سوال۔خداسے کیا مانگناچاہیئے؟
جواب۔معرفت(اس کی پہچان)۔
۵۵۔سوال۔زندگی کیسے گذرانی چاہیئے؟
جواب۔بغیر دعوےٰ کے۔
۵۶۔سوال۔بزرگی کیسے حاصل ہوتی ہے؟
جواب۔تھوڑاکھانے سے۔کم خوار کم خوار۔بسیارخواربسیارخوار۔
۵۷۔سوال۔دنیامیں سب سے زیادہ حق کِس کا ہے؟
جواب۔ماں باپ کا۔
۵۸۔سوال۔سب سے زیادہ خدمت کِس کی کرنی چاہیئے؟
جواب۔مسکینوں کی اور ماں باپ کی۔
۵۹۔سوال۔بدی کِس کے ساتھ کرنی چاہیئے؟
جواب۔اپنے نفس کے ساتھ۔
۶۰۔سوال۔وہ کونسی کھیتی ہے جو ایک زمین میں بوئی جاتی ہے اوردوسری زمین میں پَھل لیاجاتاہے؟
جواب۔یہ نیکی اوربدی ہے۔جواس جہان میں بوتے ہیں اوراگلے جہان میں کاٹتے ہیں اور پَھل کھاتے ہیں۔
۶۱۔سوال۔خداکی خوشنودی کیسے حاصل ہوتی ہے؟
جواب۔ماں باپ کی رضامندی سےاورنے سہاروں،شکستہ دلوں کو خوش کرنے سے۔
۶۲۔سوال۔داناآدمی کسے کہتے ہیں؟
جواب۔جوبولتاکم ہے اورسنتازیادہ ہے۔
۶۳۔سوال۔نیک بخت کیسے پہچاناجاتاہے؟
جواب۔تین نشانیوں سے۔طلب علم اورسخاوت اورخوش خلقی۔
۶۴۔سوال۔سخی کون ہوتاہے؟
جواب۔جوپاس رکھتاہودے دے۔
۶۵۔سوال۔سب سے بُراکام کیاہے؟
جواب۔بھیک مانگنا۔
۶۶۔سوال۔سب سے اچھاکام کیاہے؟
جواب۔خدمت کرنا۔
۶۷۔سوال ۔فقیرکی ابتداکیاہے؟۔
جواب۔کسی کو نہ ستانا۔
۶۸۔یہ بات کیسے حاصل ہوتی ہے؟
جواب۔اس طرح کہ اپنے آپ کودوسروں سے حقیرجانے۔
۶۹۔سوال۔یہ امر کیسے پیداہوتاہے؟
جواب۔فقیروں کے پاس بیٹھنے سے۔
۷۰۔سوال۔سختی کا کیاعلاج ہے؟
جواب۔رضاکی تلاش میں رہنا۔
۷۱۔سوال۔گناہ کا کیاعلاج ہے؟
جواب۔توبہ۔
۷۲۔سوال۔نامرادکس کوکہتے ہیں؟
جواب۔جوبے طاعت بھی ہواوربے مروّت بھی۔
۷۳۔سوال۔ناقص کس کو کہتے ہیں؟
جواب۔جوفقرکالباس پہنتاہےاوردنیاداروں کے دروازہ پرجاتاہے۔
۷۴۔سوال۔دل کی روشنی کیاہے؟
جواب۔رات کو جاگنا۔
۷۵۔سوال۔رات کو کس طرح جاگاجاسکتاہے؟
جواب۔کم کھانے سے۔
۷۶۔سوال۔کِس طرح کم کھایاجاسکتاہے؟
جواب۔تھوڑاتھوڑاکم کرتاجائے۔
۷۷۔سوال۔دنیامیں کس طرح رہناچاہیئے؟
جواب۔مسافروں کی طرح۔
۷۸۔سوال۔منزل پرکیسے پہنچاجاسکتاہے؟
جواب۔بوجھ ہلکاہونے سے۔
۷۹۔سوال۔وہ کیا چیزہے جس کی قدروقیمت زیادہ ہوتی ہے؟
جواب۔جوچیزہاتھ سے نکل جاوے۔
۸۰۔سوال۔فقرکالباس کیاہے؟
جواب۔پردہ پوشی۔
۸۱۔سوال۔زبان کیسے پاک ہوتی ہے؟
جواب۔حلال کھانے اورسچ بولنے سے۔
۸۲۔سوال۔بدن کیسے پاک ہوتاہے؟
جواب۔پرہیزگاری سے۔
۸۳۔سوال۔رُوح کیسے پاک ہوتی ہے؟
جواب۔بےریاہونے سے۔
۸۴۔سوال۔لذیذلقمہ کونساہے؟
جواب۔بے ریاہونے سے۔
۸۵۔سوال۔مالدارکے لیے کونساکام اچھاہے؟
جواب۔دینااوردلانا۔
۸۶۔سوال۔فقیروں کے لیے کیاکام بہترہے؟
جواب۔خداپرتوکل کرنا۔
۸۷۔سوال۔بلندہمّت والاکون ہوتاہے؟
جواب۔جس میں ملمع نہ ہو۔
۸۸۔سوال۔مردکس کو کہتے ہیں؟
جواب۔جوراہ خدامیں کام کرنے کے لیے ہروقت تیاررہے۔
۸۹۔سوال۔بے خلل گھرکونساہے؟
جواب۔آزادی کاگھر۔
۹۰۔سوال۔کون آیا۔کون چلاگیااورکون موجودہے؟
جواب۔جو شخص مخلوق کا ہادی اوررہبرہووہ آیا اورجس کی دنیامیں نیک یادگارباقی نہ ہو۔وہ چلاگیا۔
جس کی نیک یادگاردنیامیں قائم ہے۔وہ موجودہے۔
۹۱۔سوال۔سعادت کِس طرح پیداہوتی ہے؟
جواب۔حیاسے۔
۹۲۔حیاکیسےپیداہوتی ہے؟
جواب۔اس طرح کہ انسان نفس کا محکوم نہ بنے۔
۹۳۔جاہِل کس کو کہتے ہیں؟
جواب۔جونفس کا محکوم ہو۔
۹۴۔موت کیاہے؟
جواب۔دنیاکو چھوڑجانا۔
۹۵۔سوال۔دنیاکو چھوڑ کر کہاں جاتاہے؟
جواب۔دنیامیں ہی رہتاہے۔
۹۶۔سوال۔کیادوبارہ ہوتی ہے؟
جواب۔جس کے تصوّر میں دنیا ہوتی ہے۔اس کے سامنے سے نہیں ہٹ سکتی اورجب دنیاکو بھول نہیں جاتا۔دنیاسے باہر نہیں جاسکتا۔
۹۷۔سوال۔دنیاکیسے بُھول سکتی ہے؟
جواب۔دوطریقوں سے۔
پہلایہ کہ ساری دنیاکو فنادیکھے۔
دوسرایہ ہرجگہ خالق کودیکھے۔مخلوق کو کہیں نہ دیکھے۔
۹۸۔ علم سلوک کا اصول یہی ہے کہ پوست میں دوست دیکھے۔دونی کاغباردھوڈالے۔ ایک دیکھے ۔ ایک جانے۔کیونکہ ایک ہی ہے۔ایک ہی رہے گا۔
۹۹۔اس طرح ایک دیکھے کہ ایک ہی ہوجاوے۔قطرہ سمندرسے جداہوتوناکارہ ہوجاتاہے۔سالک کو دونوں جہاں سے غرض نہیں ہوتی۔بے شک اللہ تعالےٰ کے ولی نہیں مرتے۔
۱۰۰۔اے عزیزپہلے بندگی پیداکراوراس کی نعمتوں کا شکریہ اداکر۔تاکہ پروردگار کی مہربانیوں سے یہ سب دروازے تجھ پر کھول دئیے جائیں اوردونوں جہان کا مقام بخشا۔
اولادِ کرام
آپ کے دوفرزندارجمندتھے۔
اول۔برہان العاشقین۔سلطان المحبوبین۔قدوۃ الاخیار۔امام الابرار۔حضرت مولاناسیّد حافظ محمد برخوردار بحرالعشق رحمتہ اللہ علیہ ۔ان کو آپ نے اپنی حیاتِ طیّبہ میں حضرت سچیار صاحب نوشہروی رحمتہ اللہ کی التماس پر اپنے اکثر خلفائے اکابرکے سامنے اپناولی عہدِ خلافت کردیاتھا اوردستارِ نیابت سے سرفرازفرماکراپناسجادہ نشین مقررکردیا۔ان کے مفصّل حالات طبقہ اوّل و دوم میں گذرچکے ہیں۔
دوم۔خازن گنجینہ طریقت۔واقفِ رموزحقیقت۔زبدۃ الاسخیا۔فخرالاذکیا۔عارفِ کامل۔حضرت
مولاناسیّد محمد ہاشم دریادل رحمتہ اللہ علیہ ۔ان کا ذکردوسرے باب میں آئے گا۔
یارانِ طریقت
آپ کی نظرکیمیااثرمیں ایسی تاثیر تھی کہ جو لوگ آپ کی نگاہ میں آجاتے۔وہ مرتبہ ولایت پر فائز ہوجاتےاس لیے معاصرین اولیأاللہ آپ کو"اولیأگر"کہاکرتے تھے۔
آپ نے قیامت تک اپنے سلسلہ کے مریدوں کے واسطے بشارت دی ہے کہ میں اُن کے ہمراہ رہوں گا۔مولاناحکیم غلام قادراثرانصاری برقندازی جالندھری رحمتہ اللہ علیہ کتاب انوارالقادریہ میں لکھتے ہیں۔"آپ کوسماع میں بہت توغل تھا۔مجلس سماع میں غیرآشناکو دخل نہ دیتے۔تاکہ ارباب حال کی پریشانی کا باعث نہ ہو۔بحالتِ وجد جس کسی پر نگاہ ڈالتے۔صبغتہ اللہ کے رنگ میں رنگ دیتے۔ صاحبِ تصوّف استحضارِ وجد پر حاکم تھے۔جس پر توجّہ فرماتے۔وجد میں آجاتا ایک دن حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ ایسی ہی خاص حالت میں تھے۔حضرت سچیارصاحب رحمتہ اللہ علیہ بھی مجلس میں حاضرتھے۔آپ نےان کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا۔(تیرے یار۱؎ سومیرے یار۔تیرے یاراں دے یارس میرے میرےیار۔اگے اونہاں دے یارسومیرے یار)۔اورآپ نے فرمایا۔ جس سلسلہ میں میرے سلسلہ کے دوفقیر شامل ہوں گے۔وہ مجھے تیسراحاضر سمجھیں"۔
۱؎کتاب مراۃ الغفوریہ میں یہ حضرت سچیارصاحب کا اپنے ارشاد اپنے مریدوں کے متعلق ہے ۱۲ شرافت۔
بہتر امرأ
آپ کے خلفائے کرام کے اسمأگرامی کی پوری فہرست تاریخ الاقطاب میں دی جاچکی ہے۔آپ کے
بائیس صوبے (خلفائے اکبر)اوربعض دیگر مشاہیر خلفأ کے اسمأپہلے طبقہ میں اور بونجہ بانوا(خلفائے اصغر)کے نام دوسرے طبقہ لکھے جاچکے ہیں اب اس جگہ آپ کے بہترامرأ (خلفائے مجاز)کے نام
مبارک گلزارِ فقرأ سے تحریر کئے جاتے ہیں۔
۱۔چوہدری ساہنپال بن مہمان تارڑرحمتہ اللہ علیہ
۲۔چوہدری محب علی بن زربخش اگروئیہ رحمتہ اللہ علیہ
۳۔حیدرمانگٹ رحمتہ اللہ علیہ
۴۔رحمان قلی بن ساہنپال تارڑرحمتہ اللہ علیہ
۵۔محمد قل بن ساہنپال تارڑرحمتہ اللہ علیہ
۶۔مرشد قلی بن ساہنپال تارڑرحمتہ اللہ علیہ
۷۔مست قلی بن ساہنپال تارڑرحمتہ اللہ علیہ
۸۔حافظ قاسم رحمتہ اللہ علیہ
۹۔ہاشم رحمتہ اللہ علیہ
۱۰۔علی رحمتہ اللہ علیہ
۱۱۔محمد حافظ رحمتہ اللہ علیہ
۱۲۔سعداللہ رحمتہ اللہ علیہ
۱۳۔شیخ علی رحمتہ اللہ علیہ
۱۴۔فتح اللہ رحمتہ اللہ علیہ
۱۵۔حافظ نعمت اللہ رحمتہ اللہ علیہ
۱۶۔اسحاق رحمتہ اللہ علیہ
۱۷۔عبدالسلام رحمتہ اللہ علیہ
۱۸۔خیرمحمدرحمتہ اللہ علیہ (باغبان)
۱۹۔مرزارحمتہ اللہ علیہ (کھرل داناآبادی رحمتہ اللہ علیہ)
۲۰۔جادورائے قانونگورحمتہ اللہ علیہ
۲۱۔مومن رحمتہ اللہ علیہ
۲۲۔رام رائے قانونگورحمتہ اللہ علیہ
۲۳۔اخلاص رحمتہ اللہ علیہ
۲۴۔محمّد رحمتہ اللہ علیہ
۲۵۔زَینی رحمتہ اللہ علیہ
۲۶۔حسن رحمتہ اللہ علیہ
۲۷۔حسین رحمتہ اللہ علیہ بقولے حُسیناں
۲۸۔نوررحمتہ اللہ علیہ
۲۹۔باہورحمتہ اللہ علیہ
۳۰۔جیتارحمتہ اللہ علیہ (چنبھلی)بقولے جِینا
۳۱۔فتا رحمتہ اللہ علیہ
۳۲۔تاج رحمتہ اللہ علیہ بقولے تاجدین رحمتہ اللہ علیہ
۳۳۔عاج رحمتہ اللہ علیہ
۳۴۔امین رحمتہ اللہ علیہ
۳۵۔طاہر رحمتہ اللہ علیہ
۳۶۔قائم رحمتہ اللہ علیہ
۳۷۔الہٰداد رحمتہ اللہ علیہ
۳۸۔بہلو رحمتہ اللہ علیہ
۳۹۔جاتری رحمتہ اللہ علیہ
۴۰۔چنن رحمتہ اللہ علیہ (گوندل ساہنپالوی)
۴۱۔شادی رحمتہ اللہ علیہ (رہتاسی)
۴۲۔میراحمد رحمتہ اللہ علیہ
۴۳۔دادرحمتہ اللہ علیہ
۴۴۔خیرا رحمتہ اللہ علیہ
۴۵۔راج رحمتہ اللہ علیہ
۴۶۔مرادرحمتہ اللہ علیہ
۴۷۔عادل رحمتہ اللہ علیہ بقولے عادی
۴۸۔شاہزادہ رحمتہ اللہ علیہ
۴۹۔ادھم رحمتہ اللہ علیہ
۵۰۔بلورائے رحمتہ اللہ علیہ
۵۱۔حیات رحمتہ اللہ علیہ
۵۲۔سپاہا رحمتہ اللہ علیہ
۵۳۔مستقیم رحمتہ اللہ علیہ
۵۴۔شاہ میررحمتہ اللہ علیہ (چوہان)
۵۵۔شاہ بازرحمتہ اللہ علیہ
۵۶۔گُلّا رحمتہ اللہ علیہ
۵۷۔قندورانجھا رحمتہ اللہ علیہ
۵۸۔سوہندا جٹ رحمتہ اللہ علیہ
۵۹۔جَیدارحمتہ اللہ علیہ
۶۰۔شاہوموچی رحمتہ اللہ علیہ
۶۱۔بیگاماچھی رحمتہ اللہ علیہ
۶۲۔لہدم رحمتہ اللہ علیہ
۶۳۔تخت علی رحمتہ اللہ علیہ
۶۴۔امیر قریشی رحمتہ اللہ علیہ
۶۵۔احمد دین رحمتہ اللہ علیہ
۶۶۔فضلارحمتہ اللہ علیہ
۶۷۔صاحبو رحمتہ اللہ علیہ
۶۸۔جُمّاں رحمتہ اللہ علیہ
۶۹۔الٰہیا رحمتہ اللہ علیہ
۷۰۔قطبا رحمتہ اللہ علیہ
۷۱۔رحمت اللہ رحمتہ اللہ علیہ
۷۲۔نظام رحمتہ اللہ علیہ
ف۔ایک اورقلمی شجرہ دستیاب ہواہے۔اُس پر بہتر امرأکے نام چونسٹھ نمبرتک تو گلزارِ فقرأ کے ساتھ متفق ہیں۔باقی آٹھ نام اُس میں یہ تحریر ہیں۔
۱۔مغل رحمتہ اللہ علیہ
۲۔دیگا رحمتہ اللہ علیہ
۳۔شہرورحمتہ اللہ علیہ
۴۔چاہڑرحمتہ اللہ علیہ
۵۔چوہڑرحمتہ اللہ علیہ
۶۔مَتا رحمتہ اللہ علیہ
۷۔تاجا رحمتہ اللہ علیہ
۸۔بیگنا رحمتہ اللہ علیہ
واللہ اعلم بالصواب۔
حضرت مولوی محمد اشرف فاروقی رحمتہ اللہ علیہ نے مناقب نوشاہی میں سچ فرمایاہے ؎
یاراونہاندے کامل سارے |
آدن ناہیں وچہ شمارے |
ہرکوئی ہویااپنے وارے |
صاحب عظمت بھاری وا |
مدحیات
آپ کی تعریف میں بے شمار قصائد موجود ہیں۔ان میں سے ایک قصیدہ یہاں لکھاجاتاہے۔
قصیدہ
ازنتیجہ طبع صوفی محمد افضل طورقریشی بی اے منشی فاضل ادیب فاضل از گوندلانوالہ
زہے درگاہِ کیواں جاہ ودَربارےگُہر بارے |
زہے تقدیرساہنپال وشان ایں چنیں دارے |
ہمائے معرفت بازِ ولایت شیرِ شہبازاں |
جہانگیر سخااورنگ زیبِ جود عطارے |
تواے چیناب میدانی کرابگرفتہٖ دَربَر |
امام قطب اقطاباں و فخرِ شبلی عطارے |
مہِ انوار مشتاقان و مہرِ مَہ جینان ست |
دلِ دلہائے بیدلہاد چشمِ چشمِ خوں بارے |
نشانِ بے نشانان و زبانِ بے زبانان ست |
نگاہے کم نگاہاں رازدارِ جملہ اسرارے |
امینِ رازِ صمدیّت ضمینِ سِرّ احدیت |
گلستانِ تصوف بارگاہ بحرِ ذخّارے |
منِ خستہ بدل بستہ بجاں جستہ و برگشتہ |
مُرادم دِہ مُرادم دِہ تو اے یارے مددگارے |
شہیدم چشمِ میگونت فدائم زلفِ شبگونت |
اسیرم پنجۂ ہجرت نمانورےضیابارے |
ترابلبل بیک گونہ تفاوت بامن افتادست |
توہرکارے بگُل داری و من کارے بآں یارے |
درت کانِ فیوض ست ودلت گنجینۂ ربی |
جبینت مخزنِ عرفاں و چشمت فیض آثارے |
خمارِ میکدہ ات بیش از بیش ست یانوشہ |
بشویدداغِ عصیانم بدہ جامِ سبکسارے |
سرم سودائے توداردو لم سودائے تودارد |
دماغم نقش توبستہ و چشمِ چشم بیدارے |
تواے بیدارِ بیداراں تواے ہُشیار ِ ہشیاراں |
تواے گفتارِ گفتاراں تواے کردارکردارے |
توئی اصلم توئی فرعم توئی جانم توئی روحم! |
تومطلوبم تومقصودم توموجودم بہرکارے |
توئی شاہاامیدم اضطرابم دردم ووصلم! |
چہ مسکینے چہ لاچارے پرمجبورے چہ بیمارے |
منم مدہوش مدہوشاں توئی ہُشدارِ ہُشداراں |
دیں مدہوشی چہ مدہوشی و ہُشیارے چہ ہُشیارے |
توئی برلفظ اندرلفظ ومعنے ہائے برمعنے |
امیر لشکرِ عشقے بفقروذوق سالارے! |
سگِ دربارِ نوشاہی غلامِ بندگان ِتو |
زہجرت تنگدل گشتہ بیااکنوں کہ شدکارے |
گلِ نورستہ ونوبادۂ گلزارِ نوشاہی |
شریف احمد شرافت سیّد عالی نظردارے |
چہ باک از آتشِ خورشیدِ محشرداردآں بندہ |
دُرابادی قمرقادردُرا نوشہ شودیارے |
یمین ویسرِ تو اے طورایمن گشتہ از عصیاں |
تراپیرست نوشاہے تراپیرس سچیارے |
تاریخ وفات
حضرت نوشہ صاحب ۱؎رحمتہ اللہ علیہ کی وفات بروزدوشنبہ بتاریخ آٹھویں ربیع الاوّل ۱۰۶۴ھ میں ہوئی۔روضہ اقدس دریائے چناب کے شمالی کنارہ پربمقام ساہن پال شریف ضلع گجرات میں مرجع خلائق اورمہبط انوارہے۔رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
مادہ ہائے تاریخ
۱۔مصرعہ۔شاہ نوشہ انیس بزمِ وصال
۲۔شاہ نوشہ نامور
۳۔مخدوم نوشہ آزاد
۴۔بفردوسِ بریں قطب المحققین
۵۔نوشہ پاک رفت
۶۔نوشہ مجمع الحسنات
۱؎حضرت نوشہ گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کا مزیدذکرشریف التواریخ کی تیسری جلد موسوم بہ تذکرۃ النوشاہیہ کے پہلے حِصّہ تحائف الاطہارنام میں تحریرکیاجائے گا۔ شرافت
(شریف التواریخ جلد نمبر ۲)