آپ سیّد قدم الدین بن سیّد عزیزاللہ کے فرزنداکبرتھے۔بیعتِ طریقت شیخ احمد جی مجذوب بن شیخ بڈھاسلیمانی گھنگوالی رحمتہ اللہ علیہ سے تھی۔جن کا ذکرطبقہ چہارم کے آٹھویں باب میں آئے گا۔ بقولِ صحیح سیّد فتح محمد بن ضیأ اللہ رسول نگری رحمتہ اللہ علیہ کے مریدوخلیفہ تھے۱؎۔
کرامات
چشمہ نکلنا
منقول ہے کہ ایک دفعہ آپ دَندی بیسہ میں تشریف لے گئے۔اپنے ایک بافندہ مرید کو کہاکہ ہماری گھوڑی کو پانی پلاؤ۔چونکہ اس جگہ کنواں نہیں تھا۔وہ دوسرے گاؤں لے گیا۔وہاں کے لوگوں نے اس کو مارے اورگھڑے توڑ دیئے۔اس نے آکرحقیقت بیان کی۔آپ نے فرمایاتم اس جگہ کنواں کھودلو۔سب لوگوں نے عرض کیا۔کہ یہاں کئی دفعہ کنواں کھودچکے ہیں۔ نیچے سےپانی نہیں آتا۔آپ نے فرمایااب کھودوچنانچہ آپ کے حکم کے مطابق نیچے سے پانی آگیا اور ہمیشہ کے لیے وہ لوگ آسودہ ہوگئے۔
ایک شخص کو جاگیرملنا
منقول ہے کہ راجہ سلطان خاں ساکن پوٹھی کی جاگیر ضبط ہوگئی۔ اُس نے آپ کے آگے التماس کی ۔آپ نے دعائے خیر کی۔تواس کو دوبارہ جاگیر مل گئی۔اُس نے بارہ بیگہہ زمین آپ کو نذرانہ میں دی۔
۱؎مناقبات نوشاہیہ۱۲۔سیّد شرافت
اولاد
آپ کے دو بیٹے تھے۔
۱۔سیّد سلطان صوبہ رحمتہ اللہ علیہ۔
۲۔سیّدسلطان بالارحمتہ اللہ علیہ۔
تاریخ وفات
سیّد سلطان محمود کی وفات ۱۳۸۴ھ میں ہوئی۔آپ کی قبرموضع کنجیال ۔ تحصیل کھاریاں۔ضلع گجرات میں ہے۔
مادہ ہائے تاریخ ہے
"کامگار بخت"
(شریف التواریخ جلد نمبر ۲)