سیّد شیرشاہ رحمتہ اللہ علیہ
سیّد شیرشاہ رحمتہ اللہ علیہ (تذکرہ / سوانح)
آپ سیّدالٰہی بخش بن سیّد عبدالرسول رحمتہ اللہ علیہ کے فرزنداصغر تھے۔خرقہ خلافت شیخ امام شاہ وزیرآبادی رحمتہ اللہ علیہ سے حاصل کیا۔وہ مریدشیخ قادرپیرسوہدروی رحمتہ اللہ علیہ کے۔وُہ مُرید شیخ محمد سوہدروی رحمتہ اللہ علیہ کے۔وہ مُرید شیخ پیرمحمد سچیارنوشہروی رحمتہ اللہ علیہ کے۔وہ مرید حضرت نوشہ گنج بخش رحمتہ اللہ علیہ کے۔
واقعہ ولادت
منقول ہے کہ جب آپ پیداہوئے توآپ کے والد بزرگوار سفرمیں گئے ہوئے تھے۔جب گھرآئے تو پوچھاکہ لڑکے کا کیانام رکھاہے۔اہل خانہ نے کہا شیرشاہ!انہوں نے فرمایا۔شیرکی دونوں آنکھیں کون برداشت کرے گا۔چنانچہ اسی وقت آپ کی ایک آنکھ بند ہوگئی۔
مرشد کی تلاش
آپ کو شروع سےہی یادِحق کاشوق تھا۔بیعت ہونے کی غرض سے بھلوال شریف پہنچے۔حضرت شیخ بڈھا بن شیخ فیض بخش سلیمانی رحمتہ اللہ علیہ سے التماس کی۔اُنہوں نے فرمایا۔صبح تم کو بتائیں گے۔رات کو خواب میں آپ کو شیخ امام شاہ وزیرآبادی رحمتہ اللہ علیہ کی صورت دکھائی گئی۔صبح شیخ صاحب نے فرمایاکہ جاؤ اس صورت کو ڈھونڈ لو۔آپ کئی سال تک تلاش کرتے پھرے۔آخروزیرآباد پہنچےاورفقیرکو پہچان لیا۔
بیعت وخلافت
آپ اُن کی بیعت سے مشرف ہوئے اور بارہ سال تک اُن کی خدمت میں رہے۔بعدازاں انہوں
نے چادر۔تہبند۔دستارآپ کو عنایت فرماکرخلافت و اجازت سے مشرف فرمایا۔
تکیہ کی تعمیر
منقول ہے کہ جب آپ واپس رنمل میں تشریف لائے۔توآپ پر حالت جذب و سُکرطاری تھی۔اس حالت میں بھنگ کااستعمال کرتے تھے۔ساداتِ نوشاہیہ سب اہل شریعت اورتقوےٰ شعارتھے۔اُنہوں نے خلاف شرع سمجھتے ہوئے آپ کو دربارشریف حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ سے نکال دیا۔آپ نے اپنی ملکیّت بارہ کنال زمین میں علیحٰدہ ایک مکان تعمیرکرلیا۔جو بنام تکیہ "شیرشاہ"مشہورہوا۔آپ وہاں آزادی سے رہنے لگے۔
فائدہ
بعض درویشوں نے سُکریہ حالت میں اپنی یکسوئی ویک جہتی کو قائم کرنے کے واسطے بطور معالجہ بھنگ
کا استعمال کیاہے۔علمائے شریعت کے بعض اقوال اس کی اباحت پر دلالت کرتے ہیں۔
۱۔علّامہ شیخ ابوبکراحمد بن محمد بن علی القرشی الملقب بہ بدرسِندھی رحمتہ اللہ علیہ کتاب انیس الواعظین ص ۱۹۷ میں لکھاہے۔
"ایک باران مجالس کا مؤلف دعاگوئے اہل اسلام ابوبکرسِندھ کا رہنے والامقام اوچہ میں وعظ کہہ رہا تھااورشراب کاذکرکررہاتھا۔کہ حضرت شیخ الاسلام رضی الحق والدین عبدالرحمٰن جمال درویش طاب ثراہ اُس مجلس میں تشریف لائے ہوئے تھے۔صبح کو یہ عاجزحضرت شیخ کی زیارت کو گیا۔ بندگی شیخ نے بہت شفقت فرمائی اورکہنے لگے کہ اے فرزندکل تم نے شراب کے بارے میں بہت کچھ بیان کیاہے لیکن بھنگ کے باب میں کچھ نہ بیان کیا۔حالانکہ بہت لو گ اس میں گرفتارہیں۔اس عاجز نے کہا کہ یہ بندہ جب قلعہ بھکرمیں وعظ کہتاتھاتووہاں بہت ساکلام بھنگ کے باب میں بیان کیا تھا۔تومولاناسعیدحاجی مفتی الوری نے بندہ کو نصیحت کی کہ اس کے بعدبھنگ کے باب میں ایسانہ کہنا کیونکہ بھنگ مباح ہےاورمباح کوحرام کہنے سے کفرکاخوف ہوتاہے"۔ بلفظہ
۲۔مولاناعبدالحی لکھنوی رحمتہ اللہ علیہ اپنے مجموعتہ الفتاوٰی کے جلد سوم میں ایک عبارت میں امام
نودی کا قول نقل کرتے ہیں۔جس کا مطلب یہ ہے کہ اس قدربھنگ کا استعمال جونشہ نہ لاوے اس
میں کوئی حرج نہیں۔
۳۔مولاناحکیم غلام قادرشاہ اثر جالندھری رحمتہ اللہ علیہ کہاکرتے تھے کہ مولانابہلول جالندھری رحمتہ اللہ علیہ نے ایک رسالہ بجنیہ لکھاہے۔جس میں بھنگ کی اباحت ثابت کی ہے۔
۴۔مرزاکمال الدین حنفی قادیانی ؒ نے ایک رسالہ منظوم پنجابی بھنگ نامہ اس کے متعلق لکھاہے۔
۵۔کسی صاحب دل کا شعرہے
بنگے زدیم سرّ اناالحق شدآشکار |
مارابایں گیاہِ ضعیف ایں گُماں بنود |
بہرکیف حالت سکر میں کسی درویش سے اس کاارتکاب ہوجاوے تو اُس کومطعون نہیں کیا جاسکتا اور
اگر حالت صحود ہوشیاری میں اس کا استعمال کرے تو وہ ضرورقابل مواخذہ ہے۔کیونکہ فقہائے حنفیہ کا متفقہ فتوےٰ بھنگ کی حرمت پر ہےاورحدیث شریف میں بھی آیاہے۔کل مسکر حرامیعنی جوچیزنشہ لانے والی ہے۔ وہ حرام ہے۔
کرامات
بَھنگ کادُودھ بن جانا
ایک مرتبہ سیّد حیدرشاہ بن سیّدمحمدنیک ہاشمی رحمتہ اللہ علیہ اور برادری کے چند دیگرمعزّز حضرات بغرضِ احتساب آپ کے تکیہ پر چلے گئے اورپوچھاکہ اس دَورے میں کیارکھاہے؟آپ نے فرمایادیکھ لو۔جب انہوں نے اُوپرسے پَردہ اٹھایا۔توبجائے بھنگ کے دُودھ نظر آیا۔سب خاموش ہوکرچلے گئے۔
فائدہ
صاحب تصرّف اولیأاللہ کے سامنے کسی چیز کی حقیقت کو بدل دیناکوئی مشکل نہیں۔ چنانچہ شیخ حسین
لاہوری رحمتہ اللہ علیہ نے جوملامتیہ طریق رکھتے تھے۔اکبربادشاہ کے سامنے شراب کو پانی اورشربت
اوردودھ بناکردکھادیاتھا۱؎۔
ایک شخص کو گناہ سے بچانا
آپ نے اپنے مریدقادربخش کو منع کیاتھاکہ کبھی چوری نہ کرنا۔ ایک دن وہ اپنے گاؤں پنڈی کالو سےآپ کی زیارت کے لیے آرہاتھا۔راستہ میں کماد کے کھیت سے ایک گنّاچوری لینےلگا۔دیکھاتوآپ آگے کھڑے ہیں۔اُس وقت تائب ہوا۔
ایک بدظن کو جذام ہوجانا
منقول ہے کہ آپ سرگی کے وقت دریائے چناب پر جاکرعبادت کیاکرتے تھے۔ایک جات عورت بھی وہاں جاکرعبادت میں مشغول ہوتی۔اس کا والدجواہرتارڑ ساکن رنمل آپ پر بدظن ہوگیا۔ایک روز آپ کومارنے کے واسطے اُس نے لاٹھی اٹھائی۔آپ نے غصّہ سے فرمایا۔"پچھاں ہٹ کوڑھیا"۔چنانچہ اس کو جذام ہوگیا۔
ایک بے ادب کا لنگڑاہونا
منقول ہے کہ ایک شخص آپ سے گھوڑی مانگنے آیاآپ نے فرمایا جو شخص ہماری گھوڑی پر سوارہوگا۔وہ لنگڑایالوہلاہوجاوے گا۔اُس نے کہا خَیرمہرہے۔چنانچہ وہ لے گیا۔اس کے بعد جلد ہی لنگڑاہوگیا۔
ایک مخالف کی گھوڑی کا چوری ہوجانا
منقول ہے کہ عطراتارڑ رنملوی روزانہ رات کو اپنی گھوڑی آپ کے کھیتوں میں چھوڑدیتا۔آپ منع فرماتے۔لیکن وہ باز نہ آتا۔ایک دن آپ نے درگاہِ عالیہ کی طرف منہ کر کے عرض کیا۔یانوشہ!اس کے لیے کوئی چوربھی نہیں رہا۔چنانچہ اُس گھوڑی کو چور لے گئے۔
۱؎تذکرہ اولیائے ہندجلد۲ ص ۳۵۔سیّد شرافت ۱۲۔
نوشہروی سجادہ نشین کا سزاپانا
سیّد محمد حسین بن سیّد بنّے شاہ ہاشمی رحمتہ اللہ علیہ سے منقول ہے کہ ایک دفعہ آپ کے بڑے بھائی سیّد جوائے شاہ رحمتہ اللہ علیہ جو سادہ لَوح درویش تھے۔عرس نوشہرہ پرگئے۔وہاں کے سجادہ نشین میاں سلطان بالابن میاں الٰہی بخش سچیاری رحمتہ اللہ علیہ نے بوجہ ہجوم خلقت کے ان کی طرف چنداں توجّہ نہ کی ۔وہ کس مپرسی کی حالت میں مایوسانہ گاؤں سے باہرنکل آئے اورمیاں صاحب کی زراعت میں اپنی گھوڑی چھوڑدی۔تاکہ یہ سیر ہولے پھرہم واپس چلے جاویں۔کسی شخص نے میاں صاحب کو جاکرکہاکہ ایک صاحبزادہ حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی اولادسے آیاہے۔اس نے تمہاری زراعت کو گھوڑی چھوڑ کر بربادکردیاہے۔میاں صاحب کو نہایت طیش آیااورچندمریدوں کو کہاکہ اس کو پکڑکرمیرےسامنے لاؤ۔حاضرین میں سے ایک شخص ان کا معتقد تھا۔اُس نے خفیہ طورپر جاکران کو اطلاع دی کہ صاحبزادہ صاحب تم چلے جاؤ۔ تمہیں پکڑنے کے لیے آدمی آرہے ہیں اورواقعہ مذکورسنایا۔سیّد جوائے شاہ رحمتہ اللہ علیہ اسی وقت گھوڑی پر سوارہوکرشام کو واپس رنمل آگئے۔آتے ہی آپ نے(سیّد شیرشاہ رحمتہ اللہ علیہ نے) پوچھاکہ بھائی تم پہلے ہی واپس آگئے۔عرس تودوتین روزابھی باقی تھا۔اُنہوں نے گذشتہ واقعہ بیان کیااور کہاکہ میاں سلطان بالانے میری بہت ہتک کی ہے۔سینکڑوں آدمیوں کے مجمع میں کہا ہے کہ صاحبزادہ کو پکڑلاؤ۔آپ نے فرمایا۔اچھااگراُس نے تمہاری ہتک کی ہے تو اس کی بھی ہزاروں کے مجمع میں بے عزتی ہوگی۔چنانچہ امرالٰہی ایساہوا کہ اُسی روز چوب دیارکے سرقہ کا الزام میاں صاحب نوشہروی رحمتہ اللہ علیہ پرلگااوربے شمار لکڑی اُن کے مکانات کی تلاش سے برآمد ہوئی اورہزاروں لوگوں کے اجتماع میں ان کو ہتھکڑی لگی۔بڑی بڑی سفارشوں سے اوربے شمارروپیہ خرچ کرنے سے قید سے بچے۔بعدازاں وہ دربار شریف حضرت نوشہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ پر حاضرہوئے اور درگاہِ عالیہ کی سیڑھیوں کے آگے لیٹنے لگے اورمعافی مانگتے۔وہاں سے حکم ہواکہ شیرشاہ رحمتہ اللہ علیہ سے معافی
مانگو۔اُس وقت آپ اخفائے حال کی خاطرصحرامیں اُپلے چُننے چلے گئے۔میاں سلطان بالا آپ کے
پیچھے کلرمیں پہنچےاورنہایت منّت سماجت سے اپناقصورمعاف کروایا۔
ملفوظ
مسمیّ گوہرتارڑ رنملوی نے ایک روز آپ کو کہاکہ دوسرے کئی حضرات نوشاہیہ ٹوپی پہنتے ہیں۔آپ بھی سرپر ٹوپی رکھاکریں۔آپ نے فرمایا۔"ایہہ ڈاہڈے دی شے ہے متے رَیہہ نہ آوے"۔
مطلب یہ کہ یہ زبردست محکمہ فقرکالباس ہے۔شاید اس کے حقوق ادانہ ہوسکیں۔
اولاد
آپ کی شادی سوموار ۲ جمادی الاوّل ۱۲۴۴ھ مطابق ۲۵کتک ؟ بکرمی کوہوئی۔آپ کے ایک ہی فرزند سیّد بنے شاہ المعروف مستی شاہ رحمتہ اللہ علیہ تھے۔
یارانِ طریقت
آپ کے خواص احباب یہ تھے۔
۱۔سیّد بنے شاہ فرزند آنجناب رحمتہ اللہ علیہ رَن مل
۲۔سیّد پیرمحمد بن سیّدغلام قادرہاشمی رحمتہ اللہ علیہ رَن مل
۳۔باباچوغطے شاہ ترکھان کوٹ ستار
۴۔باباقادربخش تارڑ پنڈی کالو
۵۔میاں قاسِم بافندہ پنڈی کالو
۶۔باباپیربخش لوہار ۔اولادِ شاہ صدردیوان رحمتہ اللہ علیہ سوہل خورد؟
تاریخ وفات
سیّد شیرشاہ کی وفات ۱۲۶۱ھ میں ہوئی۔قبرگورستانِ نوشاہیہ میں ہے۔چند سال ہوئے مستری محمد
دن ترکھان لاہوری نے مزار کاتعویذ سنگِ مرمرسے بنوایاتھا۔مگراب اولاد کی بے توجہی سے وہ تختے اُکھڑگئے ہیں اور انُہوں نے اُتارکرگھرمیں رکھ دیئےہیں۔قبرشکستہ حالت میں ہے۔
مادۂ تاریخ ہے "خورشیدِ لامع"۔
(شریف التواریخ جلد نمبر ۲)