امام انقلاب سید صبغت اللہ شاہ دوم شہید
امام انقلاب سید صبغت اللہ شاہ دوم شہید (تذکرہ / سوانح)
حضرت پیر سید صبغت اللہ شاہ ثانی راشدی بن حضرت پیر سید شاہ مردان شاہ اول بن حضرت ، پیر سید حزب اللہ شاہ بن حضرت پیر سید علی گوہر شاہ اصغر بن حضرت پیر سید صبغت اللہ شاہ اول بن امام العافین آفتاب ولایت حضرت پیر سید محمد راشد شاہ المعروف پیر سائیں روضے دھنی رضی اللہ عنہ ۔
حضرت سید صبغت اللہ شاہ دوئم ۲۳صفر المظفر ۱۳۲۷ھیٔ۱۹۰۸ء کو درگاہ عالیہ راشدیہ پیران پا گارہ ( پیر جو گوٹھ ، ضلع خیر پور میرس ، سندھ ) میں تولد ہوئے۔ والد ماجد شمس العلماء و العرفاء حضرت پیر سید شاہ مردان شاہ اول راشدی المعروف پیر صاحب پاگارہ پنجم کے وصال ( ۷ ربیع الاول ۱۳۳۹ھ؍۹ نومبر ۱۹۲۰ء ) کے بعد سید صبغت اللہ نومبر ۱۹۲۱ء کو فقط بارہ سال کی عمر میں مسند نشین ہو کر پیر صاحب پاگارہ ششم کی حیثیت سے متعارف ہوئے۔
تعلیم و تربیت:
خانقاہ شریف میں اپنے والد ماجد و پیر و مرشد کی تربیت میں پروان چڑھے ۔ بعد مسند نشینی کے بھی تعلیم و مطالعہ کا سلسلہ جاری رکھا ۔ حافظ خدا بخش سومرو اور مولانا امام بخش مہیسر اساتذہ میں سے تھے۔
خطابات:
پیر صاحب پاگارہ ششم ، صاحب دستار ( پگ دھنی ) ، امام انقلاب ، سورھیہ بادشاہ شہید بادشاہ ، بطل حریت ، مجاہد اعظم ۔
سفر حرمین شریفین :
۱۹۳۷ء کو آپ نے حج بیت اللہ اور مدینہ منورہ میں روضۂ رسول ﷺ کی حاضری کی سعادت حاصل کی۔ آپ کے منشی محمد پریل کی روایت کے مطابق خیر پور ریاست کے سابق وزیر محمد یعقوب کے لڑکے محمد لقمان بھی آپ کے ساتھ تھے۔ جہاز قاہرہ سے ہو کر جدہ پہنچا۔ وہاں کے بادشاہ عبدالعزیز نے آپ کو شاہی محل میں دعوت پر مدعو کیا تھا ۔ واپسی بحری جہاز میں ہوئی اور رفیق سفر مخدوم شفیع محمد ہاشمی (کھہڑا شریف) تھے۔
شخصیت:
مسلم لیگی رہنما جناب قاضی محمد اکبر مرحوم (برادر اکبر قاضی عبدالمجید عابد، بانی روزنامہ عبرت سندھی حیدرآباد) آپ کی وجاہت کے متعلق رقم طراز ہیں:
مجھے اس بات پر فخر ہے ہے کہ میں نے پیر صاحب کو اپنی چشم گنہ گاار سے دیکھا ہے۔ یہ انسانی حسن کا نادر نمونہ تھے اور روحانی عظمت نے ان کے چہرے پر بلا کا نور اور جلال بکھیر دیا تھا کہ کوئی شخص خواہ وہ کس قدر بھی مضبوط دل رکھتا ہو ان سے آنکھیں ملانے کی تاب نہیں لاسکتا تھا۔ بڑے بڑے انگریز ، سر، اور خان بہادر ، اس مجاہداعظم کے سامنے جاتے تو یک بارگی لرز جاتے تھے لیکن یہ کس قدر شرمناک حقیقیت ہے کہ اس عظیم انقلابی مجاہد کے خلاف جھوٹا مقدمہ گھڑنے والے اور شہادتیں دینے والے بیگانے نہ تھے خود اپنے ہی تھے۔ اس طرح انہوں ںے غداری کی روایت یہاں بھی قائم رکھی بہر حال انگریز ’’حر جماعت‘‘ کو کچل نہ سکا اورنہ ان کا شیرازہ منتشر کر سکا۔ (بحوالہ تذکرہ پیران پاگارہ از تبسم چوہدری)
عادات و خصائل:
آپ کی ذاتی زندگی کے متعلق مندرجہ ذیل حقیقتیں معلوم ہو سکی ہیں :
۱۔ بسا اوقات اپنا کھانا خود اپنے ہاتھ سے تیار کرتے۔
۲۔ فجر سے پہلے اٹھ کر ورزش کرتے اور اس کے بعد نماز فجر جماعت سے ادا کرتے۔
۳۔ اکثر اوقات اپنے مریدوں کے ساتھ مل کر کام کرتے چنانچہ ایک مرتبہ کھیتی کو باڑھ دینے میں بھی فقیروں کا ہاتھ بٹایا۔
۴۔ اگر کوئی مرید نقد نذرانہ پیش کرتا اور عرض کرتا کہ قبول فرمائیں تو آپ فرماتے ’’قبول ‘‘۔ لیکن کوئی ایک لاکھ بار درود شریف کا ہدیہ پیش کرتا تو فرماتے۔ ’’قبول ہے اور تم پر آفرین ہو ‘‘ اور اس کیلئے دعا کرتے۔
۵۔ آپ کا دستور تھا کہ نقد نذرانہ اپنے ہاتھ میں نہ لیتے تھے لیکن اگر کوئی فق یر مسواک پیش کرتا تو ( سنت بنوی کی وجہ سے ) ہاتھ بڑھا کر وصول فرما لیتے ۔
۶۔ ایک بار سیٹھار جہ ( ضلع خیر پور) سے دور بھر تلی کے گوٹھ میں ایک دعوت پر تشریف لے گئے وہاں ایک خاتون چنوں کی ایک چھبی ( ٹوکری ) لیکر حاضر ہوئی۔ آپ نے فرمایا : امان ! ا س کو تم ہی اچھی طرح پکا سکتی ہو۔ لہذا اسے پکا کر لاوٗ اور اس کے ساتھ جوار کی روٹی بھی لاوٗ میں تمھاری دعوت کھاوٗ ں گا اور باقی جماعت میزبان کی دعوت کھائے گی ۔
۷۔ ایک بار گڑنگ کے بنگلے ( سانگھڑ ) میں ایک ڈپٹی کلکٹر نے آپ سے پوچھا کہ آپ برطانوی حکومت کے کارندوں کی خاطر خواہ عزت کیوں نہیں کرتے۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’ ان لوگوں کی عادات و اطوار دیکھ کر جب کبھی میں یہ ارادہ بھی کرتا ہوں کہ ان کی عزت کروں تو مجھے اپنے حسینی ہونے پر شک ہونے لگتا ہے‘‘۔ ( تذکرہ پیران پارگاہ صفحہ ۱۹۰)
جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم
دریاوٗں کے دل جس سے دہل جائیں وہ طوفاں
آپ نے رتنا نگری جیل میں مریدین کی دینی و روحانی تربیت کے سلسلہ میں کتاب بھی لکھی جس کا خلاصہ ڈاکٹر بلوچ نے مہران سوانح نمبر ۱۹۵۷ء میں درج کیا ہے اس میں سے بعض باتیں درج ذیل ہیں :
٭ اے دوست ! حریص نہ بن ، حرص قاتل ہے۔
٭ ہزار عبادت ایک گناہ کے مقابلہ میں نیست ہے۔
٭ اے دوست ! اپنے نفس کا شکار کر جو کہ عجب شکار ہے ( یعنی نفسانی خواہشات کا قلع قمع کر )
٭ علم ، حیا، فیاضی اور رحم کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔ ( یعنی ان کو اپنائے رکھ)
٭ اے دوست ! پیٹ تمہارا دشمن ہے اس لئے زیادہ روزے رکھ کر پیٹ کا علاج کر ، جو یہ تکلیف ( گناہ سے ) بہتر ہے۔
٭ اے دوست ! حساب اپنا صاف رکھ ، پھر کوئی غلطی نہ کرنا ، یہ کہنا یاد رکھ۔
٭ اے دوست ! زمانہ اچھا ہے خود کو اچھا بننا چاہیے ۔ زمانہ کو خراب کہنے والا خود وہ خراب ہے۔
( مہران سوانح نمبر)
رتنا نگری جیل میں ملنے آنے والے مریدین سے فرمایاـ:
٭ فقیرو ! جماعت کو سلام کہیے گا کہ ذکر ( قادری چار تسبیح ) و نماز کی پابندی کریں ۔
٭ جیسے پہلے نماز عید درگاہ شریف راشدیہ پر ادا کرتے تھے، ویسے ہی وہیں جا کر ادا کریں ، میں آپ کے ساتھ ہوں ۔ ( سانگھڑ جی شریان ۵۸)
ماہر فنون :
حضرت پیر صاحب شریعت مطہرہ کی پابندی ، حقوق العباد کی پاسداری ، جذبہ خدمت خلق ، ذکر و فکر ، شجاعت ( دلیری ، بہادری ) ہمت مرداں ، عسکری فکر سے سر شار ی ، آداب جہاد سے بیداری ، ذہانت کی بلندی ، دور اندیشی ، بردباری ، تکنیکی دماغ ، نظم و ضبط تنظیم سازی ، توکل علی اللہ، جہد مسلسل اور فہم و فراست ایمانی وغیرہ سے سر شار تھے۔ اس دور میں بھی آپ کے پاس جدید ہتھیار ، اسلحہ اور موٹر گاڑیاں وغیرہ سبھی کچھ تھا اور اس کی مشینری کی خرابی کیلئے آپ کو کسی میکینک کی ضرورت نہیں پڑتی تھی اس لئے کہ یہ سارا کام آپ خود کرتے تھے، جدید مشینوں کی رپیرنگ پر آپ پوری دسترس رکھتے تھے اور مجاہدین کو بھی سکھاتے تھے، اس طرح آپ ماہر فنون تھے۔
جیل سے آزادی کے بعد آپ نے پریس کے سامنے سکھر پل ( برج ) کی تین فنی خامیاں بتا کر اپنے ، پرائے ، دوست، دشمن سب کو حیرت میں ڈال دیا بلکہ انگیریز ماہر تعمیر و انجیئر بھی حیرت و اعتراف کا مجسمہ بن چکے تھے ۔ آپ نے فرمایا:
۱۔ پل طویل ہونے کی صورت میں اس پر سائبان ہونا چاہیے تھا تاکہ بارش یا برف باری کی صورت میں آنے جانے وا لوں کی حفاظت ہو سکتی تھی ۔
۲۔ پل کی چوڑائی کم رکھی گئی ہے، مستقل قریب میں ٹریفک کے بڑھنے کے باعث ؟ تکالیف کا سامنا ہو گا۔
۳۔ دریا میں جو دروازے بنائے گئے ہیں وہ تنگ و چھوٹے ہیں جس کے باعث بڑی کشتی یا جہاز کے گزرنے کا مسئلہ پیدا ہو گا۔ کم از کم ایک دروازہ بڑا رکھا جاتا۔ ( امام انقلاب صفحہ ۸۶)
کانگریس سے براٗ ت:
نامور صحافی ، روز نامہ مہران کے سابق ایڈیٹر جناب سید سر دار علی شاہ رقمطراز ہیں : اگر حضرت شہید کا کانگریس سے کوئی تعلق ہوتا تو سندھ پر اونشل کانگریس کمیٹی کے صدر ڈاکٹر چوئتھر ام کی سر کردگی میں سندھ اسمبلی کانگریس پارٹی کے چند ممبران کا وفد ان کی خدمت میں حاضر ہو کر کانگریس میں شمولیت کی دعوت کیوں دیتا اور پھر حضرت شہید وفد کو یہ جوا ب کیسے دیتے کہ:
’’ہم کسی کی سیادت اور قیادت قبول کرنے کیلئے ہر گز تیار نہیں ہیں کیونکہ ہمارے رہنما ہادی برحق حضرت محمد رسول اللہ ﷺ ہیں اور ہمارا دستور العمل قرآن ہے‘‘۔
حضرت شہید اگر کانگریس سے وابستہ ہوتے یا ڈاکٹر چوئتھ رام کی دعوت کے بعد واستہ ہو جاتے تو انہیں گاندھی کی قیادت اور ان کے نظر یہ ٗ عدم تشدد کو قبول کرنا پڑتا جو ظاہر ہے کہ حضرت شہید جیسی بلند و بالا شخصیت اور شمشیروسناں سے کھیلنے والے غازی و مجاہد کیلئے نا ممکن تھا۔
( مقدمہ تذکرہ پیران پاگارہ صفحہ ۴۰)
جو حضرت محمد عربی ﷺ کو اپنا ھادی و رھنما سمجھتا ہو وہ بھلا گاندھی جیسے متعصب ہند و اور کٹر قسم کے بت پرست کی قیادت و سیادت کو کب قبول کر سکتے تھے ۔ ایک کافر ( انگریز) سے جہاد کرنے والے دوسرے کافر ( ہند و مشرک ) سے کیسے اتحاد کر سکتے تھے؟
قرآن حکیم کا فیصلہ :
٭ ( ترجمہ ) ان میں تم بہت کو دیکھو گے کہ کافروں سے دوستی کرتے ہیں بری چیز ہے اپنے خود آگے بھیجی یہ کہ اللہ کا ان پر غضب ہوا اور وہ عذاب میں ہمیشہ رہیں گے ۔ اور اگر وہ ایمان لائے اللہ اور ان نبی پر اور اس پر جوان کی طرف اتر ا تو کافروں سے دوستی نہ کرتے ان میں تو بہتیر ے فاسق ہیں ۔ ( المائدہ آیت ۸۰۔ ۸۱)
٭ ( ترجمہ ) اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنو ں ( کافروں ، مشرکوں ) کو دوست نہ بناوٗ ، تم انہیں خبریں پہنچاتے ہو دوستی سے حالانکہ وہ منکر ہیں اس حق کے جو تمھارے پاس آیا۔
( سورہ الممتحنہ آیت ۱)
٭ ( ترجمہ ) مسلما ن کافروں کو اپنا دوست نہ بنا لیں ، مسلمانوں کے سوا۔ اور جو ایسا کرے گا اسے اللہ اور اس کے رسول سے کچھ علاقہ نہ رہا۔ ( آل عمران آیت ۲۸)
یاد رہے کہ حروں کے غیور علمبردار ( پیر صاحب ) نے کانگریس کا منت کیش ہونا کبھی بھی گوارا نہیں کیا ‘‘۔ ( روز نامہ قربانی ۹ فروری ۱۹۴۷ء بحوالہ امام انقلاب صفحہ ۴۴)
انگریز سے براٗت:
یہود ونصاریٰ اہل کتاب نہیں ۔ اہل کتاب تو وہ تھے جو اپنے نبی اور آسمانی کتاب پر سچے دل سے ایمان لائے ، وہ بہت ہی قلیل تھے با لآخر وہ ختم ہو گئے ۔ کثیر تعداد ان کی تھی جنہوں نے اپنے نبی ، اللہ تعالیٰ کے پیغمبر کی ایک نہ سنی بلکہ نیکی کی دعوت پر انہیں طرح طرح سے ستایا گیا، اذیتیں دی گئیں ، بنوت کا ، کتاب کا انکار ، پیغمبر کو قتل کرنے کی کوشش بلکہ کتاب میں طرح طرح کی خیانتیں و تحریفیں کیں ، اس کا نتیجہ یہ بکلا کہ آج توریت ، زبور و انجیل میں سے ایک نسخہ بھی دنیا کے کسی بھی حصے میں اصل حالت میں موجود نہیں ۔ ایسے لوگ مومن مسلمان ہی نہیں ٹھہرے تو اہل کتاب کیسے بن گئے؟ بلکہ ایسے منکرین رسالت و کتاب کو اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں کفار کے زمرے میں شمار فرمایا ہے۔
اس وضاحت سے واضح ہوا کہ انگریز کا فر ہیں اور دوسرا یہ کہ انہوں نے ہمارے ملک پر نا جائز قبضہ جمالیا تھا جس سے ہمارے ایمان جسم و جان عزت و آبرو کو نقصان تھا، ایسی صورت میں مسلمانوں پر جہاد فرض ہو چکا تھا۔ حضرت پیر صاحب نے ایسوں سے جہاد کا اعلان کیا لیکن اس سے عرصہ قبل بچپن ہی سے آپ کو انگریز سے شدید نفرت تھی۔
روایت ہے کہ آپ نے لڑکپن میں ہی جب کہ آپ پیر پاگارہ بن چکے تھے اپنے چچا مرحوم پیر علی گوہر شاہ ثانی کے نام پر انگریزوں کا دیا ہوا ایک ’’آفرین نامہ ‘‘ بنگلے کی دیوار پر آویزاں دیکھ کر فرمایا:
’’ہمارے بزرگ بھی کس قدر سادہ لوح تھے۔ خدا وند تعالیٰ نے ان کو بڑی عزت بخشی تھی لیکن پھر بھی یہ آفرین نامہ موجود ہے‘‘۔
اور اس کے بعد فریم توڑ کر آفرین نامہ پر زہ پرزہ کر دیا۔ ( مہران سوانح نمبر ۱۹۵۷ء )
یہ آپ کی خود داری ، عزت نفس ، حریت پسندی اور خاندانی و جاہت کا منہ بولتا شاہکار ہے۔
ایک روز کلکٹر سکھر کی طرف سے آپ کو ملاقات کرنے کا پیغام پہنچا ۔ آپ نے اپنی فراست سے آنے والا خطرہ بھانپ لیا۔ اپنے خلیفہ احمد کو سکھر بھیجا تاکہ وہ کلکٹر سے ملاقات کرے ۔ خلیفہ احمد نے کلکٹر سے ملاقات کی اور گجراتی زبان میں گفتگو کی۔ کلکٹرپارسی تھا اور گجراتی اس کی مادری زبان تھی ۔ وہ خلیفہ احمد کی گفتگو سے متاثر ہوا اور پیر صاحب کے نام پیغام دیا کہ حکومت آپ کو ہند و مسلم فسادات رکوانے کے صلے میں ایک تلوار ، بندوق اور خطاب دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔ خلیفہ احمد نے کلکٹر سے اپنی ملاقات ، گفتگو کی تفصیلات اور حکومت کی پیشکش سے پیر صاحب کو آگاہ کیا ۔ آپ نے خلیفہ احمد کے ہاتھ کلکٹر کو پیغام بھیجا :
’’ہمارے لئے ہمارا خاندانی خطاب ’’پیر پاگارو ‘‘ ہی کافی ہے ہمیں کسی دوسرے خطاب یا القاب کی ضرورت نہیں ‘‘۔
انگریز حکومت کی طرف سے حضرت پیر صاحب کے نظریات ، رحجانات اور عزائم کو جانچنے کی یہ آخری کوشش تھی ۔ اس کے بعد انگریز حکومت کو یقین ہو گیا کہ پیر صاحب کی وفا داری مشکوک ہے۔
( مردان حر مضمون نگار : سید ارشاد احمد عارف ، ماہنامہ اردو ڈائجسٹ لاہور فروری ۱۹۸۰ئ)
ان تاریخی شواہد کے باجود من مانی رکھنا اور یہ کہنا کہ پیر صاحب شہید کانگریسی تھے یا کانگریس کے حمایتی تھے۔ بالکل غلط اور من گھڑت ہے۔ کانگریس کے ساتھ پیر صاحب کا رشتہ جوڑنا تاریخی شواہد کا خون کرنا ہے بلکہ اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے مترادف ہے۔
انگریزوں کے خلاف اعلان جہاد:
حضرت پیر صاحب شہید کی تحریک کا نام ’’حر تحریک ‘‘ ہے اور ان کا ولولہ انگیز پر جوش نعرہ تھا ’’بھیج پاگارہ ‘‘۔ اس تحریک کے دو مراکز تھے۔
۱۔ خانقاہ راشدیہ پیران پاگارہ پیر جو گوٹھ ضلع خیر پور میرس ۔
۲۔ گڑنگ کا بنگلہ عرف پیر صاحب کا بنگلہ سانگھڑ سندھ ۔
کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
حروں کی یہ جماعت جو پیران پاگارا کی روحانی فرما نروائی کو تسلیم کرتی ہے : ’اطیعو اللہ و اطیعو الرسول واولی الامر منکم ‘‘ کے قرآنی حکم پر پوری طرح کا ربند رہتی آئی ہے ، وہ اپنے مرشد کریم کو ’’اولی الامر ‘‘ کی حیثیت سے دیکھتی ہے اور اس کے ہر حکم کو جو اسلام کے خلاف نہ ہو ، قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کو اپنا فریضہ سمجھتی ہے۔
اس جماعت کیلئے صوم و صلوۃ کی پابندی لازمی ہے۔ اسے چنگ ورباب ( موسیقی ) کے استعمال سے روکا گیا ہے۔ اس کے افراد رنگین کپڑا ( زنانہ شعار ) نہیں پہن سکتے۔ ان کیلئے ننگے سر چلنا ممنوع ہے ۔ انہیں سنت رسول ﷺ کی پیروی کرنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ ہمیشہ پاکیزگی اور طہارت کے ساتھ رہنے کا حکم ہے اور جھوٹ نہ بولنے ، منشیات سے پرہیز کرنے ، شرافت ، بردباری ، حق گوئی ، نیک نیتی اور اس قسم کی تمام اسلامی اقدار کو اپنا نے کی تلقین کی گئی ہے ‘‘۔ ( روحانی ڈائجسٹ لاہور )
شہادت :
مقدمہ کے دوران انگریزی حکومت نے اپنے کئی ایجنٹوں کو پیر صاحب کے پاس بھیجا کہ وہ حکومت سے معافی مانگ لیں تو انہیں معاف کیا جا سکتا ہے اور اس طرح وہ بھانسی سے بچ سکتے ہیں لیکن حضرت پیر صاحب نے ان سب کو ایک ہی جواب دیا اور بلاشبہ آزادی کا پر ستار اور سادات کا سپوت ایسے ہی جواب دے سکتا ہے۔
آپ نے فرمایا:
’’شہادت ہمارا تاج ہے۔ اسے آگے بڑھ کر پہن لینا ہمارے لیے عبادت ہے۔ ہم نے صرف آزادی کو چاہا ہے اور یہ کوئی جرم نہیں ہے ۔ ظالم سے معافی مانگنے کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ ہم تو صرف اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں ‘‘۔
ملٹری کورٹ میں جب آپ پر مقدمہ چلایا گیا تو آپ نے ا س سے بیزاری اور بے رخی کا اس انداز سے اظہار کیا جو حریت پسندوں اور مجاہدوں کی شایان شان ہے۔ آپ نے مسکراتے ہوئے بھانسی کا پھندہ گلے میں ڈالنا پسند کر لیا لیکن کافر کی غلامی اور جابر سے معافی طلب کرنے کو ہر گز گوارانہ کیا۔
( تذکرہ پیران پاگارہ ۱۸۸)
انگریز سپر نٹنڈنٹ جیل پیر سید صبغت اللہ شاہ شہید کے ساتھ جیل میں شطر نج کھیلنے آیا کرتا تھا جس رات آپ کو پھانسی دی جانی تھی اور اس کی اطلاع بھی پیر شہید کو دے دی گئی تھی ۔ سپر نٹنڈنٹ جیل آپ کے پاس آیا تو آپ نے اسے شطر نج کھیلنے کی دعوت دی ۔ اس سے پہلے پیر صاحب ہمیشہ بازی جیت لیا کرتے تھے۔ اس رات سپر نٹنڈنٹ جیل کو توقع تھی کہ پیر صاحب اپنے انجام کو مد نظر رکھتے ہوئے ذہنی کشمکش میں مبتلا ہوں گے ، مگر اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب پیر صاحب نے یکے بعد دیگرے اسے تین دفعہ شہہ مات دے دی ، پھر فرمایا:
’’شہادت تو ہمارے سر کا تاج ہے اس میں پریشان ہونے کی کونسی بات ہے‘‘۔
بہر حال ۲۰ مارچ ۱۹۴۳؍ ۱۴ ربیع الاول ۱۳۶۲ھ کو فجر کے وقت سینٹرل جیل حیدر آباد میں فقط ۳۵ سال کی عمر میں آپ کو پھانسی دے دی گئی۔ اس طرح آپ ۲۳ سال مسند نشین رہے۔ چونکہ آپ حق پر تھے، اس لئے نہایت سکون قلب سے مو ت کا ذائقہ چکھا، چہرے پر سکون کے آثار تھے اور کرب وبے چینی کی کوئی علامت موجود نہ تھی۔ ( تذکرہ پیران پاگارہ صفحہ ۱۸۸)
آپ نے اپنے جدا علیٰ ریحانۃ الرسول شہید حق وصداقت حضرت سید نا اما م حسین شہید کر بلا رضی اللہ عنہ کی سنت مبارکہ کو اپنے عمل سے تقریبا ۱۴ سو سال کے بعد زندہ کیا :
بنا کر دند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن
خدا رحمت کندایں عاشقان پاک طینت را
آپ کی تدفین کہاں ہوئی ؟ آپ کا مزار پر انوار کس مقام پر ہے۔
بے باک صحافی سید سر دار علی شاہ مرحوم لکھتے ہیں :
’’انگریز نے اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے حضرت سید صبغت اللہ شاہ اور ان کی جماعت ( حروں ) کے ہزاروں بے گناہوں کے خون نا حق سے ہاتھ رنگے تھے۔ لیکن قدرت نے سید صبغت اللہ شاہ کے بعد اس کو پانچ برس کی بھی مہلت نہیں دی اور جس سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا اس کے عروج کا سورج چار سال چار مہینے میں غروب ہو گیا۔ نہ صرف اس برصغیر میں بلکہ اس کے تمام مالک محروسہ میں اور ایسا غروب ہوا کہ مستقل میں پہلے کی سی آب و تاب کے ساتھ اس کے دوبارہ چمکنے کا امکان ہی نہیں رہا اور وہ سلطنت جو کبھی کرہٗ ارض پر درجہٗ اول کی سلطنتوں میں شمار ہوتی تھی اب ایک زوال پذیر سلطنت ہے اور تیسرے درجہ کی سلطنتوں میں شمار ہونے لگی ہے‘‘۔ ( تذکرہ مقدمہ صفحہ ۳۵)
کراچی کے ایک نامور عیسائی شہری مسٹر آرڈی روچا ( جو کسی زمانے میں کراچی میونسپل کا ر پوریشن میں افسر تھے اور آج کل ریٹائر ڈ زندگی بسر کررہے ہیں ) نے بتایا: پیر صاحب کو حیدر آباد سینٹرل جیل میں پھانسی دی گئی ۔ اس کے بعد ان کے جسم نورانی کو کوٹری کے سامنے دریائے سندھ پر لایا گیا جہاں اسے ایک لانچ میں رکھ کر دریائے سندھ کے ذریعے سمندر تک پہنچایا گیا۔ سمندر میں ایک چھوٹا سا بحری جہاز لنگر انداز تھا۔ جس کے ذریعے پیر صاحب کو کراچی کے مغرب میں واقع ایک جزیرہ ’’استولا ‘‘پہنچا کر وہاں سپرد خاک کیا گیا۔ ( پیر سید صبغت اللہ شاہ شہید مضمون نگار : علی حسن جمالی ، روزنامہ جنگ ۱۸ مارچ ۱۹۸۷ئ) لیکن قرائن اور میرا وجدان کہتا ہے کہ بہادر آباد کی پہاڑی پر نزد باغ و بہار لان آپ کی مزار شریف ہے جس کو عرف عام بسم اللہ بابا کی مزار کہا جاتا ہے۔ قرا ئن میں سے بعض اہم نکتے یہ ہیں :
۱۔ پیر صاحب پاگارہ کی رہائش کنگری ہاوٗس وہاں سے قریب ہے۔
۲۔ پیر صاحب مع فیملی وہاں حاضری اکثر دیتے ہیں ۔
۳۔ پیر صاحب کے برادر اصغر سید نادر علی شاہ راشدی مزار شریف کے متولی تھے اور اب ان کے صاحبزادے اکبر شاہ ہیں ۔
۴۔ مزار کے خدام فقیر عمر کوٹ کے حر فقیر ہیں ۔
۵۔ بہادر آباد کے عمر رسیدہ زائرین نے بھی اس بات کی تصدیق کی۔
۶۔ ۷،۸، ۹ ذوالحج آپ کے عرس مبارک پر مرد حضرات کے علاوہ خواتین بھی تصدیق کی اور حضرت کی بے شمار کرامات سنائیں ۔
۷۔ وہاں آپ کی شان میں منا قب پڑھے گئے اور مزار شریف پر آویزاں بھی ہے۔ وغیرہ وغیرہ ۔ فقیر بھی اکثر اوقات حاضری کی سعادت حاصل کر کے لطف و سرور پاتا ہے۔
مولانا ابراہیم محمد عمر بختار پوری
آپ گوٹھ بختیار پور اسٹیشن بوبک تحصیل سیوہن شریف ( ضلع دادو) کے ساکن تھے، حالات زندگی بہت کوشش و بسیار کے باوجود دستیاب نہ ہو سکے ۔ مولانا سنی عالم دین اور بہترین خوشنو یس تھے۔ ان کے پاس تفسیر تنویر الایمان ( سندھی ) کتابت کیلئے آئی۔ دوران کتابت جس جس مقام پر جمہور اہل سنت کے مسلک کے خلاف مسائل لکھے ہوئے پائے، حاشیہ پر ان کا مدلل جواب تحریر فرمایا۔ ایک مقا م پر سماع موتی کا انکار کیا گیا تو اس موضوع پر مدلل کتاب ’’المذھب الماثور فی سما ع الموتیٰ فی القبور ‘‘ بزبان فارسی تحریر فرمائی اور اس کتاب کی تلخیص ’’تنویر الایمان ‘‘ پارہ ۲۰ مطبوعہ رفاہ عام پریس لاہور ۱۳۳۳ھ؍ ۱۹۱۵ ء کے حاشیہ پر درج فرمائی ۔ اسی ( ۸۰ ) سال سے زائد عرصہ کے بعد اس تلخیص کو فقیر نے استفادہ عام کیلئے ’’زین الایمان ‘‘ میں محفوظ کر لیا ہے، مطالعہ فرما کر مسر ور ہوں ۔
شکار پور میں وہابیوں کے کتب فروش مولوی عظیم اینڈ سنز کی دیانت و امانت ملا حظہ فرمائیں کہ تنویر الایمان کی جدید طباعت میں یہ مضمون ہضم کر لیا اور تنویر الایمان پارہ ۲۹ کی تفسیر لاڑکانہ کے جید عالم مولانا غلام رسول عباسی نے لکھی تھی وہ بھی جدید طباعت میں حذف کر کے مولوی محمد عثمان مدرس مدرسہ عربیہ غریب زادہ تحصیل پنو عا قل کی تفسیر شامل کر لی گئی ہے۔ اسی طرح انہوں نے نامور سندھی شاعر عاشق رسول حضرت مولانا غلام رسول جتوئی محراب پوری علیہ الرحمہ کے خطبات اور نعتیہ کلام میں تحریف و ردو بدل جیسی گھنا و ٗ نی حرکت بھی کی ہے۔
تفسیر کو ثر شاہ مردان ( سندھی ) کی پانچویں جلد ( مطبوعہ حیدرآباد) سامنے ہے اس کو عربی آیات کریمہ کی کتابت مولانا محمد عمر نے کی اور اس نے خدمت سے ۱۵، شعبان المعظم ( شب براٗ ت ) ۱۳۳۰ھ؍ ۲۱۹۱ء کو فارغ ہوئے۔ وار آخر میں مولانا نے تفسیر کی مدح سرائی میں طویل نظم ( سندھی ) تحریر فرمائی ہے جو کہ ۵۸ اشعار پر مشتمل ہے۔ ( تفسیر کو ثر طبع اول ، جلد ۵ ، ۶۳ ۱۹ء )
اس سے معلوم ہوا کہ مولانا بہتر ین کا تب کے علاوہ بہتر ین مضمون نویس بھی تھے اور شاعری کا اعلیٰ ذوق رکھتے تھے۔
اولاد میں محمد ابراہیم آپ کا بیٹا تولد ہوا اور ان کا بیٹا محمد اسماعیل آپ کا پوتا ہے ۔ مولانا محمد ابراہیم نے امینانی شریف کی درسگاہ عین العلوم سے درس نظامی کی تکمیل کے بعد فارغ التحصیل ہوئے۔
[بختیار پور کے حافظ عطا ء اللہ اور ان کے والد حافظ عبدالواحد کو بار ہا اس جانب متوجہ کیا لیکن وہ مواد مہیا نہ کر سکے ]
(انوارِ علماءِ اہلسنت سندھ )